[ad_1]
عید آئی اور گزر بھی گئی مگر امسال عید الفطر خوشیاں نہیں، آہ و بکا اور سسکیاں لے کر آئی تھی۔ ارض مقدس فلسطین کی تباہی و بربادی اور امت مسلمہ کی بے حسی کا مژدہ لے کر آئی تھی۔ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک پینتیس ہزار سے زائد فلسطینی صیہونیت کے جبر و استبداد اور دہشت گردی کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اور بزدلی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں اب تک طبی عملے کے پانچ سو افراد شہید، 600 سے زائد زخمی اور 310 افراد کو دہشت گرد اسرائیلی فوج نے گرفتار بھی کیا ہے۔ صیہونی درندوں نے اب تک ڈیڑھ سو سے زائد اسپتالوں اور طبی اداروں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کردیا ہے جب کہ 32 بڑے اسپتال اور 53 ہیلتھ سینٹرز غیر فعال ہوچکے ہیں، 126 ایمبولینسز بھی تباہ ہو گئیں، غزہ سے اب تک 4 ہزار 373 مریضوں کو علاج کے لیے بیرونِ ملک منتقل کیا گیا ہے جب کہ 10 ہزار سے زائد زخمی بیرونِ ملک منتقل ہونے کے منتظر ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں روز اوسطاً پانچ درجن سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کررہے ہیں، صیہونی فوج کی درندگی کا نشانہ بن کر معذور ہونے والے افراد کی تعداد لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
ہزاروں فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان کے گھر ہی ان کی قبریں بن چکی ہیں۔ سات اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی درندگی اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے بھوک کا راج ہے، درحقیقت غذائی قلت نہیں امت مسلمہ کی اجتماعی بے حسی سیکڑوں بچوں کو گھسیٹ کر قبروں میں سلا چکی ہے۔ ارض مقدس کے باسی گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں، اسی حالت میں انھوں نے ماہ رمضان کے سحر و افطار گزارے۔
اسرائیلی قابض فوج نے عید کے روز غزہ کے مغرب میں واقع الشاطی کیمپ پر بزدلانہ اور وحشیانہ حملے میں حماس کے قائد اسماعیل ھنیہ کے تین بیٹے اور ان کے چار بچے، ان کی کار پر بمباری کرکے شہید کر دیے۔ مگر امریکا اور مغرب کو ان کے پروردہ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی جرائم کے شواہد دکھائی نہیں دے رہے۔
فلسطینی مسلمان آگ اور خون کے اس طوفان میں آنے والی عید کی خوشیاں کیسے منا سکتے تھے، اس بار تو کسی کو عید مبارک کہتے ہوئے دل منہ کو آتا تھا۔ ہم یہاں عید کی خوشیوں میں گم تھے، یہودی مشروبات اور دیگر مصنوعات سے لطف اندوز ہورہے تھے اور وہاں فلسطینی قیادت اور قوم ارض مقدس کی آزادی کے لیے اپنا خون پیش کررہی تھی۔
پاکستانی مسلمان صرف عید کے موقع پر اربوں روپے کے مشروبات پی گئے، کسی کے دل میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ہم جن یہودی کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کررہے ہیں، اسی کی کمائی سے خریدا جانے والا اسلحہ ہمارے فلسطینی بھائیوں پر استعمال ہو رہا ہے، عام مسلمان کو چھوڑیں سوشل میڈیا پر شیئرہونے والی ایسی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں جہاں حکمران اور اہل اختیار بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر یہودی کمپنیوں کے مشروبات بھی موجود ہیں۔
ہماری بے حسی کا لیول چیک کیجیے۔ امت مسلمہ کے مقابل کفر ایک ملت ہے، اس ملت کفر میں مختلف ادیان، مختلف نظریات، مختلف ثقافت کے لوگ ہیں، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ متحد بھی ہیں اور منظم بھی۔ ملت اسلامیہ، جسے ملت واحدہ قرار دیا گیا ہے وہ بکھری ہوئی ہے۔ سویا ہوا منافق عالمی ضمیر اس انسانیت کشی پر بے حسی کی نیند سے اب تک نہیں جاگ سکا۔ ایک ساؤتھ افریقہ کے علاوہ پورا عالم کفر اختلاف مذہب ونسل کے باوجود مسلم دشمنی میں صہیونیت کا معاون و مددگار بنا ہوا ہے۔
جاپان سے تھائی لینڈ اور سری لنکا تک تمام اقوام اہل غزہ پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں، کیونکہ اہل غزہ مسلمان ہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ عورتوں، بچوں، بزرگوں، مریضوں کے بہیمانہ قتل اور رہائشی عمارتوں مساجد درس گاہوں اسپتالوں کی تباہی پر 6 ماہ سے خاموش جاپان اور کینیڈا جیسے مہذب ممالک کو بھی اسرائیل پر ایران کے بے ضرر سے حملے پر شدید تکلیف پہنچی۔ جاپانی وزیر ِ خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ایران کا حملہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھائے گا۔ کینیڈا نے بھی اسرائیل پر ایرانی حملے کی مذمت کی ہے۔ مجھے کینیڈا اور جاپان سمیت کسی غیر مسلم ملک یا قوم سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان سے ہمارا کوئی دینی رشتہ نہیں، افسوس تو اس پر ہے کہ ستاون نام نہاد مسلم ممالک اس صہیونی دہشت گردی پر خاموش اور کلی طور پر لاتعلق ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے بارے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی سوچ بدل گئی ہے۔ جو لوگ اردوان سے کسی جرآت مندانہ اقدام کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے ان کی امیدوں کے محل زمیں بوس ہوچکے ہیں۔وہ بھی دیگر مسلم حکمرانوں سے مختلف نہیں۔ اردوان جس اسرائیل کو ناجائز ریاست کہتا تھا اس ظلم و بربریت کے بعد بھی اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات تک ختم کرنے پر تیار نہیں ہے۔
عرب ممالک تو پہلے سے اسرائیلی بالادستی کے قائل ہو چکے ہیں۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان اپنے میزائلوں کا رخ بھی اسرائیل کی جانب کرنے کو تیار نہیں۔ امت مسلمہ میں فلسطینیوں کا تو کوئی والی وارث نہیں مگر جب یکم اپریل کو شام میں ایران کے سفارت خانے پر اسرائیل نے میزائل حملہ کیا جس میں پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12اموات ہوئیں تو پاسداران انقلاب ایران کے جنرل محمد حسین نے بدلا لینے کا اعلان کیا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیا۔
اگر چہ یہ حملہ ایرانی سفارتخانے پر حملے کا بدلہ اور علامتی تھا مگر دوسرے اسلامی ملکوں کی تو اتنی بھی جرات نہیں کہ زبانی کلامی دھمکی بھی دے دیتے۔ افغانستان کے سوا کسی اسلامی ملک نے ایران کے حملے کے حق میں بیان نہیں دیا۔ تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر اس حملے کی خبر نے سکتہ طاری کردیا۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات ایران کی مسلح افواج نے اسرائیل کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے اپنے سیکڑوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے اسرائیلی کے دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں اسرائیل کا کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر ایک اندازے کے مطابق اس کو روکنے کے لیے اسرائیل کو ایک ارب پینتیس کروڑ ڈالر سے زیادہ کے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ اس حملے کو روکنے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ نام اردن کے ایئر ڈیفنس نے بھی حصہ لیا۔
اس حملے میں اسرائیلی ایئر بیس پر 5 میزائل لگے جس کے باعث 3 رن ویز اور 1 طیارے کو نقصان پہنچا۔ 5 ایرانی میزائلوں کے حملے میں ایف 35 طیاروں کے نیواٹم Nevatim ایئر بیس کو نقصان پہنچا ہے، نیواٹم ایئر بیس اسرائیل کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے یہ وہی اڈہ ہے جہاں سے دمشق کے ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے فوجی اڈے کو نقصان پہنچنے کا اعتراف کرتے ہوئے نقصان کی تصاویر جاری کر دی ہیں۔ ایران نے اسرائیل پر حملہ کرکے ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑ کر یہ باور کرا دیا ہے اگر امت مسلمہ جسد واحد کی طرح متحد ہو کرفلسطین کے حق میں جرات کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو صیہونی ریاست اور اس کے تمام سرپرست گھنٹوں کے اندر گھٹنوں پر آجائیں گے۔ مگر اس کے لیے تھوڑی سی جرات و دلیری درکار ہے جو فی الحال ناپید نظر آرہی ہے۔ایران کے حملے کو شک کی نظر سے دیکھنے والوں کو صرف اتنا کہوں گا کہ ایران کی بہادری نقلی ہو سکتی ہے مگر باقی56اسلامی ممالک کی بزدلی 100 فیصدخالص اور اصلی ہے۔
نا امیدی کفر ہے، انشاء اللہ فلسطین کے مسلمانوں پر آیا یہ مشکل وقت گزر جائے گا لیکن مسلم حکمرانوں کے بے حسی اور بزدلی کو تاریخ آنے والی نسلوں تک بار بار منتقل کرتی رہے گی۔ اہل فلسطین ارض مقدس کی آزادی کے لیے قربانیاں پیش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان کے حوصلے اسماعیل ہنیہ کی طرح جوان ہیں، جو سارا خاندان قربان کرکے بھی چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہے۔
اہل فلسطین کے جذبے جوان اور صیہونیوں کے جذبے دھول چاٹ رہے ہیں، اہل فلسطین پر جاری بربریت ان کے عزم اور استقامت کے ساتھ امت مسلمہ کے لیے امتحان ہے جس میں تاحال امت مکمل طور فیل ہوچکی ہے مگر اہل فلسطین ناقابل یقین استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کر رہے انشاء اللہ، اللہ رب العزت کی نصرت مثل بدر آئے گی۔ آسمان بھی اہل فلسطین سے کہہ رہا ہے:
نصر من اللہ و فتح قریب
[ad_2]
Source link