22

کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

غزل
کناروں پر کھڑے دیکھے ہیں میں نے
ترے جیسے بڑے دیکھے ہیں میں نے
گلابوں کی حقیقت جانتا ہوں

۔۔۔
کتابوں میں پڑے دیکھے ہیں میں نے
یقیناً لڑکیاں اب تھک چکی ہیں
کئی ٹوٹے گھڑے دیکھے ہیں میں نے
مجھے جن کے حوالے دے رہے ہو
سبھی چھوٹے بڑے دیکھے ہیں میں نے
ترے احباب کی اگلی صفوں میں
ترے قاتل کھڑے دیکھے ہیں میں نے
کوئی گزرے دنوں کو رو رہا ہے
کہیں آنسو پڑے دیکھے ہیں میں نے
صنوبر سوکھنے والے ہیں ساجدؔ
کئی پتے جھڑے دیکھے ہیں میں نے
(لطیف ساجد ۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
منفرد بھی تو انہیں سب سے جدا مانتے ہیں
اپنی تنہائی کو جو لوگ خدا مانتے ہیں
اتنا اتراؤ نہیں ہجر عطا کرنے پر
ہم تو اس کرب کو بس کرب نما مانتے ہیں
زرد پتے کی طرح تنہا پڑا ہوں لیکن
تیری نسبت سے مجھے لوگ ہرا مانتے ہیں
ہوش میں کیسے کسی بات سے انکار کریں
ہم تو وحشت میں بھی بس تیرا کہا مانتے ہیں
کاش یہ دکھ بھی دکھائی نہ سنائی دیتا
اور سب لوگ یہاں دیکھا سنا مانتے ہیں
(وقاص اللہ وقاص ۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
زلفِ برہم میں خم زیادہ ہے
تو جو کہتا تھا کم زیادہ ہے
کس نے تقسیم کی وراثت کی
میرے حصے میں غم زیادہ ہے
اپنے لہجے پہ آج غور تو کر
تیرے لہجے میں ہم زیادہ ہے
ناقد ِہجر کے سبو میں ابھی
اشک تھوڑے ہیں رم زیادہ ہے
سن یہ شکوہ ہے تیری پایل کا
چھن یہ کہتی ہے چھم زیادہ ہے
کیا ہوا آج کیا ہوا دانشؔ
آج کچھ آنکھ نم زیادہ ہے
(تنویر دانش۔گجرات پاکستان)

۔۔۔
غزل
ہوا ایسا زمانے کے مسائل میں نیاپن
روایت شہر در آئی، قبائل میں نیاپن
یہاں دستار کو الٹا گیا کاسے کی صورت
نظر آیا یہاں ہر ایک سائل میں نیا پن
تجھے اُس سے محبت بھی ہے یہ کہنا پڑے گا
عدالت چاہتی ہے اب دلائل میں نیا پن
رگیں ہی بج رہی ہیں صورتِ قانوس، یا پھر
کہیں سے آگیا ہے تیری پائل میں نیا پن
بھریں خوشبو سے جس کو اور سرحد پار داغیں
کوئی تو لائے ایسا بھی مزائل میں نیا پن
وفاؤں کی علامت مت سمجھ لینا اسے تم!
نئے رشتے دکھاتے ہیں اوائل میں نیا پن
سرہانے، زندگی کا دیکھ کر پرہیز نامہ
عبث سا لگتا ہے ساگرؔ وسائل میں نیا پن
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
’’انجماد‘‘
ہمارے درمیاں رسمی تعلق بھی
ہماری سرد مہری کی وجہ سے
دسمبر میں جمے کہرے کے مانند منجمد ہے
ہمارے درمیاں برفانی لہجوں کی تہیں جم کر چٹانیں بن گئی ہیں
کہ جن کی آتشیں جذبوں کی حدت سے بھی پگھلاہٹ نہیں ممکن
کہ ہم دونوں تعلق کی بحالی کے فضائل سے مکمل بے خبر ہیں
(شاہد شوق۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
وہ نظر جس سے ہم کلام نہیں
اس کا محفل میں کوئی کام نہیں
میرا دن بھی سفر میں گزرا تھا
میرے حصے میں کوئی شام نہیں؟
جا رے قاصد! تجھے خدا پوچھے
ایک خط بھی ہمارے نام نہیں
میں ترے نام سے جڑا ہوا ہوں
سو مجھے فکر انہدام نہیں
تھوڑا ٹھہراؤ آ گیا لیکن
یہ کہانی کا اختتام نہیں
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ، چکوال)

