[ad_1]
گزشتہ کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں میں عید کی خوشیاں کیسے منائی جاتی ہیں، ان کا تفصیلی ذکر کروں گا لیکن لاہور پہنچتے ہی نئی نئی خبریں منتظر تھیں، اس لیے فی الحال گاؤں کا تذکرہ موخر کرتے ہوئے ان تازہ خبروں پر تبصرہ ضروری ہے۔
تازہ ترین خبر ہماری نئی نویلی پنجاب حکومت کی جانب سے آئی ہے جس نے تندوری روٹی کی قیمت 16روپے مقرر کردی ہے اور تندور مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 100 گرام روٹی کے نرخ 16 روپے وصول کریں گے اور خلاف ورزی کو برداشت نہ کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
ادھر تندور والوں نے یہ حکومتی حکم مسترد کر دیا ہے اور جواز دیا ہے کہ گیس ، بجلی ، دکانوں کے ماہانہ کرائے،ملازمین کی تنخواہیں ، ٹرانسپورٹیشن اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ سرکاری ریٹ پر روٹی فراہم کرنا ممکن نہیں رہاجب کہ حکومتی استدلال ہے کہ چونکہ آٹے کی قیمت میں خاطر خواہ کمی ہو ئی ہے، لہذ روٹی کی قیمت بھی کم ہو سکتی ہے۔
جن دنوں میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، تب سستی روٹی اسکیم کے تحت تندوروں کو سبسڈی دی گئی تھی لیکن اس وقت اس پر بہت اعتراضات اٹھائے گئے جو حکومت کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن گئے اور سبسڈی کے ذریعے سستی روٹی کا منصوبہ احسن طریقہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ آج کی اطلاعات ہیں کہ سرکاری ہر کارے تندروں پر جاکر نگرانی کررہے ہیں اور چند ایک تندور مالکان پر پرچے بھی درج کر دیے گئے ہیں ۔
سستی روٹی کے لیے سستی گندم کا حصول بہت ضروری ہے جس کے لیے گندم کی پیدوار کے اجزاء کا سستا ہونا ضروری ہے لیکن بد قسمتی سے ڈیزل، بجلی، کھاد ، بیج وغیرہ اس قدر مہنگے ہو چکے ہیں کہ سستی گندم اگانا ممکن نہیں رہا ، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے امسال گندم کی خریداری قیمت 39 سو روپے مقرر کر دی ہے جس پر کسان مایوس ہیں اور کسان تنظیم کے نمایندہ نے اس ماہ کے آخر میں لاہور میں احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا۔
ہمارے حکمرانوں کھیت کھیلانوں سے بہت دور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر افسر شاہی کی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ ہماری افسر شاہی کی تو تربیت ہی’’ یس سر‘‘ کے لفظ کے گرد گھومتی ہے ۔حکمران کے کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کرنا اور حکمران کو صحیح مشورہ دینا بیوروکریسی کی تربیت میں شامل ہی نہیں ہے ۔
اس لیے حکمرانوں کے فیصلوں کے یہی نتائج سامنے آئیں گے جو ہم دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ اصل خرابی یہ ہوتی ہے حکمران اپنے اللے تللے جاری رکھتے ہیں، اگر ہماری وزیر اعلیٰ پنجاب کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہیں،تو انھیں اور ان کی ٹیم کو سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنا ہوگی ، حکمرانی کے تام جھام سے دور رہنا ہوگا ۔ غیرضروری سیکیورٹی اور پروٹوکول کم صرف اتنی سیکیورٹی اور پروٹوکول لینا ہوگا،جو ضروری اور لازم ہوگا۔
شہریوں کو پریشان کرنے کے کلچر سے دور رہنے کی ضرورت ہے ۔ یہ وہ فوری کام ہیں جن پر کوئی خرچ نہیں ہوتا اور اس کے نتائج فوری برآمد اور مثبت ہوتے ہیں۔ یہ خود احتسابی کا وہ عمل ہے جس میں آج تک کوئی حکمران کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہماری دعا ہے کہ محترمہ مریم نواز جو ایک نئے طرز حکمرانی کی دعویدار ہیں وہ اس میں کامیاب ہو جائیں اور اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہیں تو عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف مزید بلند ہو جائے گا اور عوام ان کا سہارا بنیں گے لیکن صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب وہ اپنے ارد گرد موجود خوشامدیوںکے نرغے سے نکلیں گی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر فیصلے کریں گی۔
بجلی کی قیمتوں کی قیمت بڑھنے کی خبر پڑھنے کو ملی۔ اس اضافی بوجھ کو حسب سابق فوری طور پر صارفین پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہمارے دوست وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے جن کے متعلق رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ان کی کمال مہربانی ہے کہ انھوں نے وزیر داخلہ بننے پر اکتفا کیا ہے، انھوں نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بجلی کی کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو کروڑوں یونٹ کے اضافی بل بھیجے گئے ہیں، صرف لاہور کی کمپنی نے 83 کروڑ یونٹ کی اضافی بلنگ کی ہے جس کے لیے عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں سزا اور جزا کا عمل مکمل طور پر رک چکا ہے امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون کافارمولا لاگو ہے جس کی وجہ سے فیصلہ ساز بے لگام ہو چکے ہیںاور ان کے غلط فیصلوں کے نتائج عوام بھگت رہے ہیں، یہ غلط فیصلہ کرنے والے وہ افسران ہیں جن کی ہر دور میں بادشاہی رہی ہے جب کہ حکمران کشکول اٹھائے بیرونی ممالک سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور قومی اثاثوں پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کر رہے ہیں۔
نہ جانے وہ وقت کب آئے جب عوام کی داد رسی کے لیے کوئی حکمران کھڑا ہو جائے گا اور ان غلط فیصلہ سازوں کو نکیل ڈالے گا۔ جس دن سزا کا عمل شروع ہو گا، اسی دن سے عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا اور سستی روٹی کا حصول ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن جائے گا ۔
[ad_2]
Source link