[ad_1]
میرا ایک دوست پرلے درجے کا دانشور ہے، عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتا ہے، تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ایسی کہ بس یوں سمجھ لیں ؎
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے ، آواز تودیکھو
ایران کے اسرائیل پر حملہ کرنے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں تو موصوف دوڑتا ہوا آیا، چھوٹتے ہی بولا، دوستو! ایران مسلم دنیا کی چھپن ’’ بہنوں‘‘ کا اکلوتا بھائی ثابت ہوا ہے ، اس نے اسرائیل کے ’’پھٹے چک‘‘ دیے ہیں ،کسی مسلم ملک کی قیادت میں ہمت نہیں ہوئی کہ اسرائیل کو ایسا جواب دیتا ، اسی لیے تو میں نے ایران کو چھپن بہنوں کا اکلوتا بھائی قرار دیا ہے۔
موصوف تیسری عالمی جنگ کرانے پر تلا بیٹھا تھا، عالمی جنگ سے کم پر مان ہی نہیں رہا تھا، اس جوش وجذبے کی جولانیوں اور شعلہ افشانیوں کے سامنے مجھے تو چپ لگ گئی لیکن قریب بیٹھے ایک اور دوست دلیری کرکے بولے، آپ کا جذبہ اور تجزیہ سر آنکھوں پر لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ کیسا حملہ ہے ، جس میں کسی کی ہار ہوئی ہے نہ کوئی جیتا ہے۔
اسرائیل میں کہاں تباہی ہوئی ہے، کتنی تباہی ہوئی ، کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں۔ اسرائیل کے ڈیفنس سسٹم نے جو ایرانی میزائل روکے یا تباہ کیے، ان کا ملبہ کدھر ہے، اس پر خاموشی ہے۔‘‘ یہ سن کر میرا دانشور دوست سرکھجانے کی ایکٹنگ کرنے لگا،لازمی طور پر وہ کوئی موثر جواب سوچ رہا تھا۔
اس سے قبل کہ وہ تھرڈ ورلڈ وار کا بگل بجا دیتا، میں نے اخبار اٹھایا اور اونچی آواز میں ایک خبر پڑھنے لگا، ’’اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی کابینہ برائے جنگی امور کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایران کو نقصان پہنچانا ہے مگر جنگ نہیں کرنی ہے۔
یوں اسرائیل پر ایرانی حملے پر ہنگامی طور پر بلایا گیا یو این سیکیورٹی کونسل کونسل کا اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ سیدھی بات ہے، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مصداق جب حملہ آور کہے کہ بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب، اتنا ہی کافی ہے، مزید مزائل فائر نہیں کریں گے۔
متاثرہ فریق بھی کمال مہربانی سے بات مان لے اور’’ تمھیں دیکھ لوں گا‘‘ کی بڑھک مار کر موقع سے فرار ہوجائے تو اقوام متحدہ کی سیکیوٹی کونسل لمبی تان کر کیوں نہ سوتی رہے۔ البتہ خبر میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے مندوبین نے تلخ تقاریر کی ہیں، ایران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں لیکن چھپن بہنوں کے بھائی نے یہاں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے ،اسرائیل اور امریکا کو خبردار کیا کہ اگر انھوں کوئی ہینکی پھینکی کی تو گردن تن سے جدا کردی جائے گی۔ اسرائیلی سفیر گیلاد نے ایران پر ہر ممکن پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا آیت اللہ علی خامنہ ای اور ان کی حکومت اسرائیل کو ابلتے پانی میں مینڈک سمجھتی ہے، وہ غلطی پر ہیں۔
ایران نے ہماری سرزمین پر حملہ کرکے ہر سرخ لکیر کو عبور کیا۔ اسرائیل ایران کے دہشت گرد پراکسیز میں گھرا ہوا ہے۔ غزہ کی جنگ اسرائیل اور حماس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ایران کے مستقل نمایندے امیر سعید نے کہا اسرائیل پر کیا گیا حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق تھا۔امریکا یا اسرائیل نے پھر ایران پر حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیںگے۔ مغرب کو تو چاہیے کہ وہ ایران کے صبر کی تعریف کرے لیکن امریکا، برطانیہ اور فرانس کا رویہ منافقانہ ہے۔ امریکی سفیر نے کہا سیکیورٹی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ ایران سے جواب طلب کرے۔
ایران نے ہی حماس کو 7اکتوبر کے حملے کے لیے فنڈنگ کی اور اسے تربیت فراہم کی تھی۔ جی7ممالک کے ہنگامی اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کو اپنی مکمل حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترک سفارت کار نے بتایا ہے کہ اسرائیل پر حملے سے قبل ایران نے ترکیہ کے ذریعہ امریکا کو پیغامات دیے تھے۔
اسی لیے اسرائیل حملے کے وقت سے آگاہ تھا۔ اسرائیل نے ایرانی حملے میں نیواتیم ایئربیس کو نقصان پہنچنے کا اعتراف کر لیا ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران کے خلاف فوری جوابی حملے شروع کرنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ۔ اقوام متحدہ کے سربراہ اور عصر حاضر کے بہادر شاہ ظفر یعنی گوتریس نے بھی یہ کہہ کر کہ ’’ مشرق وسطی اور دنیا مزید جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی‘‘ اپنے رہا ہونے کی اطلاع دی تاکہ انھیں اقوام متحدہ کے خزانے سے ماہانہ وظیفہ ملتا رہے۔
نیٹو نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کشیدگی کم اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی صورتحال پر غور کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں چائنیز مشن کے ناظم الامور دائی بنگ نے بھی مشورہ دیا ہے کہ ایران اور اسرائیل پرسکون رہیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔
میں خبریں پڑھتا رہا، آخر دانشور دوست کا صبر جواب دے گیا‘ ’’کیا رطب ویابس بولے جارہے ہو، ان خبروں سے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تم ابہام پھیلا رہے ہو، تم جیسے لوگوںنے پاکستان اور مسلم ممالک میں مایوسی پھیلا رکھی ہے،اگر ایک مسلم ملک نے جراتمندی کا مظاہرہ کرکے اسرائیل اور امریکا کو منہ توڑ جواب دیا ہے، تو اس کی تحسین کرتے ہوئے تم جیسے لوگوں کی زبان پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔ تم جیسے بزدل اورموقع پرستوں کی وجہ سے پاکستان میں ناانصافی عروج پر ہے۔انصاف پسند ججز کو دھمکیاں مل رہی ہیں، انھیں زہریلے پاوڈر سے آلودہ لفافے بھیجے جا رہے ہیں۔
ایسے ماحول میں ججز کیسے انصاف کرسکتے ہیں اور عدلیہ آزاد کیسے ہوسکتی ہے۔‘‘یہ لیکچر دے کر وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے بھی سوچا کہ مزید بولا تو کہیں تیسری عالمی جنگ شروع نہ ہوجائے لہٰذا کان لپیٹ کر وہاںسے اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے چلتے سوچا، پاکستان میںجو جتنا بااختیار ہے، اتنا بزدل بھی ہے ۔
ہمارے ریاستی نظام میں عدلیہ سے زیادہ بااختیار کوئی نہیں ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک اختیارہی اختیار ہے۔صدر، وزیراعظم ،سی ایمز، گورنرز، آئی جیز، بزنس ٹائیکونز، جاگیردار، گدی نشین اور مافیا ڈانز تک عدالت میں اچھے بچے بن کر پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا ججز کا دھمکیوں سے خوفزدہ ہونا، مجھ ناقص العقل کی سمجھ سے باہر لیکن میرا دانشور دوست سب جانتا اور سمجھتا ہے، لہٰذا میں اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں، کسی کو دھمکانا اچھی بات نہیں ہے لیکن ڈر جانا بری بات ضرور ہے۔
[ad_2]
Source link