۔۔۔
غزل
تیری دہلیز چھوڑ کر جائیں
اس سے بہتر ہے ہم کہ مر جائیں
ہر طرف جال ہے شکاری کا
ہم پرندے بھلا کدھر جائیں
روشنی کس کو راس آئے گی
جب اجالوں سے دیپ ڈر جائیں
اے بہارِ چمن چلے آؤ
چند سوکھے شجر نکھر جائیں
مے کدے میں نمازِ شکرانہ
شیخ توبہ کریں سدھر جائیں
منہ چھپائے گی پارسائی بھی
یہ قلندر اگر بپھر جائیں
جگنوؤں کو خبر کریں طلحہ ؔ
چاند نکلا ہے اپنے گھر جائیں
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)

۔۔۔
’’نوشتۂ تقدیر‘‘
لکھا ہے مقدر تو ’پرستار‘ بھی لکھتے
قسمت میں مری’ یار وفادار‘ بھی لکھتے
سن لی ہے بہت میں نے تری اب تو مری سن
اس بندہ ٔ ناچیز کی اب نالہ کشی سن
سن آہ و بکا اب مری اے کاتبِ تقدیر
یہ میں ہوں تری راہ سے بھٹکا ہوا رہگیر
گستاخ سا بندہ ہوں مرا نام منورؔ
لوگوں کی نگاہوں میں، میں اک حرفِ مکرر
جس شخص کو تو نے اے خدا دی تھی رسائی
کرتا ہے وہ اب بن کے خدا مجھ پہ خدائی
ہر سمت سے آتی ہے صدا آہ و بکا کی
بستی میں مری بڑھ گئی آفت بھی بلا بھی
دنیا میں تری امن نہیں ظلم ہے شر ہے
مظلوم کا سر تا بہ قدم خون میں تر ہے
مفلس کے بدن پر کوئی جامہ نہ قبا ہے
اب تو ہی بتا کیا یہ غریبی کی سزا ہے؟
چھوڑا ہے سیاہی میں مجھے اہلِ وفا نے
جلتی ہوئی شمع بھی بجھا دی ہے ہوا نے
ملتا ہی نہیں اب مجھے ساحل کا کنارا
تقدیر کی گردش نے ڈبویا ہے سفینہ
یوں ختم ہی ہوتا نہیں یہ اشک نکل کر
معلوم نہیں آنکھ ہے یا کوئی سمندر
اب بھی مرے اس حال پہ کیا تو ہے رضامند؟
ان درد کو سینے میں رکھو گے یونہی پیوند؟
تُو کچھ بھی نہ دے پھر بھی میں سجدہ تو کروں گا
اے شاہِ ازل در پہ میں آتا ہی رہوں گا
قسمت ہے یہی ہے مری تقدیر سفر میں
اور میں ہوں زمانے کی مصیبت کے بھنور میں
کچھ کر نہیں سکتا میں ترا بندہ ہوں بیکس
کرنا ہے فقط اب مجھے اتنا ہی گلہ بس
لکھا ہے مقدر تو ’پرستار‘ بھی لکھتے
قسمت میں مری’ یار وفادار‘ بھی لکھتے
(منور موسوی۔ اسکردو،، بلتستان)

