[ad_1]
ملک خواہ کوئی بھی ہو اور کیسا بھی ہو خارجہ پالیسی اس کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خارجہ پالیسی میں وقتاً فوقتاً مطلوبہ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی کامیابی کا انحصار اس کی خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے۔
دور اندیشی، مصلحت کوشی اور لچک کسی بھی ملک کی بقا، سلامتی اور ترقی کے اجزاء ترکیبی ہیں۔ چناچہ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کا گردو پیش کے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اشد ضروری ہے۔ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں خواہ وہ کثیر المقاصد ہوں یا مخصوص نوعیت کے ہوں ان میں یہ احتیاط لازم ہے کہ ان کا تعلق جس بھی ملک سے ہو اپنے قومی مفاد کو اولیت دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوسرے ملک کا مفاد بھی پیش نظر رہے تاکہ ہم آہنگی کو بھی فروغ حاصل ہو۔اس نازک کام کو سرانجام دینے کے لیے جو عملہ درکار ہوتا ہے اس کا خصوصی تربیت یافتہ اور انتہائی دانشمند ہونا لازمی ہے۔
بس یوں سمجھ لیجئے جیسے کسی نازک سرجیکل آپریشن کے لیے انتہائی مہارت رکھنے والے اور تجربہ کار سرجن اور ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح سفارت کاری کے لیے منجھے ہوئے اسٹاف کی موجودگی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی بہت بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے آغا شاہی، شہریار محمد خان، سلطان محمد خان، آغا ہلالی، عبدالستار، نجم الثاقب، عزیز احمد، صاحبزادہ یعقوب خان، اکرم ذکی، انعام الحق،میاں ارشد حسین جیسے لوگ میسر آئے جنہوں نے خارجہ امور کی ذمے داری سنبھال کر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کردیا۔خارجہ امور کے شعبہ میں حنا ربانی کھر کا نام بھی انتہائی قابل ذکر ہے۔
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کو وضع کرنے میں اس کی اعلیٰ قیادت کی سوچ، فکر اور نظریہ کا عمل دخل بڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی خارجہ پالیسی سازی میں اس کے مرکزی قائد اور وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے نظریہ کو بالادستی حاصل تھی۔ نہرو کی سوچ کیونکہ اشتراکی تھی اس لیے روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کا قائم ہونا ایک فطری امر تھا۔ہندوستان نے روس کے ساتھ تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہندوستان ایک مضبوط اورمستحکم مملکت بن گیا۔دوسری جانب پاکستان کی قیادت نے اپنا آپشن امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کیلیے استعمال کیا۔
پاکستان چونکہ دفاعی اور معاشی اعتبار سے ہندوستان کے مقابلہ میں کمزور تھا ،اس لیے اسے امریکا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت درپیش تھی۔امریکا نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہاتھ کو تھام لیا۔ پاکستان کا محل وقوع دفاعی اعتبار سے امریکا کے لیے تزویراتی تقاضوں پر پورا اترتا تھا۔ روس پر کڑی نظر رکھنے کے لیے امریکا نے پاکستان کے شمالی علاقے میں اپنے اڈے قائم کیے اور خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا۔
ایوب خان کے دور میں بڈابیر کے مقام سے امریکا نے اپنا ایک جاسوسی طیارہ یوٹو روس کی دفاعی پوزیشن کا جائزہ لینے کیلیے اڑایا جس سے امریکا کو تو بہت فائدہ حاصل ہوا لیکن روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔1971 کی پاک بھارت جنگ میں روس کی دوستی سے بھارت کو بڑا فائدہ حاصل ہوا اور پاکستان نہ صرف جنگ ہار گیا بلکہ اس کا مشرقی بازو ہمیشہ کیلیے اس سے جدا ہوگیا۔ دوسری جانب امریکا نے پاکستان کی مدد کیلیے اپنا ساتواں بحری بیڑا بحر ہند روانہ کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہ بحری بیڑا نہ پہنچنا تھا اور نہ پہنچا ۔پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا، یوں امریکا کی طوطا چشمی پاکستان کو بہت مہنگی پڑی۔ یہ وہ کاری زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔
اللہ کا کرنا دیکھیے کہ بھارت کی جارحانہ اور توسیع پسندی کی وجہ سے 1962 میں بھارت کی چین کے ساتھ زبردست جنگ ہوئی جس میں بھارت کو عبرت ناک شکست ہوئی اور اس جنگ نے حالات کا رخ موڑ دیا۔یہ اس کا ثمر تھا کہ چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے بھارت کو اس کی اوقات اور جامہ میں رکھنے کے لیے دوستی کا ہاتھ ایک دوسرے کی جانب بڑھایا۔ پاکستان اور چین کے مشترکہ مفادات نے اس دوستی کو ایک ننھے سے پودے سے بڑھا کر ایک تناور درخت بنادیا ہے اور یہ دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ شاہراہ قراقرام اِس دوستی کی عظیم علامت ہے جس نے پاک چین تعلقات کو جزو لاینفک بنادیا ہے۔
دونوں ملکوں کا زمینی رابطہ باہمی ہم آہنگی کے ذریعے فقید المثال کامیابی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر اس دوستی کا درجہ کمال ہوگی۔ بھارت کی آنکھوں میں یہ دوستی کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے۔ اس نے پاک چین اتحاد و تعاون کی راہ میں روڑے اٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اپنی جاسوسی کے جال کے ذریعہ ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا۔
بلوچستان میں ملک دشمن بھاڑے کے ٹٹوؤں نے تخریبی کارروائیاں کر کے اس عظیم منصوبہ کی تکمیل میں طرح طرح کی مشکلات حائل کی ہیں لیکن اس منصوبے کی تکمیل کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے وسط ایشیا تک تجارتی رسائی کا اعلان کیا، تاکہ ایرانی قیادت کو یہ باور کرائے بھارت ایران کا خیر خواہ ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت میں آصف علی زرداری نے بطور صدر اپنے دورہ ایران میں ایرانی قیادت کو اعتماد میں لے کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔
پاکستان کی انتہائی خوش قسمتی ہے کہ آصف علی زرداری دوبارہ صدارتی منصب پر فائز ہوئے ہیں اور ان کا آئندہ دورہ ایران جو ان قریب متوقع ہے، پاک ایران تعلقات کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے اور انتہائی مستحکم کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوگا اور دونوں ممالک یک جان دو قالب بن جائیں گے جس سے دونوں ممالک کو خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی یہ بہت بڑی کامیابی بلکہ فتح ہوگی ۔ پاک ایران دوستی اور پاک چین دوستی زندہ باد!
[ad_2]
Source link