15

اسرائیلی جارحیت کے 200دن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

اسرائیل کی فوج مسلسل غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کے حملے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور سلامتی کونسل کی جنگ بندی قرارداد کی منظوری کے باوجود اسرائیل کی حکومت اپنی ہٹ دھرمی اور جارحانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی 7 اکتوبر2023 کو شروع ہوئی تھی۔ اسرائیل کی  اس جارحیت کے 200دن مکمل ہوچکے ہیں،اس دوران چند دنوں کے لیے فائر بندی ہوئی لیکن مستقل جنگ بندی ابھی تک نہیں ہو سکی۔اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام اسرائیل کوجارحیت سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہوئے 7ماہ ہونے والے ہیں‘غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے‘ اس کے پاس جنگی طیارے ہیں اور نہ ٹینک ہیں۔اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اسرائیل ایک بے دست و پا علاقے کے شہریوں کو کئی ماہ سے نشانہ بنا رہا ہے۔

عالمی میڈیاکے مہیا کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اسرائیلی فورسز چونتیس ہزار سے زائدفلسطینی شہریوں کوقتل کر چکی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 80ہزار کے قریب ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ ہزاروں لاپتہ ہیںاور ہزاروں ہی خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔میڈیا نے فلسطینی حکام کے حوالے سے بتایا گزشتہ 24گھنٹوں میںاسرائیلی فورسز نے مزید 32فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ غزہ کے شہر خان یونس کے ناصر میڈیکل کیمپ میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے مزید 100 لاشیں نکال لی گئی ہیں، یوں اس کیمپ سے ملنے والی لاشوں کی تعداد 283ہوگئی ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے مسلسل اور المناک قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس میں حال ہی میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکڑوں افراد کو اجتماعی تدفین سے پہلے تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ نے عالمی ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (انروا)کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے اور خلاف ورزیوں کے الزامات کا جواب دینے کی صلاحیت کے آزادانہ جائزے کی سفارشات کو قبول کر لیا ہے۔

اسرائیل کی فوج کے مظالم کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہو چکا ہے، اسرائیل کی فورسز بچوں‘ بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوںکا بے رحمانہ انداز میںقتل عام کر رہی ہے، اکثر سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جنھیں کوئی بھی انسان برداشت نہیں کرسکتا اور اسے دیکھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دیکھنے والا شخص اسرائیلی مظالم کی مذمت نہ کرے۔ افسوس کہ اقوام عالم زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔

ادھر عالمی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے دفتر خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ حماس نے اپنے اہداف اور مطالبات کو تبدیل کر دیا ہے۔ حماس نے اسرائیل، مصر اور قطر کے نمایندوں کے سامنے اپنے نئے مطالبات پیش کر دیے ہیں۔امریکی وزارت خارجہ نے غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر رپورٹ بھی جاری کردی ۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کیے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات دیکھ رہے ہیں۔

فرانس کے صدر ایما نوئل میکرون نے غزہ میں فوری اور دیرپا جنگ بندی کے لیے فرانس کے مطالبے کو دہرایا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان کراسٹوف لیموئن نے کہا ہے کہ ان کا ملک رفح میں کسی بھی اسرائیلی فوجی کارروائی کی مخالفت کرتا ہے۔ سعودی وزیر دفاع سے برطانوی ہم منصب نے فون پر خطے میں فوجی کشیدگی بارے تبادلہ خیال کیا۔

امریکا ‘برطانیہ ‘فرانس ‘یورپی یونین‘ روس ‘چین ‘عرب ممالک اور ایران اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔ان ممالک کے باہمی مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ایک گروپ اگرفلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے تو دوسرا اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس سارے کھیل میں نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے حالانکہ سب کو پتہ ہے۔ فلسطین کے مسئلہ کا حل فلسطینیوں کی خواہش اور رائے کے مطابق ہونا چاہیے۔

صرف امریکا ‘برطانیہ‘ فرانس اوراسرائیل کے مفادات کو سامنے رکھ کر تنازعہ فلسطین کوئی حل کامیاب نہیں ہوسکتا۔ادھر روس‘چین اور ایران جو حل پیش کرتے ہیں‘اسے امریکا مسترد کرتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جارحیت میں کمی نہیں آ رہی‘وہ بتدریج اپنے اہداف کو حاصل کر رہا ہے اسرائیل ارض فلسطین کے پورے علاقے پر اپنا قبضہ چاہتا ہے اور فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل شام ‘اردن اور لبنان کے کئی حصوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ شام کی گولان کی پہاڑیوں کو تو حال ہی میں اسرائیل نے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ توسیع پسندی اسرائیل کی پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔

اسی لیے اسرائیل نے پورے مشرق وسطیٰ میں بدامنی پھیلا رکھی ہے۔ اقوام متحدہ بھی اسرائیل کو اس کے ظلم اور بربریت سے روکنے میں ناکام ہے۔دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں متعدد ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کی جنگ نے دنیا بھر کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ جو اسرائیل کے ظلم و ستم میں اس کا ساتھ دے رہا ہے اور دوسرا حصہ جو مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو روکا نہ گیا تو یہ جنگ پوری دنیا کے امن و امان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گی۔

پرامن زندگی فلسطینیوں کا بھی حق ہے ، اپنی زمین پر رہنے کا انھیں پورا حق ہے ، پوری دنیا ان کی جانب متوجہ ہو اور ان کے مسئلے کو حل کریں۔ اسرائیلی صہیونی جارحیت اور دہشت گردی کی کوئی انتہا نہیں ہے، ساری دنیا کے با ضمیر انسانوں کو فلسطین کے اب اٹھے ہوئے مسئلہ کو بغیر حل کے دبا دینے کے بجائے اس پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

اب فلسطین کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی پوری دنیا اور پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ تاریخ اور آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق فلسطینی اس خطے میں عبرانی بولنے والے قبائل کی آمد سے بہت پہلے اس خطے میں موجود تھے اور ان کی حکمرانی قائم تھی ‘اس لیے اس پورے علاقے کو فلسطینیوں کی زمین کہا جاتا ہے۔ فلسطین کا تنازعہ کا حل جو بھی ہو ‘اسے فلسطینی عوام کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔

اسرائیل کو اپنے ہمسایہ ممالک کے جغرافیائی حدود کا بھی پابند ہونا پڑے گا۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی قیادت حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے‘انھیں اس حقیقت کا بھی پتہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی نہیں بلکہ عرب ملکوں میں بھی ان کے بھاری مفادات ہیں۔

امریکا کا کردار اس سارے معاملے میں جانبدارانہ ہے اگر امریکا چاہتا تو نوبت جنگ تک نہ پہنچتی وہ اسرائیل کو اس کے اقدامات سے باز رکھ کر حالات کو بگڑنے سے بچا سکتا تھا مگر اسرائیل کی حمایت کر کے امریکا نے صورتحال کو مزید خراب کیا اور اب بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکا میں کسی بھی جماعت کی حکومت ہو وہ ہر حال میں اسرائیل کی حمایت کرے گی۔ امریکا اور اسرائیل کی حکمت عملی ایک جیسی ہے۔

عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کرتی ہیں یا وہ چاہتی ہیں کہ تنازعہ فلسطین کا کوئی قابل قبول حل نکلے‘ انھیں چاہیے کہ وہ فوری جنگ بندی کے لیے کوششیں کریں کیونکہ نہ صرف فلسطینی عوام خصوصاً غزہ کی پٹی پر عوام بہت درد ناک صورت حال سے دوچار ہیں ۔مسلم ممالک کو بھی اپنے باہمی مفادات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فلسطین کے تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان چپقلش کا نقصان فلسطینیوں کو ہو رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دو ریاستی حل قابل قبول ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہ حل ناقابل قبول ہے۔ ان کی نظر میں فلسطین کے تنازع کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی اقتدار ختم ہو ‘یہودی آباد کار وہاں سے نکل جائیں ‘ادھر فلسطینی قیادت بھی ایسی طرح تقسیم ہے۔پی ایل او کا نقطہ نظر دو ریاستی حل کی طرف ہے جب کہ حماس اور دیگر گروپوں کا اس سے شدید اختلاف ہے۔ یوں فلسطینی عوام کے مفادات مسلسل تباہ ہو رہے ہیں ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں