6

ایران اسرائیل تنازعہ… فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا!

[ad_1]

غزہ میں اسرائیل ظلم و بربریت کی بدترین داستانیں رقم کر رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہاں انسانیت سوز واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک 33 ہزار سے زائد معصوم بچے، خوتین، جوان اور بوڑھے، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکا نے بار بار ویٹو کیا۔

آخری قرارداد میں باز رہا جبکہ برطانیہ اور فرانس نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس قرار داد کو اسرائیل خاطر میں نہیںلایا، وہاں ظلم و ستم جاری رکھا بلکہ اس کے بعد ایرانی قونصل خانے پر حملہ کر دیا۔ اس سے پہلے بھی ایرانی کمانڈر اور اہم شخصیات کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیل کے بار بار حملوں کے بعد ایران نے اسرائیل میں براہ راست جوابی کارروائی کی، سینکڑوں ڈرونز اور میزائل داغے۔ اس جواب کے بعد ایران اسرائیل کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دنیا میں تشوش کی لہر دوڑ گئی۔ اسکے پیش نظر ’’مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور دنیا پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جاوید حسین

(سابق سفارتکار)

اسرائیل کے وجود کے پیچھے مختلف محرکات ہیں۔ یورپی اور مغربی طاقتیں باوجوہ چاہتی تھی کہ یہودیوں کی زیادہ تعداد یورپ سے مشرق وسطیٰ کی طرف چلی جائے کیونکہ اس وقت یہود دشمنی یورپ اور مغرب میں زیادہ تھی، سپین سے ہجرت کرکے یہودی سلطنت عثمانیہ گئے۔ صدیوں سے مسیحیوں اور یہودیوں کے مسائل تھے۔

اس کی قریب ترین مثال ہولو کاسٹ ہے۔ اعلان بالفور و دیگر اقدامات سے یہودیوں کو مشرق وسطیٰ میں چالاکی سے منتقل کیا گیا تاکہ جنگ و جدل اور لڑائی مشرق وسطیٰ میں ہو، یورپ اس سے پاک ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یورپ، امریکا اور برطانیہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مغرب کے سٹرٹیجک، سیاسی، معاشی، تجارتی، آمد و رفت، وسائل، توانائی کے ذخائر سمیت دیگر مفادات ہیں۔

امریکا اور مغرب چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ان کا اثر و رسوخ رہے۔ اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اس خطے کو کالونی بنا دیں لہٰذا ایک نیا حربہ استعمال کیا گیا کہ وہاں کی سیاسی، معاشی، تجارتی و دیگر پالیسیاں ایسی بنائی جائیں کہ خطے کے ممالک یورپ کے تابع ہوجائیں۔ اس کیلئے خطے کے ممالک کو آپس میں لڑایا جائے تاکہ وہ مدد کیلئے مغرب کے پاس جائیں۔ ایران، عراق جنگ دونوں ممالک کو کمزور کرنے کیلئے کرائی گئی تاکہ مغرب کا اثر و رسوخ بڑھ سکے۔

عراق پر امریکا نے حملہ اس لیے کیا کہ صدام حسین طاقتور ہو رہا تھا اور خود کو بڑا سمجھ رہا تھا۔ میرے نزدیک اسرائیل مغربی دنیا کی ’آؤٹ پوسٹ‘ اور مہرہ ہے لہٰذا یہ تصور کرنا کہ مغربی ممالک، اسرائیل کے مسائل کو حل کرنے میں غیر جانبدار ہونگے ،درست نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل میں مغرب مثبت کردار ادا کرے ممکن نہیں ہے۔ مسلم امہ اور فلسطینیوں کو ایسی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی سٹرٹیجی بنانی ہے۔

مغربی ممالک ہر جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بات کرتے ہیں۔ کسی ملک میں کوئی شخص جیل میں ہو، کسی کی جان چلی جائے تو یہ ممالک انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچا دیتے ہیں۔ غزہ میں 33 ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں جس میں بچے، خواتین، جوان، بوڑھے سب شامل ہیں۔ اس پر خاموشی سے مغرب کا دوہرا معیار سامنے آیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکا نے ویٹو کیا۔ آخری قرارداد جس میں امریکا باز رہا وہ بھی مستقل جنگ بندی کی نہیں تھی بلکہ ماہ رمضان میں جنگ بندی کی تھی۔ اسے بھی اسرائیل نے نہیں مانا اور ماہ رمضان بھی ختم ہوچکا ہے۔

مغرب شور مچاتا ہے کہ ہانگ کانگ میں جمہوریت کی پامالی ہورہی ہے۔ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے، وہاں تو کمیونزم ہے۔ اسی طرح یوکرین معاملے پر شور مچاتے ہیں لیکن غزہ میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر خاموشی ہے بلکہ قراردادیں ویٹو کر دی جاتی ہیں جو افسوسناک ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل مغرب کا مہرہ ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا کے بڑے مسائل نرمی سے نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر حل ہوتے ہیں، مظلوم کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی بلکہ طاقتور کی سنی جاتی ہے۔ عالمی سیاست میں شفافیت اور قانون کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ ’پاور پالیٹکس‘ ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرکے عراق پر حملہ کیا، اس پر کیا ہوا؟کیا امریکا اور سابق امریکی صدر جارج بش کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا؟ اگر یہی کام کوئی اور کرتا تو واویلا مچا دیا جاتا۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک کی غلطیوں کی وجہ سے آج مشرق وسطیٰ کی حالت خراب ہے۔

عرب و عجم کے مسائل، آپس کے لڑائی جھگڑے، عربوں کے اندرونی مسائل سمیت بیشتر ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اتحاد اور اتفاق پیدا نہیں ہوا، اس کا فائدہ مغرب نے اٹھایا ہے۔ اگر ہم دنیا یا خطے میں موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پوری مسلم امہ کو متحد ہونا ہوگا۔ غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل کی کوشش ہے کہ خطے میں کشیدگی پھیلے جو کسی کے حق میں نہیں، خود امریکا بھی ایسا نہیں چاہتا، چین اور روس کے بھی مشرق وسطیٰ میں مفادات ہیں لہٰذا وہ بھی کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان اور ایران مزید قریب آرہے ہیں، ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ہمیں سفارتی محاذ پر پہلے سے بہتر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان کے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اچھے روابط ہیں، اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسلم امہ کو متحد اورمضبوط ہونا ہوگا۔ اسلامی ممالک جدید ٹیکنالوجی، تعلیم، معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کی طرف بڑھیں، اپنی خامیاں دور کریں اور آپس میں انتشار کے بجائے اتحاد کو فروغ دیں، اگر ایسا ہوگیا تو مسئلہ فلسطین اور کشمیر سمیت مسلم ممالک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

ڈاکٹر امجد مگسی

(ایسوسی ایٹ پروفیسر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب)

ایران، اسرائیل کا تنازعہ عالمی اور علاقائی امن سے جڑا ہے۔ جس طرح یوکرین معاملے کے عالمی معیشت پر برے اثرات پڑے۔ اسی طرح اگر ایران، اسرائیل کشیدگی بڑھتی ہے اور مشرق وسطیٰ میں بحران کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس سے عالمی معیشت بھی متاثر ہوگی جو عرب ممالک، یورپ، امریکا، برطانیہ، چین، روس سمیت کسی کے مفاد میں نہیں۔ایرا ن ہمارا ہمسایہ ملک ہے لہٰذا ہمیں معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ دیگر بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں ، موجودہ حالات میں اس کی اہمیت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سمیت دیگر معاشی اور تجارتی معاہدات اور پیش رفت متوقع ہے۔ ہمیں سفارتی محاذ پر بہتر کارکردگی دکھانا ہوگی۔ اسرائیل غزہ میں ظلم و بربریت کی اندوہ ناک داستانیں رقم کر رہا ہے،ا س نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ ایران کو بھی اس نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔

ایران کی بڑی شخصیات کے بعد اب اس کے سفارخانے پر حملہ کیا لہٰذا ایسی صورتحال میں ایران کے پاس جوابی حملے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر اب بھی ایران خاموش رہتا تو اسرائیل کو کوئی بھی روکنے والا نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی محض ’لپ سروس‘ کی اور کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔ ایران نے جوابی حملوں سے پہلے وقت دیا، ہمسایہ ممالک کو اعتماد میں لیا اور پھر کارروائی کی۔ ایران کے حملے سے اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونے کا بت پاش پاش ہوگیا جس سے فلسطینیوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں۔ ایران نے سینکڑوں ڈرونز پھینکے جو اس کا حربہ تھا۔

میرے نزدیک ایران نے کنٹرولڈ جواب دیا جوبہترین ہے۔ اس پر عرب ممالک کا مجموعی ردعمل بھی اچھا ہے۔ امریکا نے بھی اسرائیل کو باز رہنے کا کہا ہے ، یہ نئی چیز سامنے آئی ہے۔ اس مرتبہ اسرائیل کا معاملہ یکطرفہ نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے خود کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کے سامنے اس کا سفاک چہرہ عیاں ہوا ہے۔ دوسری طرف باوجود بدترین ظلم و بربریت کے، فلسطینیوں نے ہتھیار نہیں پھینکے، اسرائیل انہیں دبانے میں ناکام رہا ہے، وہ ڈٹ کر کھڑے ہیں لہٰذا اسرائیل کو بربریت اور جارحیت سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔

