[ad_1]
صُفّہ کے لغوی معنی سائبان اور سایہ دار جگہ کے ہیں، جب کہ سیرت کی کتابوں میں وہ سایہ دار چبوترا بیان ہُوا ہے جو رسول کریمؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر حجرہ مبارک سے قریب حدودِ مسجد نبویؐ میں بے گھر مہاجرین کے لیے بنوایا تھا۔
ان میں وہ ضعفاء مسلمین اور فقراء شاکرین تھے جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بل کہ امراء اور اغنیاء سے زیادہ شاکر اور مسرور تھے۔ جب احادیث قدسیہ اور کلماتِ نبویہ ﷺ سننے کی غرض سے بارگاہِ نبوت و رسالتؐ میں حاضر ہوتے تو یہاں ہی پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان حضرات کو اصحاب صُفّہؓ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم ﷺ کی خانقاہ تھی۔
اصحابِ صُفّہؓ میں جو مشہور صحابہ کرام شامل ہیں ان میں ابُوذرغفاری، ابنِ یاسر، سلمان فارسی، صہیب رومی، بلال، ابُوہریرہ، عقبہ بن عامر، خباب بن ارت، حذیفہ بن یمان، ابُوسعید خدری، بشیر ابن خصاصہ رضوان اﷲ تعالی عنہم کے نام نامی سیرت کی کتابوں میں درج ہیں۔ انہی حضرات کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے، مفہوم: ’’اور اپنے آپ کو استقامت کے ساتھ اُن لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اُس کی خوش نُودی کے طلب گار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوب صورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔‘‘ (الکہف)
اصحابِ صُفّہؓ اربابِ توکل و تبتل کی ایک جماعت تھی جس نے تعلیم دین، تبلیغ اسلام، جہاد اور دوسری خدمات کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ ان کو نہ تجارت سے کوئی سروکار تھا نہ ان کو زراعت سے مطلب تھا۔ لیل و نہار تزکیۂ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم پانے کے لیے آپؐ کی خدمت میں حاضر رہتے اور وہیں ذکر و مذاکرہ کیا کرتے تھے۔
صُفّہ صرف ایک چبوترہ ہی نہیں تھا بل کہ صحابہ کرامؓ کے لیے دینی درس گاہ اور روحانی تربیت گاہ تھا۔ یہاں انہیں تعلق باﷲ، محبت رسول ﷺ، مادیت پرستی سے کنارہ کشی، فکرِ آخرت، خودداری و قناعت، دانائی و حکمت اور میانہ روی و سادگی کے ساتھ خلافتِ ارضی کا کاروبار سنبھالنے کے لیے کتاب اﷲ اور سنت ِ رسول ﷺ کی صورت میں آئینِ جہاں داری کی بھرپور تربیت دی جاتی تھی۔ اہلِ بیت کرامؓ کے بعد اصحابِ صُفّہؓ حضور خاتم المرسلین ﷺ کے قریب ترین لوگوں میں شامل تھے۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے بعض اصحاب صُفّہ قبیلوں اور علاقائی جماعتوں کے سردار و معزز بزرگ تھے، مگر اسلام و ایمان کی روشنی اور حضور ﷺ کی صحبت نورانی نے ان کو دنیائے فانی کو چھوڑ کر دائمی حیات کے لیے اساسی کردار کا غازی بنادیا۔ تاریخ اسلام میں اصحابِ صُفّہؓ مرکزی حیثیت اور امت مسلمہ کے لیے جان و مال اور ترکِ وطن کی قربانی کی راہ نمائی کا بنیادی درجہ رکھتے ہیں۔ دین کی حفاظت، دین کی تحقیق، دین کی نشر و اشاعت کا یہی حضرات اصحاب النبی ﷺ میں کلیدی مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان ہی اصحابؓ کو حضور ﷺ کی معلمیت اور شرفِ تلمذ حاصل تھا۔
یہ درس گاہ جو تاریخ میں صُفّہ کے نام سے جانی جاتی ہے اس کا مقصد یہ تھا دین اسلام کی نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو شب و روز حضور ﷺ کی خدمت میں رہ کر شریعت کے اسرار و رموز سے واقف ہونے کے ساتھ تمام تر اسلامی رنگ میں رنگ جائیں۔ گفتار و کردار، نشست و برخاست اور قول و فعل میں صحبتِ نبویؐ کے پرتو سے منور ہوجائے۔
