12

پی ٹی آئی کا داخلی بحران اور قیادت کا امتحان

[ad_1]

پی ٹی آئی کا داخلی بحران کم نہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے یا بگاڑ کا شکار ہے۔ عمران خان سمیت پارٹی کی سیاسی قیادت جن میں شاہ محمود قریشی ، چوہدری پرویزالہی ، یاسمین راشد، محمود الرشید، اعجاز چوہدری، عمرسرفراز چیمہ سمیت کئی اور دیگر سیاسی رہنما جیل میں ہیں اور جو جیلوں سے باہر ہیں، ان کا بڑا چیلنج محتاط سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ہے۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی قیادت کے مقابلے میں پارٹی پر عملاً وکلا کی بالادستی ہے جبکہ کئی اہم رہنما جو 9مئی سے قبل کافی سرگرم تھے، وہ مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ گئے ہیں ۔ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں ٹکراؤ کے ماحول نے بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہوا ہے ۔لیکن تمام تر مشکل صورتحال کے باوجود پی ٹی آئی سیاسی میدان میں موجود ہے بلکہ 8فروری کے انتخابی نتائج نے پی ٹی آئی کی سیاسی اہمیت ثابت کی ہے کہ وہ ایک سیاسی حقیقت ہے اوراس کا مقابلہ طاقت سے نہیں سیاست سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔

9مئی کے بعد سے پی ٹی آئی سیاسی بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے ،مگر ان کی مشکلات کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں ۔ایک وجہ عمران خان کا بدستور مزاحمتی بیانیہ ہے ، صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں، اسی بیانیے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ۔

پی ٹی آئی میں اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ اور مفاہمت پر بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ تقسیم ہمیں موجودہ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت جو وکلا پر مشتمل ہے کے باہمی ٹکراؤ، تضادات اور ایک دوسرے کے بیانات سے لاتعلقی یا ایک دوسرے پر سیاسی سبقت کی جنگ کی صورت میں نظر آتی ہے ۔

پی ٹی آئی کے اہم افراد میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات ،لاتعلقی کا اظہار کرکے پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا کررہے ہیں۔  پارٹی کے سیکریٹری جنرل ، سیکریٹری اطلاعات سمیت قائم مقام چیئرمین کے مقابلے میں بہت سے افراد اتنے طاقتور ہوگئے ہیں جو کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور ان تمام کا کردار پارٹی کو مشکل وقت میں مضبوط بنانا کم اور کمزورکرنا زیادہ نظر آتا ہے ۔

عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود جیل میں ہیں ، وہ بہت ہی محدود بنیاد پر پارٹی کے معاملات کو دیکھ سکتے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ قائم مقام چیئرمین اور جنرل سیکریٹری کی پارٹی پر گرفت کافی کمزور ہے۔جب پارٹی پالیسی ایک سیاسی فورم کی بجائے مختلف جگہوں اور مختلف افراد کی بنیاد پر سامنے آئے گی تو اس کا عملی نتیجہ پارٹی کے داخلی بحران میں مزید مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

بہت سے لوگ جو پی ٹی آئی میں تھے اور مختلف مشکلات اور مسائل کی بنیاد پر پارٹی چھوڑ گئے تھے، وہ پارٹی میں واپسی کا راستہ تلاش کررہے ہیں ۔ان کے بقول وہ کل بھی پی ٹی آئی میں تھے اور آج بھی ان کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی ہیں ۔ ان کے بقول پارٹی کو سمجھنا ہوگا کہ 9مئی کے بعد ہمیں اور ہمارے خاندان کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لہذا ہمیں سیاست سے کنارہ کش ہونا پڑا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے استحکام پاکستان پارٹی کو جوائن کیا مگر وہ اس جماعت میں کبھی سرگرم نظر نہیں آئے۔

پارٹی کے کئی اسیر رہنماؤں نے بھی مشورہ دیا ہے کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ گئے تھے اور اب وہ واپس آنا چاہتے ہیں تو ان کو راستہ دیا جائے ۔مجھے یہ یاد ہے جیل جانے سے پہلے ایک ملاقات میں عمران خان نے ہم سے کہا بھی تھا جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں یا جارہے ہیں وہ ان کی سیاسی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں۔

اس لیے ان میں بہت سے لوگوں کی واپسی کا راستہ کھلا رکھاجائے گا ، البتہ کچھ لوگوں کے بارے میں مختلف ہوگا۔میرے رائے میں جو لوگ بھی پارٹی چھوڑ گئے اور اب واپسی کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو بغیر کسی شرائط یا عہدوں کی کمٹمنٹ کے شامل کیا جانا چاہیے ،تاکہ یہ دوبارہ متحرک ہوسکیں ۔

پارٹی کے وہ پرانے نظریاتی ساتھی اپنی حکومت کے دور میں بیک فٹ پر تھے،وہ آج اپنی پارٹی کے ساتھ مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کی بنیاد پر جیلوں میں ہیں ، انھوں نے پارٹی نہیں چھوڑی ہے ، وہی پارٹی کا حقیقی سرمایہ بھی ہیں ۔ کئی اہم رہنما جو بدستور روپوش ہیں اور اگر وہ بھی سمجھوتے کی سیاست کو ہی ترجیح دیتے تو ان کی بھی تمام مشکلات کم ہوسکتی تھیں ، مگر وہ بھی مشکل وقت میں کھڑے ہیں جو اہم پہلو ہے ۔

خواتین رہنماؤںکی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو واپس آنا چاہتی ہیں، ان کے لیے مناسب سیاسی حکمت عملی پارٹی کو ہر صورت اختیار کرنی چاہیے ۔ اب عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر پرانے نظریاتی ساتھیوں کو جو اس مشکل وقت میں کھڑے ہیں کویقینی طور پر سامنے لائیں اور سیاسی چہروں اور سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر پارٹی کے معاملات کو چلانے کی کوشش کریں ۔کیونکہ وکلا جو پارٹی میں موجود ہیں ان کی اپنی داخلی تقسیم بہت زیادہ گہری ہے اور اس تقسیم کا بڑا اثر پارٹی پر پڑرہا ہے ۔

عمران خان کو بہت زیادہ تدبر کے ساتھ تمام معاملات کو خرابی کی بجائے بہتری کی طرف لے کر جاناچاہیے اور اسٹیبلیشمنٹ سے بھی ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی سیاسی طاقت یا اپنی مقبولیت کی بنیاد پر ماضی کی تلخیوں کو بھول کر آگے بڑھیں۔ کیونکہ سیاسی راستہ تلاش کرنے کی حکمت عملی کو ہی بنیاد بنا کر ہی عملا عمران خان پارٹی میں موجود داخلی بحران کو کم کرسکتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں