9

کاشتکاروں کے ساتھ ظلم اور سانحۂ بہاولنگر

[ad_1]

عید کے دن ہمیشہ آبائی گاؤں کٹھوڑ میں گزارتا ہوں، ملاقاتیوں میں اسی فیصد دیہاتی اور کاشتکار تھے۔ پچھلے سال اس موسم میں کاشتکاروں کے چہروں پر تابانی اور شادمانی تھی، مگر اس بار وہ مرجھائے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی دل گرفتگی کی وجہ دریافت کی تو بتانے لگے کہ گندم کی فصل پکی ہوئی ہے، گندم ہمیشہ مناسب داموں پر حکومت خریدتی ہے۔ اس بار ڈیزل، کھاد، بیج اور بجلی کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ زمین کے مالک کا ٹھیکہ شامل کریں تو بات ڈیڑھ لاکھ سے اوپر جاتی ہے۔

اس لیے کاشتکاروں کو امید تھی کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال چونکہ اخراجات (cost of production) میں بے حد اضافہ ہوا ہے، اس لیے گندم کی سرکاری قیمت میں اضافہ ہوگا۔ مگر پنجاب حکومت نے کاشتکاروں کے ساتھ دو زیادتیاں کیں، ایک تو گندم کی قیمت پچھلے سال کی نسبت کم مقرّر کی اور دوسرا یہ کہ کاشتکاروں کو ڈیلروں اور مل مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تاکہ وہ کاشتکاروں کا جی بھر کے استحصال کرسکیں۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمت 3900/- روپے فی من مقرر کی ہے مگر حکومت نے ابھی خود گندم کی خریداری نہیں شروع کی ہے، البتہ بائیس اپریل خریداری کی تاریخ مقرر کردی ہے، ادھر آڑھتیوں اور ڈیلروں نے کاشتکاروں کو کند چھری سے ذبح کرنے کا پروگرام بنالیا ہے۔ جلدگندم بیچنا چھوٹے اور درمیانے کاشتکاروں کی مجبوری ہے، اس لیے کہ انھیں پیسے چاہئیںتاکہ وہ اگلی فصل کے لیے زمین کی تیاری اور بیج، کھاد وغیرہ کا بندوبست کرسکیں، لہٰذا کاشتکاروں کی مجبوری دیکھ کر ڈیلرز ان کے ظالمانہ استحصال پر اتر آئے ہیں اور ان سے بتیس سو روپے من پر گندم خرید رہے ہیں۔

اتنی کم قیمت پر فروخت کرنے سے کاشتکاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے، انھی سوچوں نے ان کی خوشیاں چھین لی ہیں اور وہ گہری تشویش اور پریشانی کے اندھیروں میں گم سم نظر آتے ہیں۔ محمد شریف جس نے سات ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی مجھ سے علیحدہ ملا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کہنے لگا بجلی کا بل دینے سے قاصر ہوں، اس لیے کھیتوں کے پانی کے لیے لگوائی گئی بجلی کی موٹر کٹوادی ہے۔ گھر میں روٹی پکانے کے لیے سوئی گیس کی سہولت تھی مگر بل دیکھ کر سب گھر والے بلبلا اُٹھے ہیں اور اب ہم نے محکمے کو گیس کا میٹر کاٹنے کا کہہ دیا ہے۔

اگلے مہینے بیٹی کا نکاح کرنے کا ارادہ تھا مگر اب لگتا ہے کہ شاید۔۔۔۔ محمد شریف کے منہ سے بات نہ نکل سکی مگر اس کے آنسوؤں نے ساری کہانی سنادی۔ اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یا عالمی ساہوکاروں کے دباؤ پر حکومت نے ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرکے غریب اور درمیانے طبقے کی خوشیوں اور ارمانوں کا قتل کردیا ہے۔

پڑھے لکھے کاشتکار تفصیل بتاتے ہوئے زیادہ غصے کا اظہار کرتے رہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ حکمرانوں کی بے حسی ہے یا کمیشن کا لالچ، کہ یہ اپنے ملک کے کاشتکاروں کو فصل کا مناسب معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں مگر باہر سے انتہائی مہنگے داموں ناقص کوالٹی کی گندم درآمد کرلیتے ہیں۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار ایک عارضی شے ہے۔ اگر آپ کے دل میں محنت کشوں اور کاشتکاروں سے ہمدردی نہیں ہوگی تو پھر کسی قسم کی بیساکھیاں آپ کے اقتدار کو طول نہیں دے سکیں گی۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ کاشتکاروں کو اس ظلم اور زیادتی سے بچائے اور فوری طور پر مناسب قیمت پر گندم کی خریداری شروع کرے۔

سانحۂ بہاولنگر

سوشل میڈیا پر تمام حقائق سامنے آچکے ہیں، اس سے دونوں فریقوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود عوام کی ہمدردیاں پولیس کے ساتھ نہیں ہوسکیں، اس سے ہر رینک کے پولیس افسر کی آنکھیں کھلنی چاہئیں اور اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ فیس بک پر جعلی کاروائیاں ڈالنے یا تھانوں کو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بدلنے سے عوام میں goodwill نہیں بن سکتی۔ آغاز میں عوام خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کے مخالف طبقے نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کی مگرمتعلقہ ایس ایچ او کی مشکوک شہرت جان کر ہمدردانہ آوازیں مدہم پڑگئیں۔

