12

فلسطینیوں کی امداد و حمایت کرنا آسان نہیں ہے

[ad_1]

اِس وقت عالمی میڈیا اور عالمی سیاست کے حواس پر تین موضوعات چھائے ہُوئے ہیں: (1)بھارتی انتخابات (2)ایران ،اسرائیل کشیدگی (3) غزہ و مغربی کنارے کے باسی فلسطینیوں پر مسلسل اسرائیلی حملے۔ غزہ میں جارح اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی جانی و مالی تباہی بے اَنت اور بے کنار ہو چکی ہے۔

کہا جارہا ہے کہ اگر آج غزہ میں جنگ بندی ہو جائے اور حالات پُر سکون ہو جائیں تو ’’غزہ‘‘ کی تعمیرِ نَو کیلیے کم از کم 20ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی ۔ یہ بھاری رقم مگر کون اور کیسے فراہم کرے گا ، کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ اسرائیل اب تک 34ہزار سے زائد اہلِ ’’غزہ‘‘ کو شہید کر چکا ہے ۔

اسرائیل کی اندھی اور تباہ کن بمباری سے جو اہلِ غزہ بے گھر اور بے آسرا ہُوئے ہیں، اُن کی تعداد کئی ملین ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں کھڑی غزہ کی ’’حماس‘‘ اب تک صرف تیرہ، چودہ ہزار اسرائیلی فوجیوں و شہریوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہُوئی ہے۔ عالمی دباؤ پھر بھی حماس فورس پر ہے۔ ’’حماس‘‘ کے جنگجوؤں نے جن دو سو کے قریب اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے،یہ بھی، اسرائیل کی محبت میں، عالمی طاقتوں کے گلے کی پھانس بن چکے ہیں ۔

کوئی بھی مسلمان ملک اب تک مظلوم اہلِ غزہ اور فلسطینیوں کی صحیح معنوں میں امداد اور حمایت نہیں کر سکا ہے ۔ مظلوم اہلِ غزہ کی حمایت میں جتنے جلوس اور ریلیاں مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں نکلی ہے، پاکستان سمیت سارے عالمِ اسلام میں نکلنے والے غزہ کے حامی جلوس اِن کے مقابلے میں عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں ۔عجب معاملہ ہے کہ جب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان خونی اور خونریز تصادم شروع ہُوا ہے، شمالی امریکا میں مقیم مختلف نسل کے مسلمانوں اور فلسطینی نژاد مسلمانوں پر حملوں میں بھی اضافہ ہُوا ہے اور مسلمانوں کے خلاف مقامی شہریوں کی Discrimination  (نسلی امتیاز)بھی بڑھ گئی ہے ۔

امریکی مسلمانوں کے خلاف Hate Speechبھی روز افزوں ہیں۔اِس سلسلے میں سامنے آنے والے اعدادوشمار خاصے پریشان کن بھی ہیں۔مثال کے طور پر امریکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے متفقہ طور پر (مثلاً: واشنگٹن پوسٹ، وال اسٹریٹ جرنل، اے بی سی ، وائس آف امریکا،یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ) کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی و حماس تصادم کے بعد امریکی مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 56فیصد اضافہ ہُوا ہے۔ 2اپریل  2024ء کو ’’وائس آف امریکا‘‘ نے بتایا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران امریکی مسلمانوں کے خلاف 8061 وارداتیں رپورٹ ہُوئی ہیں ۔اِسی عرصے کے دوران امریکی ریاست اِلی نوائے (Illinois)میں ایک 6 سالہ فلسطینی نژاد بچے کو خنجر مار دیا گیا ۔

آسان مطلب یہ ہے کہ امریکا میں فلسطینیوں اور غزہ مسلمانوں کی حمایت کرنا آسان نہیں ہے ۔ممتاز ترین امریکی تھنک ٹینک Pew Research Centerنے تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں ہمیں بتایا ہے کہ چونکہ امریکی صدر، جو بائیڈن، بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں، اس لیے بھی ، شہ پا کر، امریکیوں کی جانب سے امریکی مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں ۔’’یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘ کا کہنا ہے کہ جب سے حماس و اسرائیل کے درمیان خونی مڈبھیڑ بڑھی ہے، امریکا میں مسلمانوں کی تنظیم CAIR( کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز)کی پریشانیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔

یہ ادارہ امریکی مسلمانوں پر تقریباً ہر روز ہونے والے مختلف النوع حملوں کی رپورٹیں، امریکا کے طول و عرض میں، درج کروا رہا ہے ۔امریکی مسلمانوں کی پریشانیاں اور فکریں اُس وقت مزید دو چند ہو گئیں جب یہ خبر سامنے آئی کہ19اپریل2024ء کو ’’گوگل‘‘ ایسے ادارے نے اپنے28ملازمین کو محض اس لیے نوکری سے نکال دیا ہے کہ اُنہوں نے کیلی فورنیا اور نیویارک کے دفاترمیں فلسطینیوں اور اہلِ غزہ کے مسلمانوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا ، اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ ’’گوگل‘‘ اسرائیل کو 1.2ارب ڈالر مالیت کی فراہم کی گئی مصنوعی ذہانت(AI) کی سہولتیں منسوخ کر دے۔

چونکہ امریکی حکومت خود غزہ و حماس کی مخالفت اور غاصب اسرائیل کی حمایت کررہی ہے، اس لیے امریکیوں کے امریکی و فلسطینی نژاد مسلمانوں پر حملے کرنے کی جرأتوں میں اضافہ ہُوا ہے ۔ امریکی تحقیقاتی ادارے The Interceptنے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں ہمیں بتایا ہے کہ امریکی سرکاری ادارہ FBIبھی امریکی مسلمانوں کو تنگ کرنے کیلیے جا بے جا مساجد پر چھاپے ماررہا ہے ۔ اور یہ کہ مساجد میں جا کر ایف بی آئی کے اہلکار نمازیوں سے استفسار کرتے ہیں کہ کون کون سے نمازی حد سے بڑھ کر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں؟

اور 20 اپریل2024ء کو یہThe Interceptہی ہے جس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ممتاز ترین امریکی اخبار ‘‘نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنے صحافیوں کو ہدایت کررکھی ہے کہ وہ ’’غزہ‘‘ میں اسرائیل کے حملے پر اپنے مضامین اور خبروں میں ’’نسل کشی‘‘، ’’ قتلِ عام‘‘، ’’ مقبوضہ علاقے‘‘ اور ’’مہاجرین ‘‘کے الفاظ استعمال نہ کریں۔ یہ ہدایات اس لیے دی گئیں تاکہ حملہ آور صہیونی اسرائیل کو کوئی نفسیاتی و ذہنی تکلیف نہ پہنچے ۔

یہ دل دہلا دینے والی خبریں ، جو خود امریکی میڈیا فراہم کررہا ہے، اِس امر کی غماز ہیں کہ مظلوم و ستم زدگان اہلِ غزہ اور فلسطینیوں کو امداد و حمایت کرنا کچھ سہل اور آسان نہیں ہے ۔ عالمِ اسلام کے امدادی اداروں اور صحافیوں کو بھی ’’غزہ‘‘ تک رسائی نہیں دی جارہی ۔ ہمارے پاس براہِ راست درست ترین خبروں کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ ہم اِس ضمن میں بھی امریکی اور مغربی اداروں کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں ۔

غنیمت جاننی چاہیے کہ ہماری جو مسلم تنظیمات ’’غزہ‘‘ تک سامانِ خورونوش اور ادویات و میڈیکل کا ضروری سامان پہنچانے میں کامیاب ہو رہی ہیں ۔ اِن مسلم تنظیمات میں ’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ (AMWT) کو اس لیے بھی منفرد و ممتاز ترین مقام حاصل ہے کہ چیریٹی کا یہ مسلم ادارہ ، اپنے چیئرمین جناب عبدالرزاق ساجد، کی قیادت میں مسلسل ، مصر کے راستے ، غزہ تک امدادی سامان پہنچانے میں تندہی سے مصروف ہے ۔ پچھلے چھ مہینوں کے دوران ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین ادارے کے مقامی وابستگان کی معیت میں ، امدادی سامان سے لدے پھندے، غزہ تک پہنچے ہیں ۔

10اپریل2024ء کو جب سارا عالمِ اسلام عیدالفطر کی خوشیاں منا رہا تھا، عبدالرزاق ساجد صاحب مصر میں بروئے کار ’’ہلالِ احمر‘‘ کے توسط اور تعاون سے ’’غزہ‘‘ میں سامانِ خورونوش، نئے کپڑے ، بچوں کے کھلونے ، ادویات پہنچارہے تھے ۔ ساجد صاحب نے مجھے فون پر بتایا:’’ہم نے ’’المصطفیٰ‘‘ کے زیر اہتمام غزہ اور مصر کے درمیانی علاقے’’العریش‘‘ میں ایک وسیع کچن قائم کیا ہے ۔

یہاں سے ہر روز20ہزار افراد کیلیے تازہ اور گرم کھانا غزہ کی جانب روانہ کیا جاتا ہے ۔ اللہ کا بے پناہ شکر ہے کہ ہم اب تک لاکھوں پونڈ مالیت کی متنوع امداد غزہ اور فلسطینیوں کو فراہم کر چکے ہیں ۔ اور ابھی ہماری یہ خدمات رکی نہیں ہیں ۔ ہم ، ہمارا ادارہ ، تمام فلسطینی اور عالمِ اسلام فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی چاہتا ہے ۔

اللہ کرے یہ جنگ بندی فوری طور پر بروئے عمل آئے تاکہ ہم اپنے ادارے کے تحت تباہ حال غزہ کی تعمیر ِ نَو میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔‘‘ اب دیکھتے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی کیلیے عبدالرزاق ساجد ایسے امدادی ہاتھوں کی دعائیں کب اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ لگتا ہے جیسے ہم مسلمانوں کی جملہ دعائیں قبول ہونے کی بجائے،بوجوہ، جا کر کہیں بیچ آسمان کے اٹک جاتی ہیں ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں