10

جماعت اسلامی کے نئے امیر اور نئے چیلنجز

[ad_1]

انجینئر حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے سینئر رہنماؤں سراج الحق اور لیاقت بلوچ کو شکست دے کر چھٹے امیر منتخب ہوگئے ہیں۔ دورِ حاضر کے معروف عالم مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد 1941 میں رکھی تھی تو جماعت کے رفیق اور رکن بننے کا طریقہ کار خاصا سخت تھا، پھر اس طریقہ کار میں تبدیلی آتی چلی گئی۔

حافظ نعیم کی عمر 52 سال ہے، یوں جماعت کی قیادت سنبھالنے والے سب سے کم عمر رہنما حافظ نعیم الرحمن حیدرآباد سندھ میں ایک اردو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے حیدرآباد کی جامع مسجد دارالعلوم لطیف آباد یونٹ 10 سے حفظ کیا۔ حیدرآباد سے ہی میٹرک کیا اور این ای ڈی یونیورسٹی کے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ حافظ نعیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے۔ جماعت اسلامی میں قاضی حسین احمد کی امارت کے دور میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، جماعت نے شہریوں کے مسائل پر آواز اٹھانا شروع کی۔

ان کے دور میں جماعت اسلامی کی قیادت نے کچی آبادیوں، کراچی میں پانی اور بجلی کے مسائل پر رائے عامہ بلند کرنا شروع کی اور تعلیمی اداروں اور قومی صنعتوں کی نجکاری کی مخالفت کی۔ (جماعت اسلامی کے 1970 کے منشور میں نجی ملکیت کے تحفظ پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔) جماعت اسلامی کے ایک دانشور اس دور میں کہتے تھے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے استحصال اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے دیگر جماعتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں کشمیر میں جہاد کے لیے نوجوانوں کو بھیجنے کا فریضہ انجام دیتی رہی تھیں۔

اسی زمانے میں جماعت اسلامی کے رہنما سرفراز احمد اور ان کے ساتھی پروفیسر سعید عثمانی نے بھارت کے سول سوسائٹی کے وفد جن کی قیادت معروف صحافی کلدیپ نیئر کر رہے تھے نے کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد اور کراچی کے امیر ڈاکٹر معراج الہدی نے بھی شرکت کی۔ یہ جماعت اسلامی کی پالیسی سے کھلا انحراف تھا، پہلے شاید ایسا کبھی نہیں ہوا۔

چند سال قبل جماعت اسلامی کی پالیسی میں کچھ واضح تبدیلیاں نظر آئیں۔ سینیٹ میں جماعت اسلامی کے نمایندہ پروفیسر مشتاق نے پی ڈی ایم کی قیادت پرمقدمات کے خلاف آواز اٹھائی ۔ کسی قوم پرست تنظیم سے یکجہتی جماعت کا نیا ایڈیشن کہا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے گوادر کے ماہی گیروں کے مطالبات کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی۔ گوادر کے ماہی گیروں کے سمندر میں مچھلی کے شکار کے حق کی بحالی کے لیے ایک تحریک کی قیادت کی۔ انھوں نے فروری کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کے اتحاد میں شامل ہیں۔

جب حافظ نعیم الرحمن کراچی کے امیر بنے تو کورونا کی وباء کے دوران انھوں نے مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں میں جاکر اسپرے کیا اور امدادی سامان تقسیم کیا گیا۔ یہ ماضی کے مقابلے میں جماعت کا ایک نیا رویہ تھا۔ سب سے پہلے کراچی کے شہریوں کے شناختی کارڈ کے مسئلے پر احتجاج شروع کیا۔ جب کے الیکٹرک کے بلوں سے شہری پریشان تھے تو حافظ نعیم نے کے الیکٹرک کے استحصالی رویے کے خلاف ایک تحریک منظم کی۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی کمی اور سیوریج کے مسائل پر آواز اٹھائی۔ جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو حافظ نعیم کا لبرل رویہ سامنے آیا۔ اب جماعت اسلامی کے بینرز اور پوسٹرز پر صرف حافظ نعیم کی تصویر نظر آنے لگی۔ جماعت اسلامی نے پہلی دفعہ سوشل میڈیا پر اپنی انتخابی مہم میں خواتین کی مدد حاصل کی۔ اس مہم میں پہلی دفعہ اداکار بھی حافظ نعیم کے لیے ووٹ مانگتے نظر آئے۔ یوں جماعت اسلامی کی 82 سالہ تاریخ میں جماعت اسلامی کا اتنا لبرل رویہ پہلی بار سامنے آیا۔ البتہ ایسا رویہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آیا۔

حافظ نعیم الرحمن نے جس وقت قیادت سنبھالی ہے، اس وقت جماعت اسلامی اپنے روایتی حلقوں میں غیر معقول ہوچکی ہے۔ اب خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کی جگہ لے لی ہے۔ پنجاب میں تو جماعت اسلامی کی مقبولیت گزشتہ 24 برسوں سے کم ہوئی ہے، اب تو شاید جماعت اسلامی پنجاب کے کسی بھی شہر میں قومی و صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر نے مسلم لیگ ن سے بھی دوریاںرکھیں اور ایم ایم اے کے تجربے کے بعدکوئی نیا اتحاد بنانے کا دوبارہ تجربہ نہیں کرسکی۔

جماعت اسلامی کی قیادت نے گزشتہ دنوں حکومت مخالف جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی ہے مگر اب حافظ نعیم کے سامنے جو سب سے اہم سوالات ہوںگے، ان میں موجودہ حکومت کے مخالف اتحاد میں شرکت کرنے کے علاوہ جماعت اسلامی کے کراچی ایڈیشن کو پوری جماعت میں نافذ کرنے کا چیلنج بھی ہے۔

پروفیسر سعید عثمانی کے والد ڈاکٹر مسعود عثمانی جماعت اسلامی کے بانیوں میں شامل تھے۔ پروفیسر سعید عثمانی کی والدہ بھی جماعت اسلامی کی رکن رہیں اور خود سعید عثمانی اسلامی جمعیت طلبہ میں فعال رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حافظ نعیم کے لیے مسلم لیگ ن کی مخالفت کرنا زیادہ مشکل ہوگا مگر پیپلز پارٹی کے خلاف اپنا بیانیہ جاری رکھیں گے، اگر اسٹیبلشمنٹ نے کوئی واضح اشارہ دیدیا تو پھر حافظ صاحب وفاقی حکومت کے خلاف کسی تحریک میں مؤثر کردار ادا کرنے سے گریز کریں گے۔

پروفیسر سعید عثمانی کا مزید کہنا ہے کہ حافظ نعیم کا مرتبہ مذہبی عالم کی حیثیت سے بہت کم ہے اور ان کا سیاسی تجربہ بھی بہت زیادہ نہیں، اس بناء پر بیوروکریسی ان کے ساتھ اسی طرح سرد مہری کا رویہ رکھے گی جیسا کہ سابق امیر سید منور حسن کے مسلح افواج کے خلاف بیانیہ کے بعد روا رکھا گیا۔

ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ حافظ نعیم جماعت اسلامی کو عوامی جماعت نہیں بنا پائیں گے کیونکہ مذہبی جماعت ایک خاص نظریے سے منسلک ہوتی ہے، اس بناء پر دیگر نظریات کے ماننے والے جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔ ان تجزیوں سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی قدامت پرستی کی پالیسیوں کے غلاف سے نہیں نکل پائی ہے، اس بناء پر حافظ نعیم جماعت اسلامی کو ترکیہ کے صدر طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی طرح کی جماعت نہیں بنا پائیں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں