10

معتوب کتابیں (تیسرا اور آخری حصہ)

[ad_1]

عقیل عباس جعفری نے چین کے اس بادشاہ کے ذکر سے کتاب کا آغاز کیا ہے جس کا نام ونگ چنگ تھا، وہ چاہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کا آغاز اس کے دور سے ہو۔ اسی لیے اس نے چاہا کہ اپنے ملک کی تاریخ میں سے تمام بادشاہوں کا ذکر ختم کر دیا جائے۔ یہ ممکن نہ تھا چنانچہ ایسی تمام کتابوں کو جلوا دیا۔

کنفیوشس کی کتابیں جلا دی گئیں، جن لوگوں نے اس کا ذکر کیا تھا ان کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ زندہ دفن ہونے والے زندہ و تابندہ ہیں لیکن جس نے یہ سب کچھ کیا تھا اس بادشاہ بلکہ شہنشاہ کا نام حوالے کی کتابوں میں لکھا ہے اور کنفیوشس کا نام دنیا بھر میں پڑھایا جاتا ہے، اس دور میں لاکھوں کتابیں جلائی گئی تھیں ۔

کتابوں اور علم کی ترسیل پر پابندیوں کی کہانی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی کہانی۔ بقول ضمیر نیازی: ’’تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظالم اور غاصب ہمیشہ فکر انسانی سے خائف اور ہراساں رہے ہیں۔ تلوار انسانوں، مصنفوں اور دانش وروں کو تو قتل کر سکتی ہے لیکن فکر و تحریر میں زندہ و تابندہ رہتی ہے۔‘‘

چین میں ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا اصل نام ونگ چنگ اور معروف نام شی ہوانگ ٹی تھا، جس کے معنی ہیں پہلا شہنشاہ۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کا آغاز اس کے عہد سے ہو۔ اسی سبب سے اس نے اپنے ملک کی گزشتہ تاریخ اور بادشاہوں کا ذکر ختم کرنے کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسی تمام کتابیں نذرآتش کردی جائیں، جن میں ماضی کا ذکر ہو۔ اس حکم کی زد میں کنفیوشس کی کتابیں بھی آئیں۔ موصوف نے حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ موجودہ زمانے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ماضی کی اہمیت بڑھائیں گے انھیں ان کے اہل خانہ سمیت قتل کر دیا جائے گا۔

ڈاکٹر ارشد معراج نے اپنے ایک مضمون ’’مشہور زمانہ ممنوعہ کتب‘‘ میں لکھا ہے کہ یہی نہیں کہ اس نے صرف یہ حکم جاری کردیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا اور سیکڑوں عالم فاضل جنھوں نے اپنی محبوب کتابوں کو چھپانے کی کوشش کی زندہ دفن کردیا گیا۔‘‘

’’اس میں کوئی شک نہیں شی ہوانگ ٹی نے پرانی کتابوں کو جلوا کر اور ان کے پڑھنے والوں کو زندہ دفن کروا کے بڑی بربریت کا ثبوت دیا لیکن اس کا سب کیا کرایا اسی کے ساتھ ختم ہو گیا۔ پچاس سال کے اندر اندر اس کا زوال اور خاتمہ ہو گیا، خاندان نیست و نابود ہو گیا اور تمام ممنوعہ کتابیں خصوصاً کنفیوشس کے زمانے کی تعلیم و ادبی تصانیف زمین کھود کھود کر نکال لی گئیں اور انھیں پھر عزت کا درجہ حاصل ہوا۔‘‘

قبل از مسیح تاریخ میں اسکندریہ کے کتب خانے کا قیام بھی ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ یہ عظیم کتب خانہ تیسری صدی قبل ازمسیح میں 330 قبل مسیح سے 323 قبل مسیح کے دوران بطلیموس دوئم نے مصر میں قائم کیا تھا جسے اس کے بیٹے فیلادیلفوس نے اپنے علم پروری اور کتابوں سے دلچسپی کے باعث بہت جلد اس قابل بنا دیا تھا کہ ایتھنز کی علمی و ثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی تھی اور علم و فضل کے دالدادہ دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کتب خانے میں تقریباً دس لاکھ کتابیں موجود تھیں۔

لیکن سات صدیوں کے لگ بھگ قائم رہنے والے اس کتب خانے کا انجام بڑا عبرت ناک ہوا۔ 48 قبل مسیح میں جب جولیس سیزر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو تباہی اس کتب خانے کا مقدر بنگ ئی۔ 391ء میں تھیوفلس اعظم کے حکم سے عیسائیوں نے اس کتب خانے کی کتابوں کو نیست و نابود کردیا کیوں کہ ان کے خیال میں اس سے کفر پھیلنے کا اندیشہ تھا۔

رہی سہی کسر اورلین کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کردی گئی۔ ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اس کتب خانے کو مصر کی فتح کے وقت مسلمانوں نے نذر آتش کیا لیکن اس الزام کی تردید خود مستشرقین مثلاً ایڈورڈگبن، فلپ کے حتی، برٹرینڈرسل اورول ڈیوراں وغیرہ نے بھی کی ہے۔ یہ کتب خانہ ظہور اسلام سے دو سو سال قبل مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔

عباسی عہد حکومت میں مامون رشید نے روم کے کتب خانوں کے تہہ خانوں میں بند کتابیں مال و دولت کے عوض خرید لیں۔ مامون رشید نے بہت بڑے پیمانے پر دارالتراجم قائم کروائے اور تمام علوم و فنون کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا، یہی ترجمہ یورپ کے نشاۃ الثانیہ کی تحریک میں کام آیا۔ اس زمانے میں بغداد علمی مرکز ہونے کی شہرت رکھتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہلاکو خان کے حملوں نے اس شہر میں موجود علمی خزانوں کو نذرآتش کردیا جس کے باعث امت مسلمہ کو نقصان سہنا پڑا اور پوری دنیا میں علم کی روایت ختم ہوگئی۔

مشہور مصنف رابرٹ بی ڈاؤنز نے 16کتابوں کو اپنی ایک کتاب ’’کتابیں جنھوں نے دنیا بدل ڈالی‘‘ میں شامل کیا ہے۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ ان 16 کتابوں میں سے 4 کتابیں ایسی بھی ہیں جو مختلف ادوار میں پابندی کی زد میں آئیں۔ ان کتابوں میں میکاؤلی کی دی پرنس، ہیرٹ بیچراسٹو کی انکل ٹامز کیبن، ہٹلر کی مین کیمپف اور رابرٹ ڈارون کی آن دی اوریجن آف اسپیشیز شامل ہیں۔

’’خیالات‘‘ لاہور کے ممنوعہ کتب نمبر پر یاد آیا کہ اردو زبان میں اس موضوع پر ہونے والا یہ واحد کام ہے۔ اس رسالے کے صرف چند شمارے شایع ہوئے جن میں جولائی 1972 اور اگست 1972 کے شمارے ممنوعہ کتب نمبر کے طور پر پیش کیے گئے۔ مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’’مصطفی زیدی کی کہانی‘‘ میں یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ مصطفی زیدی جہلم سے شایع ہونے والے ادبی مجلے ’’شب تاب‘‘ کا ممنوعہ ادب نمبر شایع کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

ضمیر نیازی بھی ضبط شدہ کتابوں اور نذر آتش کیے گئے کتب خانوں پر کام کرنے کے خواہاں تھے مگر انھیں بھی زندگی نے مہلت نہیں دی۔ ان کی مجوزہ کتاب “Books in Chains. Libraries in Flames” کا اشتہار ان کی تحریروں کے مجموعے ’’باغبانی صحرا‘‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

کتابوں پر پابندی کی زد میں صرف کتابیں ہی نہیں آئیں بلکہ کہیں کہیں ان کے مصنفین کو سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑا، کہیں ان کا ناشر قتل ہوا، کہیں مصنفین کے قتل کے فتوے جاری ہوئے اور کہیں ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر ان کا جلوس نکالا گیا۔ اس کے برعکس بیسویں صدی میں ایسی کئی معتوب کتابوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا، ان کے مصنفین کو ادب کے نوبیل انعام سے سرفراز کیا گیا اور اردو سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے گئے۔

ایسی ہی ایک کتاب جون اسٹین بیک کی دی گریپس آف ریتھ ہے جس کے اردو ترجمے ’’اشتعال کی فصل‘‘ کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 2021 کے بہترین ترجمے کا محمد حسن عسکری ایوارڈ عطا کیا گیا ہے جب کہ جان اسٹین بیک کو 1962 میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ہماری اس کتاب میں انگریزی یا دوسری زبانوں میں لکھی گئی جن کتابوں کا احوال درج ہے ان میں سے کم و بیش 25 کتابوں کا ترجمہ اردو میں دستیاب ہے۔ ان تراجم کے اشاعتی حوالے ہر کتاب کی روداد کے آخر میں درج کر دیے گئے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ جن کتابوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے ان کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قارئین کسی نہ کسی طرح ان کتابوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اب تو مختلف ویب سائٹس، ای میل اور واٹس ایپ پر بھی ایسی کتابوں کی پی ڈی ایف کی ترسیل اور فراہمی بے حد آسان ہو چکی ہے۔

شاید یہی سبب ہے کہ معتوب کتابوں سے یک جہتی کے لیے دنیا کے اکثر ممالک میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں ہفتہ معتوب کتب (Banned Books Week) منایا جاتا ہے۔ اس ہفتے کے دوران ان ممالک میں کتابوں کی اکثر دکانیں ان معتوب کتب کی نمائش کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں اور انھیں ان کے دل دادگان کو فراہم بھی کرتی ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں