[ad_1]
یہ معلوم کرنا اب مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ ’’یہ بات‘‘ کس نے کس سے کہی تھی، کہاں کہی تھی اور کب کہی تھی لیکن کم سے کم یہ تو حقیقت ہے کہ ’’یہ بات‘‘ کہی گئی ہے کہ تم نے’’وہ‘‘ کیوں رکھ لیا۔جس’’وہ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے’’وہ‘‘ ایک جانور ہے۔جس کی وفاداری مشہور ہے۔
نام اس کا ہم اس لیے نہیں لے رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کے مطابق اگر کسی گھر میں اس جانور کا ایک بال بھی موجود ہو تو وہاں’’فرشتے‘‘ نہیں آتے واللہ اعلم۔اور ہم اسی بات پر آج بات کریں گے کہ ایک طرف تو اس جانور کی تعریفوں کے طومار باندھے جاتے ہیں اور دوسری طرف اسے ناپاک اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، یہاں اگر کسی کو اس کے نام سے پکارا جائے تو وہ نہ صرف بھونکنا شروع کردیتا ہے بلکہ ’’کاٹنے‘‘ کو بھی دوڑ پڑتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے تو انسان نے بہت کچھ اسی جانور سے سیکھا ہے۔’’نوالے‘‘ کے لیے اپنے بھائی اور عزیزوں پر کاٹنے کے لیے دوڑنا۔انسان نے اسی سے سیکھا ہے،یعنی جہاں سے نوالہ ملے اس کی وفاداری میں عزیزوں اور خود اپنی جان سے گزرنا۔ اگرچہ یہ انسان نے اس سے سیکھا ہے یا اس نے انسان سے سیکھا۔یعنی یہ کہ انسان اس پر’’گیا‘‘ ہے یا یہ انسان پر گیا ہے۔
دونوں ہی ایک دوسرے کے صحبت یافتہ ہیں۔ہمارے ہاں تو اس کی حیثیت کا اندازہ اس کہاوت ہی سے ہوتا ہے جو کہی گئی ہے۔یعنی وہ تیرا’’باپ‘‘ کیا کم تھا کہ تم نے ’’یہ‘‘ بھی پال لیا ہے۔ حالانکہ یورپ میں اور اب یورپ کی تقلید میں یہاں کے ایلیٹ میں اس جانور کی بہت قدر ومنزلت ہے بلکہ محبت کا یہ عالم ہے کہ اکثر شوہر کو پیچھے اور اسے سینے سے لگائے رکھتی ہیں۔ فارسی والے بھی کشھ بھی کہیں کہ اس کا نام انتہائی قریبی رشتہ داروں والا رکھا ہے۔
’’سگ‘‘ سگے۔انتہائی قریبی عزیزوں کو کہا جاتا ہے۔ بلکہ اس پر بڑی مشہور کہانی بھی ہے۔خواجہ سگ پرست کی۔جو اپنے سگے بھائیوں کو سگ کی طرح اور سگ کو سگوں کی طرح رکھتا تھا۔اگر کارکردگی اور وفاداری کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اس کی حیثیت انسان کی زندگی میں وہی ہے۔جو بعض مقامات پر معاون خصوصی برائے کی ہوتی ہے۔یہ نہ صرف مالک کو چوروں، ڈاکوؤں یا دشمنوں سے خبردار کرتا ہے بلکہ دشمنوں پر حملہ آور بھی ہوتا ہے۔اگر ہم اس کے لیے کوئی’’عہدہ‘‘ مخصوص کرنا چاہیں،تو وہ ہے محافظ خصوصی برائے بیداری و دفاع۔مالک تو آرام سے میٹھی نیند سورہا ہوتا ہے لیکن یہ جاگتا رہتا ہے اور جیسے ہی کوئی چور،ڈاکو،یا فقیر دیکھتا ہے تو بیک وقت دو کام کرنے لگتا ہے ایک آواز سے مالک کو بھی جگاتا ہے اور دوسری طرف دشمن کو بھی للکارتا ہے۔بلکہ وفاداری میں اتنا راسخ ہے کہ اگر اس کا کوئی اپنا عزیز بھی مالک کے دروازے کے پاس سے گزرے تو اس کو بھی نہیں چھوڑتا اور بھونک بھونک کر اسے اپنی حدود سے باہر کردیتا ہے۔ کبھی کبھی تو وفاداری اور دشمنوں پر بھونکنے کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ کوئی ہو نہ ہو یہ اپنی ڈیوٹی جاری رکھتا ہے ۔ ہمارے پڑوس میں وزیرعلی نامی ایک شخص رہتا تھا اس نے نہ جانے کہاں سے ایک ایسا محافظ خصوصی برائے بیداری ڈھونڈلیا تھا جو کبھی چپ ہوتا ہی نہیں تھا۔تنگ آکر ایک دن ہم نے اس سے شکایت کی کہ آپ کا یہ محافظ خصوصی برائے بیداری بہت زیادہ ’’فعال‘‘ ہے جس سے پڑوسیوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
وزیرعلی مسکراتے ہوئے بولا اسی خصوصیت کی وجہ سے تو میں نے خریدا ہے۔یہ اسی کے دن رات بیانات کی برکت ہے کہ میں آرام سے سوتا رہتا ہوں اور یہ پڑوسیوں کو جگائے رکھتا ہے۔پوچھا اس کے اس تسلسل بیانات میں آپ کو نیند کیسے آتی ہے۔ اس نے کانوں سے روئی برآمد کرتے ہوئے اور ہمیں دکھاتے ہوئے کہا۔ ایسے۔ پھر اس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی یہ عادت مجھے بہت پہلے سے معلوم تھی جب یہ میرے ایک دوست کے پاس تھا اور اسی خوبی کی بنا پر میں نے اسے حاصل کیا۔اور اب یہ تدبیر کرتا ہوں، اس نے روئی کے پھاہے دوبارہ کانوں میں گھسیڑ لیے۔تب ہم نے اسے خواجہ سگ پرست کا نام دیا اور اس نے ہمیں روئی کے پھاہے دیتے ہوئے کہا کسی اور کو نہ بتانا ۔
[ad_2]
Source link