ماضی میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں جب ایک پولیس کانسٹیبل ان کی زیادتی کا نشانہ بنا مگر عوام اور میڈیا نے پولیس کانسٹیبل کا بھرپور ساتھ دیا کیونکہ اس کے دامن پر کسی بری شہرت کا داغ نہیں تھا۔ یہ جان کر سینئر پولیس افسروں کی نیندیں حرام ہو جانی چاہئیں کہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہونے والے تشدد اور بے عزتی پر عوام کی اکثریت نے خوشی کا اظہار کیا ہے، اس لیے کہ وہ پولیس کے عمومی طرزِ عمل سے نالاں ہیں ، خصوصاً پنجاب میں پچھلے چند برسوں میں پولیس افسروں نے حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، اس سے پولیس کے خلاف نفرت بڑھی ہے۔

انھیں جب بھی کہا گیا کہ فلاں پارٹی کے فلاں لیڈر کو پکڑ لاؤ، تو وہ یہ سوچے بغیر کہ یہ احکامات غیر قانونی ہیں، اسی وقت دروازے توڑ کر لوگوں کے گھروں میں گھس گئے اورکچھ تو خواتین سے بھی بدتمیزی کرتے رہے۔ انتخابات میں بھی نیچے سے اوپر تک کسی پولیس افسر یا کسی کمشنر، ڈی سی یا اے سی نے غیر قانونی احکامات سن کرNO  کہنے کی ہمت نہیں کی۔ ہر شہری اور ہر خاتون قابلِ احترام ہے اور کسی بھی گھر کا تقدس مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ مگر قوم کو اس وقت بے پناہ صدمہ پہنچا جب یہ خبر ملی کہ لاہور پولیس (جس کا میں خود بھی سربراہ رہ چکا ہوں) نے مفکّرِ پاکستان اور مسلمانوں کے عظیم محسن حضرت علامہ اقبالؒ کے گھر کو بھی نہیں بخشا اور ان کی بہو کے گھر کا تقدس بھی پامال کردیا ہے۔ زمانۂ حاضر کی معقوب پارٹی کے سپورٹروں نے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غصّہ نکالا مگر پھر انھیں پولیس کی زیادتیاں یاد آگئیں اور انھوں نے پولیس کے زخموں پر منوں کے حساب سے نمک چھڑک کر بدلہ لیا۔

اس واقعے پر عوامی ردّ ِ عمل نے پولیس کو آئینہ دکھادیا ہے، اس واقعے پر تمام پولیس افسروں کو اجتماعی توبہ کرنی چاہیے، عوام سے معافی مانگنا چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ آیندہ ایک غیر جانبدار پروفیشنل سروس کے فرد بن کر عوام کے جان اور مال کے تخفّظ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ دوسری جانب عسکری ادارے کے اہلکاروں نے بھی حدود سے تجاوز کیا ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے عدالت یا کنٹونمنٹ کا ایک تقدس اور نارمز ہوتے ہیں ، اسی طرح پولیس اسٹیشن کی اپنی sanctityاور قانونی تحفظ ہوتا ہے جو کبھی مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ بلاشبہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی یونیفارم بہت مقدّس ہے مگر شہریوں کی حفاظت کرنے والی پولیس کی یونیفارم کا تقدس بھی مجروح نہیں ہونا چاہیے۔

اس کا تمام مہذب معاشروں میں احترام کیا جاتا ہے ، اگر ایک تھانیدار نے آرمی کے کسی جوان غیرقانونی اور بے جا تشدد کیا تھا تو اسے گرفتار کرکے سزا دلوائی جاسکتی تھی اور نوکری سے برخاست بھی کروایا جاسکتا تھا۔ مگر غیرقانونی عمل کا ازالہ غیرقانونی عمل سے نہیں ہوسکتا۔ یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اِس عمل اور ردعمل سے وقتی رٹ تو قائم ہوسکتی ہے مگر عوام کی محبت اور احترام نہیں جیتا جاسکتا۔

پولیس اسٹیشن کے اندر اس قسم کا واقعہ ہونا سنگین واقعہ سمجھا جاتا ہے، ایسے واقعات پر ماضی میں پولیس افسر اسٹینڈ بھی لیتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ماضی کے سی سی پی او لاہور پرویز اٹھور صاحب کے اصولی اسٹینڈ کی مثال موجود ہے ، ان کا سوشل میڈیا میںذکر ہوتا رہا ہے۔

ضیاء دور میں بلوچستان کی ایک سرکاری تقریب میں اس وقت کے صوبائی گورنر جنرل رحیم الدین نے پولیس کے بارے میں نامناسب جملہ کہا تو اسی وقت آئی جی سعادت علی شاہ واک آوٹ کرگئے اور استعفیٰ بھیج دیا ، پھر اس پاورفل گورنر نے آئی جی کے گھر جاکر معذرت کی۔ یہ اس لیے ہوا کہ وہ ایسے کمانڈر تھے جو عہدوں سے چمٹتے نہیں تھے۔ آج کل کے افسر صرف ٹک ٹاکر ہیں۔ آئی جی پنجاب کے پاس بھی ایسا باوقار آپشن تھا، مگر افسوس ! استعمال نہ ہوا ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں