[ad_1]
گزشتہ روز ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی 2 نشستوں سمیت پنجاب اسمبلی کی 12 میں سے 10 سیٹیں حاصل کرلیں جب کہ اتحادی جماعتیں ق لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی بھی ایک ایک صوبائی نشست حاصل کرسکی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 5 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں ن لیگ 2، پیپلزپارٹی اور سنی اتحاد کونسل 1۔1 نشست پرکامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
ضمنی انتخابات کا انعقاد جمہوری عمل کے تسلسل اور استحکام کی علامت ہے، اب قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد مکمل ہوجانے سے انھیں اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں مزید آسانی ہوگی، یوں نہ صرف جمہوریت اپنے ٹریک پر رواں دواں رہے گی بلکہ ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے گا جوکہ ملکی معیشت کے لیے مژدہ جانفزا ثابت ہوگا۔
اسی تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب ارکان کی جیت عوام کے اعتماد کا مظہر ہے، معاشی بہتری کے واضح ہوتے آثارکے ساتھ عوامی رائے میں تبدیلی بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر نے کہا ہے کہ ضمنی الیکشن کے نام پر تماشہ لگا، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات نہ کرا سکا، اس لیے کارکن پرامن احتجاج کریں۔
بلاشبہ احتجاج ایک جمہوری حق، جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن جب ملک میں آئینی و قانونی ادارے موجود ہوں تو سڑکوں پر احتجاج کا حق نہیں بنتا، لٰہذا پہلے تو متعلقہ فورمز پر پی ٹی آئی کو رجوع کرنا چاہیے، اس کے علاوہ عدالتوں کے دروازے بھی انصاف کی فراہمی کے لیے کھلے ہیں، لٰہذا پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و کارکن متعلقہ فورمز پر اپنی شکایات درج کروائیں اور فیصلوں کا انتظارکریں اور احتجاج کی روش ترک کرتے ہوئے جمہوری عمل کو چلنے دیں۔
ملک میں آٹھ فروری کو ہونیوالے عام انتخابات کے حوالے سے بھی تحریک انصاف نے متعلقہ فورمز پر رجوع کیا تھا، جس کے تحت کئی حلقوں میں انتخابی نتائج ان کے امیدواران کے حق میں آئے تھے۔ بہرحال پر امن ضمنی انتخابات کے انعقاد سے ملک میں جمہوری قدریں مزید مستحکم بنیادوں پر استوار ہونگی۔
دوسری جانب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی تین روزہ دورے پر پاکستان آئے ہیں۔ ایران کے صدر اپنے دورہ پاکستان کے دوران صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کریں گے۔ وہ لاہور اورکراچی کا بھی دورہ کریں گے اور صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
فریقین کے پاس پاکستان ایران تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور تجارت، باہمی رابطوں، توانائی، زراعت اور عوام سے عوام کے رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کا وسیع ایجنڈا موجود ہے ۔ دورہ کے موقع پر فریقین علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دوطرفہ تعاون پر بھی بات کریں گے۔
پاکستان ایران تعلقات کا تاریخی پس منظر پڑھنے والوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ دونوں ریاستوں کے درمیان ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخ، ثقافت اور مذہب میں جڑے مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں۔ یہ دورہ پاکستان ایران تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرے گا۔ دونوں ممالک کی قیادتیں علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعاون پر بھی بات کریں گی۔
حالیہ دنوں میں پہلی بار ایران اور اسرائیل کی براہ راست محاذ آرائی ہوئی ہے، جنگ اگر خطے میں پھیلی تو پاکستان پر بھی اس کے اثرات ہوں گے، جنگ بڑھنا اسرائیل کے سوا کسی کے مفاد میں نہیں ہے، اگر تناؤ بڑھتا ہے تو اقتصادی اثرات پاکستان اور دیگر ملکوں پر پڑنے سے چیلنج بڑھ جائیں گے، امریکی انتظامیہ میں بھی احساس ہے کہ جنگ بڑھتی ہے تو اس کا امریکا کو فائدہ نہیں ہو گا۔
جنگ کی صورت میں پاکستان کے ایران سے تجارتی روابط متاثر ہو سکتے ہیں، ایران اسرائیل کشیدگی کا تیل کی قیمتوں پر اثر ہو سکتا ہے، اسرائیل میں حملے سے پہلے افراتفری پھیلی ہوئی تھی، اس معاملے پر مسلم ممالک کی تین کیٹیگریز ہیں۔ مسلم ممالک کی پہلی کیٹیگری کے اسرائیل سے براہ راست تعلقات ہیں، دوسری کیٹیگری والے ممالک امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے جب کہ تیسری کیٹیگری میں پاکستان، ایران اور سعودی عرب ہے جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
دراصل ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی، جس کے بعد ایران پر اندرون اور بیرونِ ملک سے بہت دباؤ تھا۔ ایران نے صرف فوجی ٹارگٹس پر حملے کیے، شہری تنصیبات پر نہیں، ایران کا مقصد صرف اسرائیل کو خبردار کرنا تھا، اسرائیل چاہے گا کہ امریکا جنگ میں ملوث ہوجائے اور امریکا کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا جائے لیکن امریکا ایسا نہیں چاہے گا۔
ملک میں طویل عرصے سے جاری بجلی کے بحران نے معاشی نمو کو روکا ہوا ہے، پاکستان اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ایران کے ساتھ مشترکہ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر انحصار کر رہا ہے۔ سات ارب 50 کروڑ ڈالر کی ایران پاکستان گیس پائپ لائن، جس کا مقصد پاکستانی پاور پلانٹس کو ایندھن فراہم کرنا ہے، اس منصوبے کا 2013 میں بڑی دھوم دھام سے افتتاح کیا گیا تھا، لیکن ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے بعد یہ منصوبہ فوری طور پر رک گیا۔
ایران نے 18 سو کلومیٹر طویل پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر لیا ہے، جو بالآخر اس کی جنوبی پارس گیس فیلڈزکو پاکستانی شہر نواب شاہ سے جوڑ دے گا۔ رواں برس فروری میں پاکستان کی نگراں حکومت نے برسوں کی تاخیر کی وجہ سے ایران کو اربوں ڈالرکے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری دی تھی، تاہم امریکا نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کو خبردارکیا ہے کہ وہ پائپ لائن (منصوبے) کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتا اور پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کے اصول پر دونوں ممالک باہمی طور پر بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے چھوٹی موٹی رکاوٹوں پر قابو پا سکیں گے۔ پاکستان ایک قانون کی پاسداری کرنے والا اور امن پسند ملک ہے، پاکستان تمام ممالک بالخصوص اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔
لاکھوں زائرین سالانہ ایران جاتے ہیں جنھیں ایران میں مکمل سہولت فراہم کی جاتی ہے، جب دونوں ممالک نے تعلقات کے نئے دورکے آغاز پر اتفاق کیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ باہمی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے دونوں ممالک کو زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورے سے تجارت، سلامتی اور علاقائی استحکام سمیت متعدد دوطرفہ امور میں تعاون کے ایک نئے دور کی راہ ہموار ہوگی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان اور ایران کو توانائی، بنیادی ڈھانچے اور عوامی سطح پر تبادلوں جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقع تلاش کرنے کا موقع ملے گا۔ اپنی شراکت داری کو مضبوط بنا کر دونوں ممالک ترقی اور خوشحالی کے نئے مواقعے کھول سکتے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوں گے اور علاقائی استحکام میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔
ایران، پاکستان کا ایک قابل احترام اور برادر ہمسایہ ملک ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات خطے کے مفاد کے لیے ضروری ہیں۔ ہر مشکل وقت میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ ایران اور پاکستان جنوبی ایشیا میں تجارت کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ملک خوشگوار تعلقات کو مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور ایران مثبت بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، دہشت گردی سمیت ہمارے مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے، ایران مذاکرات سے مشترکہ چیلنجز کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کرے گا۔ دونوں ملکوں نے ہر میدان اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔
دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کریں، پاکستان ایران کی جانب سے تمام مثبت اقدامات کا خیرمقدم کرے گا۔ دونوں ملک کشیدگی میں مزید اضافے سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
دونوں ممالک کے درمیان تمام سیکیورٹی خدشات کو پرامن طریقے سے، بات چیت اور تعاون کے ذریعے، خودمختاری، علاقائی سالمیت اور اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کے اصولوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
پاکستان ہمیشہ اور ہر طرح کی صورتحال میں ایران کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ پیچیدہ علاقائی ماحول میں دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعاون اور باہمی اعتماد امن اور استحکام کے لیے اہم ہے۔ پاکستان امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کی اپنی اقدار کے لیے پر عزم ہے۔
[ad_2]
Source link