[ad_1]
اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور امریکی سرپرستی میں اس کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بے گناہ، معصوم اور نہتے فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں گزشتہ تقریباً سات ماہ سے آگ اور بارود کے درمیان اپنے خون سے جو تاریخ رقم کر رہے ہیں، دنیا میں اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ غزہ تباہی و بربادی کی الم ناک داستان اور لاشوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
مسلمانوں کا خوشیوں بھرا تہوار عیدالفطر جو امت مسلمہ میں مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و جذبے اور مسرتوں و شادمانیوں کے ساتھ منایا گیا، لیکن غزہ کی عید بھی لہو میں ڈوبی رہی۔ اسرائیل نے اپنی بربریت کا سلسلہ عید کے موقع پر بھی جاری رکھا اور عید کے پہلے دن اسرائیلی فوج کی بمباری سے 122 افراد، دوسرے دن 63 اور تیسرے دن 89 افراد شہید ہو گئے۔
گزشتہ سال 7اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق شہدا کی تعداد34 ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے ۔ غزہ میں مکان، اسپتال، اسکول، عمارتیں سب ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ خوراک اور دواؤں کی عدم دستیابی سے بچ جانے والے فلسطینیوں پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج امدادی کاموں میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے اور غزہ کے مظلوموں تک امدادی اشیا پہنچانا مشکل ہو رہا ہے۔
جنگ بندی کے حوالے سے کی جانے والی تمام کوششیں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی ویٹو پاور کے باعث اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل فلسطین جنگ بندی کے حوالے سے منظور ہونے والی قراردادوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
چند روز قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن کی حیثیت سے پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی معاونت سے غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی فروخت اور فراہمی پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات پر مشتمل جو قرارداد پیش کی تھی۔ اس کے حق میں 28 اور مخالفت میں صرف 6 ووٹ آئے جب کہ 13 ملکوں نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی نہ روکی گئی تو اس کا مطلب غزہ کے باشندوں کو نسل کشی کے خطرے سے دوچار کردینا ہوگا۔ آٹھ صفحات پر مشتمل قرارداد میں اسرائیل سے فلسطینی سرزمین سے قبضہ اور غزہ کی پٹی کی غیر قانونی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فروخت فوری طور پر روک دیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قرارداد کا کوئی اثر ہوا یا ہوگا؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ سات ماہ سے جاری جنگ میں ہزاروں فلسطینی اسرائیلی فوج کی درندگی کا نشانہ بن کر خون میں نہلا دیے گئے۔
غزہ کا پورا انفرا اسٹرکچر پلوں، سڑکوں، اسکولوں، اسپتالوں اور رہائشی علاقوں میں بربادی کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں اور نہ جانے ابھی اورکیا کچھ ہونے والا ہے کیوں کہ اسرائیل بربریت پر تلا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی تک جنگ بند نہیں ہوگی۔ اسرائیل خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے جو اس کے ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے کا حصہ ہے، اسی باعث اس نے ایران کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کر کے ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید کر دیے جس کے جواب میں ایران نے 13 اپریل کو تقریباً دو سو کے لگ بھگ ڈرون اور کروز میزائل سے اسرائیل پر حملہ کیا۔
ایران اس حملے سے خبردار کر چکا تھا کہ وہ قونصل خانے پر حملے کا بدلہ ضرور لے گا۔ ایران نے میزائل حملے کے بعد واضح طور پر کہا ہے کہ ہم نے اپنے اہداف حاصل کر لیے، آپریشن ختم ہوگیا۔ لیکن اسرائیل نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والوں کو غزہ بنا دیں گے جس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امارات، قطر، روس، چین اور عالمی برادری نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی درندگی اور اس کے بڑھتے ہوئے خطرناک اور ناپاک عزائم کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی ناکامی اپنی جگہ لیکن مسلم امہ اور او آئی سی کی گہری و مجرمانہ خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یادش بخیر! 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان میں آگ و خون کا آلاؤ روشن کیا تھا تو بیروت میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لبنان کے وزیر اعظم نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے مسلم امہ سے اپیل کی تھی کہ لبنان کو اسرائیل کی بربریت سے بچایا جائے۔ بعینہ آج غزہ میں برپا شام غریباں کے مظلومین امت مسلمہ کی بے حسی سے مایوس ہو کر اپنے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کر رہے ہیں کہ وہی ذات برحق اب مظلوم فلسطینیوں کا واحد سہارا ہے۔
[ad_2]
Source link