[ad_1]
بنیادی نقطہ یہ ہی ہے کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو یہ محاذ آرائی کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے۔اس وقت ہم گہری سیاسی تقسیم کا شکار ہیں ۔ یہ جو خود کو عقل کل سمجھنے کی سوچ یا پالیسی ہے، اسی نے سسٹم کو زنگ آلود کردیا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیںکیونکہ ہم عملاً آئین اور قانون کے مقابلے میں ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں ’’مفاہمت کی سیاست یا میثاق معیشت‘‘ کی بہت باتیں کی جاتی ہیں ۔ علمی و فکری حلقوں میں بھی اسی نقطہ کو بنیاد بناکر قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
مفاہمت کی سیاست کا بیانیہ محض سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس بیانیہ کی تشہیر میں دیگر علمی وفکری افراد یا حلقے یا سماجی و کاروباری افراد یا میڈیا سے جڑے افراد سب ہی اسی پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے معاملات کا حل آئین و قانون اور جمہوری روایات کے مطابق مفاہمت کی بنیاد پر تلاش کرنا ہے ۔
کچھ لوگ سیاسی مفاہمت سے زیادہ معاشی مفاہمت پر زور دیتے ہیں مگر سیاسی مفاہمت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی معاشی مفاہمت کیونکہ اس کے بغیر معاشی استحکا م کی باتیں خواب ہی لگتی ہیں۔ہماری مفاہمت کی سیاست کی باتیں حقیقی مفاہمت کے معیار پر پورا نہیں اتر رہیں۔ ہم ایک دوسرے کو دبانے، دیوار سے لگانے کی سیاست کرتے ہیں، اپنے ایجنڈے یا شرائط سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یعنی جو بھی طاقت ور فریق ہوتا ہے وہ اپنی شرائط پر مفاہمت چاہتا ہے ۔
نظام انصاف کی بات کریں تو یہاں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ہمارا سیاسی تجربہ بتاتا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ بے نظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف یا نواز شریف سے لے کر عمران خان تک سب ہی سیاسی حقیقتیں ہیں اور ان کو سیاسی طور پر تو شکست دی جاسکتی ہے مگر غیر سیاسی حکمت عملی کے تحت ان کو شکست دینا ممکن نہیںہوگا ۔ اس وقت مفاہمت کی بنیاد ان ہی چھ مسائل کی بنیاد پر ممکن بنائی جانی چاہیے ۔
اول، سازگار ماحول پیدا کرنا تاکہ محاذ آرائی کا خاتمہ ممکن ہوسکے،دوئم، سیاسی ، جمہوری ، آئینی و قانونی فریم ورک میں خود بھی کام کرنا اور دوسروں کے لیے بھی ممکن بنانا ، سوئم، معاشی مسائل کے خاتمے اور عام افراد کی معاشی حیثیت کو مستحکم کرنا ،چہارم، اچھی طرز حکمرانی یعنی اچھی گورننس کے مربوط و شفاف نظام کو یقینی بنانا ، پنجم، سیکیورٹی سے جڑے مسائل کا خاتمہ اور ششم ،ادارہ جاتی ترقی اور اداروں کو آئین اور قانون تک محدود کرنا اور ان کی خودمختاری کو یقینی بنانا شامل ہے ۔
لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم نہ صرف ایک دوسرے کے سیاسی وجود کی حقیقتوں کو تسلیم کریں اور ان کو موقع دیں کہ وہ ریاستی نظام کی درستگی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔اسی طرح جب تک ہم مجموعی طور پر اپنے ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جات کی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور ایک جامع و شفاف حالات میں بہتری کا روڈ میپ جو اتفاق رائے کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہو کو ممکن نہیں بنائیں گے حالات میں بہتری کے امکانات محدود ہی رہیں گے۔
اسی طرح سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی سطح پر یہ اتفاق ضروری ہے کہ ہمیں ایک مربوط اور مضبوط نظام کے لیے اپنی سطح پر مضبوط کمٹمنٹ درکار ہے جو محض لفظوں تک محدود نہ ہو بلکہ وہ مجموعی نظام میں عملی سطح پر سب کو نظر بھی آنی چاہیے۔کیونکہ ہمیں اگر واقعی داخلی محاذ پر آگے بڑھنا ہے تو سخت گیر اصلاحات اور کڑوی گولیاں کھائے بغیر یا طاقت سے جڑے طبقات پر ٹیکس لگا کر اور انفرا اسٹرکچر اصلاحات کے بغیر داخلی ترقی کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔
بنیادی بات اگر واقعی ہم نے ایک ذمے دار اور ترقی سے جڑی ریاست یا حکومت کے نظام کا حصہ بننا ہے تو مفاہمت کو بنیاد بنا کرآگے بڑھیں اور کچھ ایسا کریں جو ہمیں بدحالی کے مقابلے میں ترقی کے دھارے میں شامل کرسکے ، اسی سے ہمارا مفاد وابستہ ہے ۔
[ad_2]
Source link