۔۔۔
غزل
بے خبر سوئے تھے،جب وقتِ ہدایت آیا
تیری آہٹ نے ہی بیدار کیا تھا ہم کو
وہ کرم تھا کہ عنایت تھی یہ معلوم نہیں
اک فسانے سے جو’ کردار‘ کیا تھا ہم کو
بے نیازی میں اُٹھایا تھا زمیں سے تُو نے
اور پھر خاک سے دیوار کیا تھا ہم کو
اُس محبت سے کئی وصف عطا ہوگئے ہیں
جس محبت نے گنہ گار کیا تھا ہم کو
تیرا احسان یہ مر کے بھی نہیں بھولیں گے
تُو نے پت جھڑ میں ثمر بار کیا تھا ہم کو
(تہمینہ شوکت تاثیر۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
آج کیسی یہ محفل سجا لی گئی
فکرِ محبوب سے شام خالی گئی
آج تم کس کے کہنے پہ آئے یہاں
آج کیسے نگہ مجھ پہ ڈالی گئی
چین آیا مجھے دوستو جس گھڑی
روح میرے بدن سے نکالی گئی
دل کو آرام آئے تو کیسے کہ اب
خانۂ دل سے تم بھی نکالی گئی
اس نے شیرازؔ کا دکھ سنا ہی نہیں
صرف عزت مری ہاں اچھالی گئی
(محمد شیراز شیرازی۔نوشہرہ، خیبر پختون خوا)

۔۔۔
غزل
چُھو کر زلف تری جب یہ ہوا لگتی ہے
اسی دوران مجھے سانس جدا لگتی ہے
لاکھ کوشش بھی کریں۔ مرض بھی بڑھتا جائے
موت لازم ہو تو بے کار دوا لگتی ہے
طور پر جاؤ، مگر یہ بھی رہے دل میں خیال
ہر کسی کو کہاں اللہ کی صدا لگتی ہے
اب محبت کی میاں خیر مناؤ کہ تمھیں
پیار سے بڑھ کے تجھے اپنی انا لگتی ہے
اس قدر ہوگئی تبدیل زمانے کی ہوا
مری تصویر بھی اب مجھ سے جدا لگتی ہے
ایک دوجے کو دعاؤں میں رکھو کیونکہ عقیل
کیا خبر، کس کو کہاں، کس کی دعا لگتی ہے
(عقیل نواز۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
دشت کی ویرانیاں ہیں رقص میں
ہر طرف حیرانیاں ہیں رقص میں
موج میں ہے دیکھیے عمرِ رواں
اور فنا سامانیاں ہیں رقص میں
ہے تلاطم خیز یوں بحرِ سخن
سوچ کی جولانیاں ہیں رقص میں
یاس کی مردہ دلی ہے نوحہ خواں
آس کی آسانیاں ہیں رقص میں
احسنِ تقویم ہے بھولا بشر
چار سُو شیطانیاں ہیں رقص میں
مفلسی ڈھانپے دریدہ جسم کو
عیش کی عریانیاں ہیں رقص میں
عشق میں باہو، قلندر، مست ہیں
یاں رداؔ من مانیاں ہیں رقص میں
(رداخان۔ابو ظبی)

۔۔۔
غزل
لرزتے ہونٹوں پہ اب تمہارا جو نام آئے تو پھربتانا
میں مررہا ہوں مری طرف سے پیام آئے توپھربتانا
میں آج درپر کھڑا ہوا ہوں گلاب میرے قبول کرلو
ترے مقدرمیں یہ دسمبرکی شام آئے توپھربتانا
کسی پہ کیچڑ اچھال دیکھو تمہیں ملے گا جواب گالی
ہرایک تہمت قبول کرکے سلام آئے توپھربتانا
خداکے بندوں کادل دکھا کرسدارہوگی اداس یونہی
حقیقی خوشیوں کازندگی میں مقام آئے توپھربتانا
ابھی تومحفل کی جان ہوتم ہے وقت اچھا ہزار ساتھی
سوائے حافظؔ کوئی مصیبت میں کام آئے توپھربتانا
(حافظ الماس۔ چکوال)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں