17

فلسطین، عالم انسانیت کا مسئلہ

[ad_1]

ایران کے حملے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور سلامتی کونسل کی جنگ بندی قرارداد کی منظوری کے باوجود اسرائیل کی فوج فلسطینوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگلے روز کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں پناہ گزین کیمپوں، پلے گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے بچوں اور پولیس کی گاڑی پر اسرائیل کے حملوں میں 74 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، اسرائیلی فوج نے جبالیہ، نصیرت کیمپوں اور رفح پر بھی بمباری کی ہے، وہاں بھی جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔

اسرائیلی سفاکیت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہو چکا ہے، اسرائیل فلسطینیوں جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں اور نوجوان شامل ہیں بے رحمانہ مظالم کا نشانہ بنا رہا ہے، اکثر سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جنہیں کوئی بھی انسان برداشت نہیں کرسکتا اور اسے دیکھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دیکھنے والا شخص اسرائیلی مظالم کی مذمت نہ کرے، بات صرف مذمت کرنے کی نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ اقوام عالم زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔

عرب ممالک اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک بھی خاموش ہیں۔ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدوں کے باوجود فلسطینیوں پر بم برسا رہا۔ اسرائیلی جنگ جہاز فلسطینیوں کی آبادی پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی فوج فلسطینیوں کا بے دردی اور بے رحمی سے قتل عام کر رہی ہے ، جنگ عظیم دوئم کے بعد ایسے سنگین ترین مظالم کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔

فلسطین کے لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان پر مظالم صرف اسرائیل ہی نہیں کر رہا بلکہ جو ان مظالم پر خاموش اور صرف بیانات سے کام لے رہا ہے، وہ بھی اس ظلم میں شریک ہیں۔ اگر یہودیوں کو ہٹلر نے قتل کیا تھا تو یہودیوں کو ہٹلر کی باقیات سے بدلنا چاہیے تھا جبکہ انھوں نے فلسطینیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کس کی پشت پناہی کے باعث فلسطین پر قابض ہے۔

امریکا کا کردار اس سارے معاملے میں جانبدارانہ ہے اگر امریکا چاہتا تو نوبت جنگ تک نہ پہنچتی وہ اسرائیل کو اس کے اقدامات سے باز رکھ کر حالات کو بگڑنے سے بچا سکتا تھا مگر اسرائیل کی حمایت کر کے امریکا نے صورتحال کو مزید خراب کیا اور اب بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اسرائیل کی حمایت کرے گی۔ اس اعلان کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی حکمت عملی ایک جیسی ہے۔

عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین تنازع کی بنیادی وجہ ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے ۔ فلسطینی اس قبضے کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، جو ہر اصول اور قانون کے مطابق جائز ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی قیادت کا ایک دھڑا اور کئی مسلم ممالک نے دو ریاستی فارمولے کی تائید کی۔کئی عرب اورغیر عرب مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو ئے۔ بہرحال یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی قیادت نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں عالمی قوتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہونے چاہیے، دنیا میں ایسے بھی کئی ممالک ہیں جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں رکھتے لیکن تجارت کرتے ہیں، انہیں بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا چاہیے۔

مسلم ممالک کے تحفظات دور کرنے کے لیے اسرائیل نے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی بلکہ اپنی سخت گیر پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے ، اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کا دفاع امریکا کر رہا ہے،امریکا ایک بڑی قوت ہے جس کے پاس وسائل بھی اور اثر و رسوخ بھی جسے وہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچا لیتا ہے، اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا کسی اور ذیلی فورم میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے۔

جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنہیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا، امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر ایشو پر اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، اس کی وجوہات جو بھی ہیں، وہ اپنی جگہ لیکن امریکا کو اپنی پالیسی میں لچک لانی چاہیے کیونکہ اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت امریکا کے مفادات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے ۔

غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کے حوالے سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر کی بھرمار ہے،ان میں بعض انتہائی سفاکانہ ہیں، ایسی ویڈیوز اور تصاویر نے سوشل میڈیا صارفین کے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا ہے ۔ ایسی ویڈیوز اور تصاویرانسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ فلسطین کی سیاسی کشاکش نے وہاں کے معصوم بچوں کوکئی طرح کے ذہنی مسائل کا شکار بنادیا ہے۔ برسہا برس سے رفیوجی کیمپ میں زندگی گزارنے والے بچے کس تکلیف سے گزر کر بڑے ہوتے ہیں، اس کا انداز کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ نیو یارک شہر میں 9/11 کی تباہی نے شہریوں کے ذہن پر طویل مدتی اثرات مرتب کیے ہیں۔

فلسطین میں تقریباً آٹھ ماہ سے جنگ مسلط کی گئی ہے، پوری آبادی کو غزہ میں اوپن ایئر ڈٹینشن کیمپ کی مانند بنادیا گیا ہے، غزہ کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر اجازت سفر نہیں کرسکتے، انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے گزرتے ہیں،ایسی صورتحال فلسطینیوں میں کیا محسوسات و احساسات پیدا کررہی ہے، اس کا کسی کو ادراک نہیں ہے۔

فلسطینیوں کے لیے رفیوجی کیمپ تو بنا دیے جاتے لیکن کوئی ذہنی و جذباتی آبادکاری کے سینٹرز موجود نہیں ہیں۔ امریکی سائیکلوجیکل ایسوسییشن نے دیگر ملکوں کے آفات اور جنگ زدہ علاقوں کی ریسرچ کرکے دنیا میں کئی جگہ ذہنی بحالی کے سینٹرز بنوانے پر دباؤ بنایا، اب ضرورت ہے کہ طاقتور اقوام فلسطینی بچوں کے لیے ایسے عالمی سینٹرز قائم کرائیں۔ ان کی بنیادی ضرورتوں، تعلیم گاہوں اور نفسیاتی بحالی کے ادارے قائم کرائے جائیں۔

فلسطین کے مسئلہ کا حل فلسطینیوں کی خواہش اور رائے کے مطابق ہونا چاہیے ۔ صرف اسرائیل کے مفادات کو سامنے رکھ کر تنازعہ فلسطین کوئی حل کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل جارحیت میں مسلسل آگے بڑھ رہا اور اپنے اہداف کو حاصل کر رہا ہے اور یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل ارض فلسطین کے پورے علاقے پر اپنا قبضہ چاہتا ہے اور وہاں سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا چاہتا ہے۔اسی مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل نے نہتے فلسطینی عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔

اسرائیل غزہ میں بمباری کے ذریعے فلسطینوں کی املاک تباہ کررہا ہے، انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کرکے دیگر ملکوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور کررہا ہے، اقوام متحدہ بھی اسرائیل کو اس کے ظلم اور بربریت سے روکنے میں ناکام ہے۔دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں متعدد ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کی جنگ نے دنیا بھر کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ جو اسرائیل کے ظلم و ستم میں اس کا ساتھ دے رہا ہے اور دوسرا حصہ جو مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو روکا نہ گیا تو یہ جنگ پوری دنیا کے امن و امان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گی۔

پرامن زندگی فلسطینیوں کا بھی حق ہے ، اپنی زمین پر رہنے کا انہیں پورا حق ہے ، پوری دنیا ان کی جانب متوجہ ہو اور ان کے مسئلے کو حل کریں۔ اسرائیلی صہیونی جارحیت اور دہشت گردی کی کوئی انتہا نہیں ہے، ساری دنیا کے با ضمیر انسانوں کو فلسطین کے اب اٹھے ہوئے مسئلہ کو بغیر حل کے دبا دینے کے بجائے اس پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اب فلسطین کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی پوری دنیا اور پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔

تاریخ اور آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق فلسطینی اس خطے میں عبرانی بولنے والے قبائل کی آمد سے بہت پہلے اس خطے میں موجود تھے اور ان کی حکمرانی قائم تھی ‘اس لیے اس پورے علاقے کو فلسطینیوں کی زمین کہا جاتا ہے۔ فلسطین کا تنازعہ کا حل جو بھی ہو ‘اسے فلسطینی عوام کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔ اسرائیل کو اپنے ہمسایہ ممالک کے جغرافیائی حدود کا بھی پابند ہونا پڑے گا۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی قیادت حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے‘انہیں اس حقیقت کا بھی پتہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی نہیں بلکہ عرب ملکوں میں بھی ان کے بھاری مفادات ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں