[ad_1]
صحافت کے دور ‘ زوال ‘ میں آنکھیں کھول کر کالم نگاری کی شد بد حاصل کرنے والے ایک یار عزیز نے پنڈورا باکس کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن برادر محترم وجاہت مسعود نے مولانا مودودی علیہ رحمة کی پیروی میں خاموشی کا مشورہ دیا ہے کہ مولانا کی زبان یا قلم سے کبھی کوئی سوقیانہ بات نہیں نکلی۔ کبھی انھوں نے کسی مخالف کو شیطان قرار دیا نہ طوائف جیسے لفظ سے اپنے قلم کو آلودہ کیا۔ یہ طرز تکلم جن کا شیوہ ہے ان ہی کو مبارک ہو۔ وجاہت مسعود درست کہتے ہیں کہ قلم کے مزدور کو اپنی اخلاقی اور صحافتی اقدار کی پیروی کرتے ہوئے کیچڑ سے بچ نکلنا چاہئے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ملک و قوم اس وقت جس مرحلے میں ہیں اور خوش قسمتی کے ساتھ وطن عزیز جس تیزی سے سفارتی تنہائی سے نکل کر استحکام کی وادی میں داخل ہو رہا ہے، اس مرحلے میں کسی بھی محب وطن کی توجہ قومی امور پر ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی رنجشوں کو موضوع بحث بنایا جانا چاہیے کیوں کہ اپریل کا مہینہ اس ارض پاک کے لیے بے پناہ امکانات کے کر طلوع ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید کئی خوش خبریاں سننے کو ملنے والی ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی اور مایوسی کو گہرا کرنے والی سیاست کے زمانے میں قوم کو یہ بتانا نہ صرف ضروری بلکہ فرض ہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان میں وارد ہونے والا سعودی وفد ہمارے لیے کیا خوش خبری لے کر آیا ہے۔
سعودی وفد کے بعد ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی تشریف لا رہے ہیں۔ اس دورے کے جو سیاسی اور اقتصادی ثمرات ہیں، وہ ایک طرف، اس کے تعلق سے سر دست جو تفصیلات میسر آئی ہیں، وہ بھی بہت ہی غیر معمولی اور خوش کن ہیں۔ اس ہفتے کے دوران میں دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلق میں گرم جوشی ایک نئی انتہا کو چھوتی ہوئی دکھائی دے گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے سفاکانہ نسل کشی سے پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے خطے میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے، پاکستان کو اپنی دانش مندانہ حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس میں نہ صرف یہ کہ ایک ممتاز مقام حاصل ہو گیا ہے بلکہ اس کی حیثیت ویسی ہی قائدانہ ہو گئی ہے جیسے 1974 کی تاریخی اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو حاصل ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر تاریخی مسائل اور فلسطین کے حالیہ المیے کے دوران پیدا ہونے والی رنجشوں میں پاکستان کو قدرت نے روٹھے ہوں کو منانے اور ان کے درمیان نکتۂ اتحاد پیدا کرنے کا کردار عطا کر دیا ہے۔
قوموں کو ایسے مواقع محض اتفاق سے نہیں مل جاتے بلکہ اس کے لیے بڑھک بازی اور بلند بانگ دعوے کرنے کے بہ جائے سنجیدگی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کا یہ شان دار اعزاز ہے کہ اس نے ڈیڑھ دو ماہ کی مختصر سی مدت میں یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔
شہباز حکومت کا یہ کارنامہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ان کی قیادت میں پی ڈی ایم اور اب فروری میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کو سفارتی اعتبار سے ایسا پاکستان ملا تھا جو تنہائی کا شکار تھا۔ چند برس پہلے کی عاقبت نا اندیشی پر مبنی پالیسوں کی وجہ سے وطن عزیز کو اسلامی دنیا میں بھی تنہائی کا شکار کر دیا گیا تھا۔
اپنے قیام کے وقت سے پاکستان کی شناخت امت مسلمہ کے اتحاد کے چیمپئن کی تھی لیکن 2018 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستان کو مسلم دنیا کے اتحاد کے خاتمے کی علامت بنا دیا گیا۔ یہ مسلم دنیا کے اتحاد کے خلاف غداری سے بھی بڑا جرم تھا۔ اس جرم نے پاکستان کو مسلم دنیا میں بھی تنہا کر دیا۔
سعودی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے فورا بعد ایران کے صدر کا دورہ پاکستان اور اس دورے کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان لمحہ موجود میں عالمی سطح پر ایک غیر معمولی سفارتی سرگرمی ہے جس نے پاکستان کو بین الاقوامی سنٹر اسٹیج پر تاریخی اہمیت دلا دی ہے۔
ان دوروں کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے فالو اپ میں ہونے والی سفارتی سرگرمیاں نہ صرف جنگوں اور خون ریزی کی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال دیں گی بلکہ مسلم امہ کی حالیہ کشیدگی کو اتحاد میں بدل کر پاکستان کی عظمت رفتہ کی واپسی کا ذریعہ بنیں گی جس کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف بجا طور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
2018 کے بعد پاک چین تعلقات کو جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ تباہ کیا گیا اور اقتصادی راہ داری کے منصوبے کو نقصان پہنچایا گیا، اس کے بعد چین ہمیشہ کے لیے ہماری طرف سے منھ موڑ لیتا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہوتی لیکن سولہ ماہ کی حکومت نے جس حکمت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرکے تعطل کا شکار منصوبوں کو بحال کیا، اس کے نتیجے میں عبوری حکومت بھی خاصی پیش رفت کر سکی اور اب انتخابات کے بعد تو معاملات کا رخ ہی بدل چکا ہے لیکن عام انتخابات کے بعد سعودی عرب کی طرف سے جو پیش رفت ہوئی ہے وہ بھی تاریخی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کے دورے کے موقع پر اقتصادی شعبے میں جو تاریخی پیش رفت ہوئی ہے، اسے ہماری تاریخ میں ایک گیم چینجر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے ضمن میں شہباز حکومت کی یہ کوشش سعودی ولی عہد کے دورہ ٔپاکستان کے موقع پر عروج پر پہنچ جائے گی۔
ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں پاکستان میں شروع کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں کچھ غیر ذمے دارانہ تبصرے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تازہ گیم چینجر منصوبے میں دو طرفہ تجارت میں ریکارڈ اضافے کے ساتھ ساتھ معدنیات، زراعت اور نج کاری سمیت سرمایہ کاری کے بہت سے مشترکہ منصوبوں میں جس طرح شرکت پر جس آمادگی ظاہر کی ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس اعتبار سے یہ ‘پاک سعودی وینچر’ تاریخ ساز اور یادگار ہے کہ اس کے ذریعے ہماری معیشت میں بڑی مبارک کایا کلپ ہو جائے گی، ان شااللہ۔
ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان جہاں دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات ایک نئی گرم جوشی کا نکتۂ آغاز بن رہا ہے، وہیں ان کے درمیان اقتصادی تعاون کے نئے امکانات بھی تلاش کیے گئے ہیں جن پر مستقبل قریب میں نہ صرف عمل شروع ہو جائے گا بلکہ قومی معیشت میں بھی خاطر خواہ حصہ ڈالے گا۔ یہی واقعات ہیں جنھوں سال 2024 کے اپریل کو پاکستان کے لیے ایک مبارک مہینہ بنا دیا ہے۔
اردو مزاح کی تاریخ
ڈاکٹر اشتیاق احمد ورک پاکستانی مزاح کی نئی دریافت ہیں جنھوں نے نہایت تیزی سے اپنی شناخت بنائی ہے۔ مخدومی عطاالحق قاسمی جیسے بلند قامت مزاح نگار کے عہد میں جداگانہ شناخت بنانا اورمقبولیت حاصل کرنا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن انشا مرحوم، کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی اورقبلہ عطاالحق ہمارے فکاہی ادب کے ایسے درخشندہ ستارے ہیں جنھوں نے گزشتہ پچاس پچپن برس کے دوران میں درجنوں نئے اور کامیاب تجربات کرکے اپنے بعد آنے والوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا کردی تھیں۔
برادرم ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ہمارے اسی مشکل دور کے لائق مزاح نگار ہیں جنھوں نے ان بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہیں نکالنے کی کوشش کی۔ وہ صرف مزاح نگار نہیں ایک محقق بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک نئی تحقیق’ اردو مزاح کی تاریخ’ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے جعفرزٹلی سے لے کر عطاالحق قاسمی صاحب سے ہوتے ہوئے اپنے عہد تک کی مزاح نگاری کا نہ صرف دلیرانہ جائزہ لیا ہے بلکہ ان مزاح نگاروں کے مقام کے تعین کی بھی سعی کی ہے۔
اپنی نوعیت اور مزاج کے اعتبار سے یہ ایک اہم کتاب ہے جوعمومی طور پر ادب کی تاریخ اور تنقید میں اہمیت رکھتی ہے۔ قلم فاؤنڈیشن کے برادرم علامہ عبدالستار عاصم نے یہ کتاب اپنی روایت کے مطابق بہت اہتمام سے شائع کی ہے۔
[ad_2]
Source link