[ad_1]
لاہور: تحریر: عائشہ صغیر
پاکستان میں خواتین میں نشے کے استعمال کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھتا جا رہا، اس میں سرفہرست سگریٹ نوشی ہے جو نہایت شوق سے سرعام کی جاتی ہے، پھر سگریٹ سے آگے بڑھ کر بات شراب نوشی، چرس، کوکین، کرسٹل اور آئس تک جا پہنچتی ہے اور چرس کا استعمال خواتین میں نسبتاً زیادہ ہے۔
یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم کے سروے 2012 اور 2013 کے مطابق پاکستان میں تقریباً چھ فیصد آبادی جو چھ اعشاریہ سات ملین افراد کے مساوی ہے، نے پچھلے سال شراب اور تمباکو کےعلاوہ دیگر نشہ آور اشیا استعمال کی ہیں۔ ان میں 9فیصد مرد اور دو اعشاریہ نو فیصد خواتین شامل ہیں۔ آج 2024 میں اس کی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔
پاکستان میں نوجوان لڑکیاں اور خواتین کی کتنی بڑی تعداد نشے میں مبتلا ہے، اس کے اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم بحالی سینٹرز انتظامیہ کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد سینٹرز میں علاج کے لیے آتی ہیں۔
لاہور شہر میں ایک بڑے ری ہیبلی ٹیشن سینٹر میں بطور سائیکالوجسٹ کام کرنے والی ڈاکٹر شمائلہ بتول کے مطابق کئی والدین بدنامی کے ڈر سے لڑکیوں کو ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز میں علاج کرانے کے بجائے گھر میں ہی علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے منشیات میں مبتلا خواتین کا ڈیٹا میسر آنا مشکل ہے۔
ایک دوسرے ری ہیبلی ٹیشن سینٹر سے علاج کرانے والی لڑکی زونیرا کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے باوجود نوکری نہ ملنے کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں چلی گئی تھی، گھر والے بھی یہی کہتے تھے تمہیں اتنا پڑھانے لکھانے کا کیا فائدہ ہوا، میرے ساتھ کی سب کزنز اچھی جابز کر رہی تھیں لیکن میں نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے دوستوں کے ساتھ پارٹیز پر جانا شروع کر دیا۔
زونیرا نے بتایا کہ وہاں دوستوں کے اصرار پر ہی میں نے پہلے شراب پینا شروع کی اور پھر بعد میں دیگر منشیات کا استعمال شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو میرے گھر والوں کو علم نہیں ہوا لیکن جب میری والدہ کو علم ہوا تو میں اس وقت تک آئس کے نشے کی عادی ہو چکی تھی اور میری حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔ میرے گھر والے بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے مجھے کمرے میں بند کر دیا۔
زونیرا کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے گھر والوں پر بہت غصہ آیا اور وہ موقع پاکر گھر سے فرار ہوگئیں، گھر سے وہ اسی دوست کے گھر پہنچیں جس نے اسے پہلے پہل آئس کا نشہ دیا تھا۔ وہاں سے ہم دونوں دوست ڈیفنس میں ایک تیسرے دوست کے فلیٹ پر منعقدہ پارٹی پر گئیں لیکن وہاں ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی بدل دی۔
زونیرا نے بتایا کہ پارٹی میں موجود ان کے ایک دوست نے نشے کی حالت میں دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی اور جان کی بازی ہار گیا جس کے بعد پولیس پہنچی اور وہاں پر موجود ہم سب دوستوں کو ساتھ لے گئی۔ انکا کہنا تھا کہ اس واقع سے میں اتنا ڈر گئی کہ خود والدین سے کہا کہ میرا علاج کرائیں، زونیرا کہتی ہیں میرا علاج چل رہا ہے اور اب میں پہلے سے بہتر ہوں۔
لاہور سے ہی تعلق رکھنے والی ماہم نے بتایا کہ وہ جس سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں وہاں شراب، چرس اور کوکین عام بات ہے اور اسے اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے۔ ماہم نے بتایا کہ وہ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور ان کے تقریباً سب ہی دوست منشیات لیتے ہیں تاہم میں خود آئس، ہیروئن اور انجیکشن کے ذریعے لی جانے والی منشیات استعمال نہیں کرتی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ایک دوسرے کا اس حوالے سے بہت خیال رکھتے ہیں کہ ایک حد سے زیادہ منشیات نہ لیں اور پارٹیز میں بھی ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے گروپ میں کوئی منشیات کی زیادہ مقدار لینے کی کوشش کرے تو گارڈز موجود ہوتے ہیں جو ایسے دوستوں کو پارٹی سے باہر لے جاتے ہیں۔
کلینکل سائیکالوجسٹ جہاں آرا رانا کا کہنا ہے کہ نشہ کرنے والوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی روٹین بدل جاتی ہے۔ سونے جاگنے، کھانے پینے اور یہاں تک کہ گھر والوں سے بھی دور دور رہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں گھر والوں کو الرٹ ہونے کی ضرورت ہے اور جب اس بات کا علم ہو جائے کہ بیٹی یا بہن نشے کی عادی ہو چکی ہے تو اس پر پردہ ڈالنے اور گھر میں بیٹھ کر چیزیں خود بخود ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے فوری طور پر علاج کی طرف جانا چاہیے۔
ڈاکٹر جہاں آرا نے مزید کہا کہ نشہ کرنے کی عادت باقاعدہ ایک بیماری ہے جس طرح دوسری بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اسی طرح اس بیماری کا بھی علاج ضروری ہے اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد بھی مریض کی مسلسل نگرانی کرنی چاہیے کیونکہ نشہ کرنے والے دوبارہ نشہ کرنے کی لت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ حب سید ذوالفقار حسین کے مطابق 2023 میں لاہور میں آئس کا نشہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 560 بے گھر نامعلوم منشیات کے عادی افراد نشے کی زیادتی کے باعث سڑکوں پر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ سڑکوں پر انجیکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال کرنے والے افراد میں 40 فیصد ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
سید ذوالفقار حسین کا ماننا ہے کہ ملک میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی بڑی وجہ منشیات کا بآسانی دستیاب ہونا ہے، نوجوان نسل میں منشیات کے بڑھتے رجحان کو حکومتی سطح پر بھی محسوس کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے حکومت پنجاب نے ڈرگ فری پنجاب مہم شروع کی جس کے تحت لاہور سمیت مختلف اضلاع میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی میں تیزی آئی ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر پولیس نے پچھلے انچاس دنوں میں سات ہزار انچاس مقدمات درج کر کے سات ہزار پانچ سو منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ ملزمان سے 4ہزار 897 کلو گرام چرس، 26 کلو گرام آئس، 210 کلو افیون اور 88 کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔
اس حوالے سے آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کرنے والے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لا کر قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔
[ad_2]
Source link