اصحابِ صُفّہ شب و روز تزکیہ نفس، تعلیم و تربیت ، ذکر و فکر اور عبادت و تلاوت میں مشغول رہتے، نہ تو دنیا کی چمک دمک پر پر ان کی نظر تھی اور نہ ہی کاروبار اور تجارت و زراعت سے کوئی سروکار، وہ مفلس و نادار تھے۔ ان کے پاس اتنا کپڑا نہیں ہوتا تھا جس سے وہ سر اور پیر ایک ساتھ چھپا سکیں۔ ان کے پاس خور و نوش کی چیزیں نہیں تھی، بھوک کی شدت اور ضعف سے نماز پڑھتے ہوئے گر پڑتے، جو ان کی حالت و کیفیت سے واقف نہیں تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ دیوانے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان نفوس قدسیہ کے لیے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں، مفہوم:
’’مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اﷲ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چوں کہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتے ہیں۔ تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندورنی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ (البقرہ)
مفسّرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ انہی نفوس قدسیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کی زندگی کا مقصد وحید صرف تعلیم دین اور جہاد تھا۔ عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا، حضور ﷺ نے مدرسہ الصُفّہ قائم کرکے تعلیم کو بنیادی اہمیت دی اور لکھنے پڑھنے کی طرف پوری توجہ فرمائی، چناں چہ صُفّہ کی تعلیم کے لیے اور معلم بھی مقرر تھے۔ حضرت عبادہؓ قرآن مجید کے کے ساتھ لکھنے کی بھی تعلیم دیتے تھے، بل کہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں جو لوگ فدیہ نہیں ادا کرسکے ان کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ مدینہ میں رہ کر لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اس درس گاہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو اصطلاح میں قراء کہا جاتا تھا۔ دعوت و تبلیغ کے لیے انہی میں سے لوگ بھیجے جاتے تھے۔ ایک غزوہ میں انہی میں سے ستّر قراء بھیجے گئے تھے جنہیں شہید کر دیا گیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ ایک مہینے تک قنوتِ نازلہ میں ان ظالموں کے حق میں بد دعا فرماتے رہے۔
صُفّہ کے طلبائے کرام نے اپنے آپ کو صرف دین کا علم سیکھنے اور عبادت کرنے ہی تک محدود نہیں رکھا تھا بل کہ مسلمانوں کے اجتماعی کاموں اور میدانِ کارزار میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور میدان جہاد میں بڑے کارنامے انجام دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین کے عالِم، رات کے راہب اور دن کے شہہ سوار تھے۔ کتنے ہی اصحابِ صُفّہؓ میدانِ کارزار میں شہید ہوئے۔ ان میں حضرت صفوان بن بیضا، خریم بن فاتک، خبیب بن یساف، سالم بن عمیر اور حارثہ بن نعمان رضوان اﷲ تعالی عنہم نے غزوہ بدر میں جامِ شہادت نوش کیا۔ غزوہ احد میں حضرت حنظلہؓ شہید ہوئے جنھیں فرشتوں نے غسل دیا۔ غزوہ خیبر میں حضرت ثقف بن عمرؓ، غزوہ تبوک میں حضرت عبداﷲ ذو البجادینؓ (دو چادروں والا) اور جنگِ یمامہ میں زید بن خطابؓ اور حضرت سالم مولی بوحذیفہ بن یمانؓ شہید ہوئے۔ یہ اصحابِ صُفّہؓ کی دین اسلام کے لیے عظیم الشان خدمات ہیں جو رہتی دنیا تک تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جاتی رہیں گی۔
[ad_2]
Source link