مشرق وسطیٰ میں روس اور چین کے مفادات بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ بھی ان کے تعلقات اچھے ہیں۔ پاکستان کے ان تینوں ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ روس اور پاکستان کی ایک ارب سے زائد کی تجارت ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات بھی ہیں لہٰذا چین، روس اور امریکا، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھنے نہیں دیں گے۔ اس وقت تیسری عالمی جنگ کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں، میرے نزدیک اس کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم ایران، اسرائیل کشیدگی کا دائرہ کار بڑھ سکتا ہے، اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ پھر دوسرے ممالک کو ناچاہتے ہوئے بھی اس میں آنا پڑے گا۔ ایران اس وقت چین اور روس کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے لہٰذا وہ اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

حالات نارمل کرنے میں پاکستان بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں اسرائیل کو ہر فورم پر بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ اس موقع پر ہمیں ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں سفارتی محاذ پر بہترین حکمت عملی کے ساتھ چلنا ہوگا۔ امید ہے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے نئے باب کھلیں گے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

غزہ میں حماس نے جس پیمانے پر کارروائی کی ، اسرائیل اور اس کے حمایتیوں نے کبھی بھی اس کی توقع نہیں کی تھی۔ حماس کے حملوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ اسرائیل بند قلع نہیں ہے، اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ 1948ء سے 1966ء تک، غزہ مصر کے پاس تھا پھر اسرائیل نے چھین لیا۔ آج یہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے۔

2005ء تک اسرائیل اس پر پوری طرح سے قابض تھا۔ پھر ایک معاہدہ ہوا جس میں دو ریاستوں کا تصور پیش کیا گیا۔ اسرائیل اس سے مکر گیا۔ غزہ کی بندرگاہ دنیا کی اہم ترین ہے، اسرائیل نے اس پر آج تک اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔ اقوام متحدہ اسے اسرائیل کا حصہ ہی سمجھتا ہے۔ اسرائیل کے داخلی معاملات سنگین ہیں۔

وہاں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے وجود سے لے کر اب تک، کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکی بلکہ مخلوط حکومت بنتی ہے۔ اسرائیل کی گزشتہ حکومت میں ایک مسلمان وزیر بھی شامل تھا۔ وہ حکومت سمجھتی تھی کہ فلسطین کے ساتھ بات کرنی چاہیے لیکن نیتن یایو مختلف سوچ کا مالک ہے۔ حماس کے حملے کے بعد اپنے داخلی معاملات کی وجہ سے اسرائیل نے سخت ترین حملے کیے۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد تین مرتبہ پیش ہوئی، امریکا نے اسے ویٹو کیا، آخری مرتبہ امریکا باز رہا لیکن برطانیہ اور فرانس نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دے دیا۔

یہ سلامتی کونسل کی قرار داد تھی جس کی پابندی ہونی چاہیے تھی لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔اس وقت اسرائیل مخالف تنظیمیں ایران کے قریب ہیں اور اسرائیل ان کے گھیرے میں ہے۔ اسرائیل نے ایران کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور اب ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیا۔ یہ حملہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی آخری قرارداد کے بعد کیا جس میں برطانیہ اور فرانس نے جنگ بندی کیلئے ووٹ دیا، اسرائیل کو سمجھ آگئی کہ اس کی طاقت کم ہورہی ہے لہٰذااب وہ چاہتا ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظم و بربریت سے دنیا کا دھیان ہٹ جائے۔

اس لیے وہ خطے میں کشیدگی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، امریکا اسے باز رہنے کا کہہ رہا ہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کشیدگی بڑھی تو تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں گی جس سے امریکا سمیت دنیا بھر کو نقصان ہوگا۔ ایران، اسرائیل کشیدگی کے بعد غزہ کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے، ہر طرف حالیہ تنازعہ پر بات ہو رہی ہے۔ اسرائیل کے بار بار حملوں کے بعد ایران مجبور ہوگیا تھا کہ اسے جواب دے۔ ایران نے وہ میزائل استعمال نہیں کیے جو پاکستان میں پھینکے گئے تھے۔

ایران نے اسرائیل میں ڈرونز بھیجے، اسے وہاں میزائل داغنے میں 5 گھنٹے لگے۔ برطانیہ اور امریکا نے اردن کی حدود میں کچھ ڈرونز گرائے۔ حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیل کو اربوں ڈالرز دیے گئے، اسے اسلحہ اور شیلڈ دی گئی مگر اس سب کے باوجود اس میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ اکیلا ایران کے جوابی حملے کو ناکام بناتا، اس کیلئے اسے امریکا اور برطانیہ کی مدد کی ضرورت پڑی۔ ایسی صورتحال میں تیسری عالمی جنگ کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ حالیہ کشیدگی میں پاکستان اہم کردار اد اکر سکتا ہے۔ ہماری تمام اسلامی ممالک سے اچھی دوستی ہے۔

حال ہی میں سعودی عرب کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان آیا۔ آئندہ ماہ سعودی ولی عہد کا دورہ متوقع ہے۔ ترکی کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہیں لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستان ’ ’بیلنسنگ رول‘‘ ادا کرسکتا ہے۔ ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ایسے میں ہمیں سفارتی، معاشی اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں