[ad_1]
پریا کماری کی عمر نو سال تھی جب 19 اگست 2021کو 10محرم کے دن لگائے جانے والی سبیل میں اپنے والد راج کمار عرف راجو کے ساتھ ہاتھ بٹانے آئی تھی۔ اس کے والد دوپہر تین بجے کے قریب کسی کا م سے گھر چلے گئے۔ راج کمار واپس آئے تو پریا کماری لاپتہ تھی۔پریا کماری کو لاپتہ ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا مگر پریا کماری کا پتا نہیں چل سکا۔ پریا کماری کا تعلق سکھر سے منسلک ایک چھوٹے گوٹھ سنگرار سے ہے۔
پریا کماری کے والد کی پرچون کی دکان ہے۔ راج کمار کا کہنا ہے کہ 10محرم کو سیکیورٹی کی بناء پر موبائل سروس معطل تھی۔ راج کمار اپنے رشتے داروں کے گھر وں میں گیا مگر پریا کماری کے بارے میں کچھ معلوم نا ہوسکا، پھر تھانے جاکر رپورٹ درج کرائی۔ پریا کماری کے اغواء سے اس کے والدین ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پوری ہندو برادری میں خوف پیدا ہوگیا۔ سنگرار میں ہندو برادری صدیوں سے آباد ہے اوراس برادری کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہے مگر بہت سے خاندان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا اور تحقیقات شروع کردی۔
پولیس کچھ نہ کرسکی تو پولیس افسروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس دن موبائل سروس بند تھی، یوں جیو فینسنگ نہیں ہوسکتی۔ سنگرار کے بازار میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب نہیں تھے، یوں اس آلے سے بھی مدد نہیں لی جاسکی۔ راج کمار نے سیاست دانوں اور منتخب نمایندوں سے رابطہ کیا، کئی اخبارات، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر پریا کماری کے اغواء کی خبریں شایع ہوئیں تو پولیس نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنادی۔ یہ ٹیم حیدرآباد کے ایس ایس پی تنویر تنیو اورآئی جی سندھ کے نامزد کردہ دو ڈی ایس پیز کو شامل کرکے بنائی گئی اور میر پور خاص کے ڈی آئی جی جاوید جسکانی کو اس ٹیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP جو مظلوم طبقات کے حالات کار کو بہتر بنانے اور حقائق کو آشکار کرنے کی بین الاقوامی شہرت کی حامل تنظیم ہے، نے پریا کماری کے معاملے پر حقائق جاننے کے لیے ایک مشن سنگرار روانہ کیا۔ اس مشن نے پریا کماری کے رشتے داروں اور دیگر افراد سے انٹرویو کیے۔ ان میں سے کئی افراد نے خدشہ ظاہر کیا کہ پریا کماری بااثر افراد کی حویلی میں موجود ہے مگر پولیس دباؤ کی بناء پر حقیقی کارروائی سے گریز کررہی ہے۔
کچھ افراد نے یہ بھی کہا کہ یہ تبدیلی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پریا کماری کے خاندان کے کسی فرد نے بااثر افراد کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا جس پر پریا کماری کواغواء کیا گیا ہے۔ بہرحال ایچ آر سی پی کے مشن نے سکھر پولیس کے افسروں سے رابطہ کیا۔ ان افسروں نے پولیس کی کارکردگی کو تفصیلی طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران ایک ہزار افراد سے پوچھ گچھ کی اور کھوجیوں کی مدد سے تین سو گھروں کی تلاشی لی گئی اور 22 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا۔
درگاہوں اور مندروں سے معلومات حاصل کی گئیں اور آس پاس کے علاقے کے خانہ بدوشوں اور بھکاریوں کی بستیوں میں بھی چھان بین کی گئی۔ سکھر کے ایس ایس پی عابد بلوچ نے صحافیوں کوبتایا کہ انھوں نے تمام ممکنہ کوششیں کیں اور پنجاب تک تحقیقات کا دائرہ بڑھایا۔
پولیس کا یہ بھی مؤقف سامنے آیا کہ پریا کے والدین بھی تعاون نہیں کررہے ہیں جب کہ پر یا کے والد راج کمار کہتے ہیں کہ ان کے دو موبائل فون پولیس کے پاس ہیں جن میں سے ایک سے پریا گیم کھیلتی تھی، اس میں سم نہیں تھی اور اتنا عرصہ گزرگیا کہ ان موبائل کے پاس ورڈ بھی یاد نہیں ہیں، جب پولیس کسی بھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 2021میں نوٹس لیا تھا اور معزز عدالت کے حکم پر جے آئی ٹی بنی۔
نیویارک میں مقیم ایک امریکی شہری منور لغاری نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ امریکی کانگریس کے رکن براڈ شرمین نے ستمبر 2023میں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ پریا کماری کی گمشدگی کو دو سال ہوچکے ہیں، ہاؤس آف فارن کی انسانی حقوق کی ذیلی کمیٹی جو بچوں کی اسمگلنگ پر کام کررہی ہے، اس مسئلے پر بھی غور کررہی ہے۔
یہ کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پریا کماری کی بازیابی کی کوششیں رائیگاں ثابت نہیں ہونگی۔ جب پریا کماری کے مسئلے پر سندھ بھر میں مظاہرے ہوئے تو سکھر سے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ دو سال بعد یہ مسئلہ کیوں اٹھایا جارہا ہے؟ پریا کماری اور دیگر مذاہب کی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کا معاملہ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین جن میں اقوام متحدہ کے خواتین اور بچوں پر مظالم پر خصوصی تحقیقاتی نمایندے ایم پی ٹومویا‘ اوباکاٹا اور ساؤبھو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حالات بہت خراب ہیں۔
ان ماہرین نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا ایک سلسلہ ہے جو جاری ہے۔ ان ماہرین نے زبردستی تبدیلی مذہب اور زبردستی شادیوں کے واقعات کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ماہرین نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
ایک معروف سندھی دانشور نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پریا کماری کو اس وقت اغواء کیا گیا جب وہ مذہبی رواداری کی سندھ کی قدیم روایت کے تحت مسلمانوں کے لیے انتہائی پرالم اور درد ناک دن شربت تقسیم کرنے کا کام کررہی تھی۔ پریا کماری کے اغواء اور عدم دستیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے انصاف کی فراہمی اب بھی ممکن نہیں ہے۔
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پریا کماری کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا یوں سندھ میں غریبوں کو بھی انصاف نہیں مل رہا۔ انسانی حقوق کے کارکن یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح ہندو برادری کوہراساں کرنے کے الزام میں ایک بااثر پیر کو پیپلزپارٹی سے خارج کردیا تھا اب پریا کماری کے اغواء کے جرم میں ملوث بااثر افراد کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی ہونی چاہیے۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 2014میں دیگر مذاہب کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بہترین فیصلہ دیا تھا۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر سڈل نے ایک مفصل رپورٹ تیار کی تھی مگر اس رپورٹ پر ابھی تک مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اگر ڈاکٹر شعیب سڈل کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ایک ماہر کا کہنا ہے کہ 1971 میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد ایک منظم منصوبہ کے تحت سندھ میں اقلیتوں کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پریا کماری کی بازیابی میں ناکامی ایک طرف پولیس کی ناکامی ہے دوسری طرف سندھ حکومت کے امن و امان کے دعوے ہوا میں اڑ گئے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ یہ سلوک پاکستان کی عالمی منظرنامے میں پوزیشن خراب کرتا ہے۔
[ad_2]
Source link