10

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

[ad_1]

ایک لطیفہ تو بہت پرانا ہے جو قدیم فارسی ادب کا ہے۔کہ ایک دن ایک فرشتے نے بارگاہ خداوندی میں گزارش کی کہ یا توحکیم ’’واصل‘‘ کو میرے کام میں دخل اندازی سے روکا جائے اور یا مجھے کوئی اور’’کام‘‘ تفویض کیا جائے۔اور نیا لطیفہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد ایک شخص کی روح جنت کے دروازے پر پہنچی تو دربانوں نے اسے داخلہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا نام ہماری لسٹ میں موجود نہیں ہے۔

جاکر دوزخ والوں سے پتہ کرو لیکن دوزخ کے دربانوں نے بھی اسے ’’وصول‘‘ کرنے سے انکار کیا اور بتایا کہ ہماری لسٹوں میں اس نام کا کوئی اندراج نہیں، بیچارا حیران وپریشان ہوگیا اور اہل کاروں سے پوچھا کہ آخر میں جاؤں تو کہاں جاؤں۔اہل کاروں نے اسے کہا کہ تم جاکر اس انتظارگاہ میں پتہ کرو جہاں’’ڈاکٹر مسیحا‘‘ کے قبل از وقت آئے ہوئے مریض رکھے جاتے ہیں لیکن حکیم واصل اور ڈاکٹر مسیحا نادان تھے۔

اس پیشے کے ’’فوائد‘‘ سے انجان تھے اس لیے’’گائے‘‘ کو کھوہ کر کھاتے تھے لیکن آج کے ڈاکٹر اور حکیم واصل بہت ہی کوالیفائڈ ہیں امریکا برطانیہ فرانس جرمنی یہاں تک کہ روس جنیوا وی آنا۔اور سری لنکا تک سے دس بارہ حروف تہجی والی ڈگریاں لیے ہوئے ہوتے ہیں ساتھ ہی گولڈ میڈلسٹ،سلورمیڈلسٹ،آئرمیڈلسٹ بھی ہوتے ہیں، کسی سرکاری اسپتال کے اسپشلسٹ بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ہی بیک وقت کئی دواساز کمپنیوں کے ایجنٹ اور سیلزمین بھی ہوتے ہیں اس لیے مریض کو اس وقت تک جانے نہیں دیتے جب تک اسے سارے دنیوی علائق یعنی مال جائیداد سے چھٹکارا نہیں دلا دیتے۔اور ملک الموت کو ان کے خلاف یہ شکایت درج کرنی چاہیے کہ بہت سارے لوگوں کا وقت ہمارے کاغذات میں پورا ہوچکا ہوتا ہے لیکن یہ ڈاکٹر مسیحا لوگ اور دواساز کمپنیاں اسے’’جانے‘‘ نہیں دیتیں جب تک اس میں ’’کچھ‘‘ باقی ہو۔

اس غرض کے لیے ان کمپنیوں نے جان بچانے والی دوائیں(لائف سونگ) وسیع پیمانے پر ایجاد کر رکھی ہیں اور ان کے یہ ایجنٹ اور سیلزمین عرف ڈاکٹر مسیحا لوگ ان دواؤں کو وسیع پیمانے پر مریضوں کو کھلاتے ہیں۔اس وقت حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے شہر،قصبے یا گاؤں تو ایک طرف اگر کہیں دس گھروں کی چھوٹی سی بستی ہے وہاں بھی دواؤں کی بیس دکانیں ہوں گی اور ہر دکان کے پیچھے بیس ڈاکٹر مسیحاؤں کے کلینک ہوں گے۔اور ہر ڈاکٹر مسیحا نے نوٹوں کے بنڈل پر ہاتھ رکھ کر یہ قسم کھائی ہے کہ کسی کی ناک پر پھنسی کے لیے بھی دس ہزار کی دوائیں لکھیں گے۔

پچھلے دنوں ہمیں زکام ہوگیا تو قریبی بازار میں مورچے لگائے ہوئے ڈاکٹروں میں سے ایک کے پاس گئے، اتفاق سے وہ ڈاکٹر ہمارا فین نکلا اس لیے اس نے صرف تین ہزار کی دوائیں لکھیں۔ پرچہ لاکر دواؤں کی دکان والے کو دیا تو پرچہ دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑگئے۔اپنے ساتھی سے بولا۔ہمارا یہ ڈاکٹر ابھی تک پورا مسیحا نہیں بنا ہے صرف تین ہزار ہونہہ۔ایک تو یہ دنیا ویسے بھی بہت اُلٹ پلٹ ہوگئی ہے اور پھر ہمارا یہ وطن عزیز تو ہے ہی۔ چنانچہ یہاں جو دایاں دکھائی دیتا ہے وہ اصل میں ’’بایاں‘‘ ہوتا ہے اور بایاں اصل میں دایاں۔جو چور ہوتا ہے وہ سپاہی دکھتا ہے اور سپاہی چوری کرتے ہیں لیڈر ڈاکو بن جاتے ہیں اور ڈاکو آرام سے وزیر وغیرہ بن جاتے ہیں۔

چنانچہ علاج معالجے کا سلسلہ بھی اُلٹ پلٹ ہے۔اندازہ اس سے لگائیں کہ لوگ اب دیہاتی اتائیوں پرا سپشلسٹ مسیحاؤں سے زیادہ’’اعتماد‘‘ کرنے لگے۔اور اصلی دواؤں کے بجائے نقلی دواؤں کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ ان میں’’وہ‘‘ نہیں ہوتا جو اصل دواؤں میں ہوتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے محکمہ صحت نے اتائیوں کے خلاف مہم چلائی شاید ’’ماہواری‘‘ دینے میں کمی یا تساہل کی وجہ سے۔ان دنوں ایک شخص نے ہمیں فون کیا کہ یہ انرت ہورہا ہے یہی اتائی تو ہمارا آسرا ہیں۔ماہرین تو قصائی ہیں۔

اس پر لکھیے کہ ہمیں یہ اتائی قبول ہیں۔بہ نسبت ماہرین کے۔زیادہ سے زیادہ مرجائیں گے تو کم ازکم ان اذیتوں سے بچ جائیں گے جو سرکاری اسپتالوں کے مستند ماہرین ہمیں دیتے ہیں۔فریڈرک اینگلز جو کارل مارکس کا مستند اور سوشلسٹ دانشور تھا اس نے اپنی کتاب۔ خاندان ملکیت اور ریاست میں لکھا ہے کہ ایک بستی میں قریبی جنگل سے وحشی لوگ آکر لوٹ مار کرتے تھے چنانچہ بستی والوں نے ’’محافظ‘‘ رکھ لیے لیکن کچھ عرصے کے بعد ان محافظوں کے ہاتھوں اتنے تنگ آگئے کہ اپنے محافظوں کے چنگل سے فرار ہوکر ان وحشیوں کے ہاں پناہ لینے لگے۔جس طرح کچھ عرصہ پہلے شہروں کے لوگ بھاگ کر قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے تھے لیکن افسوس کہ وہ سہارا بھی اب چھین گیا ہے اور قانون نے اپنی عملداری علاقہ غیر تک بڑھادی ہے

ہیں تنگ بہت ’’بندۂ مفرور‘‘ کے اوقات

اب قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں بھی کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ ایک تو ہم ’’ڈرپوک نمبر ون‘‘ ہیں اور دوسرے ان اداروں کو پتہ تھا کہ ہمارے کرتوت پر لوگ کچھ نہ کچھ ضرور کہیں گے اس لیے پہلے ہی توہین کی تلوار لوگوں کے سر پر لٹکا دی ہے اس لیے ؎

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

تنہائی میں رولیں گے

لیکن مسیحاؤں کے بارے میں بول سکتے ہیں اور بولیں گے۔کیونکہ ’’وہ کرتے‘‘ ہیں تو ہمیں کم سے کم بولنے کا حق تو حاصل ہے بلکہ بولنے سے زیادہ رونا کہیے۔وہ ایک فلم تو آپ نے دیکھی ہوگی جس میں جب سلمان خان سوناکشی سنہا کو تھپڑ مارنے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ کہتی ہے۔ڈر۔تھپڑ سے نہیں لگتا پیار سے لگتا ہے۔اور یہی ہمارا معاملہ بھی ہے کہ اب تو ڈر بیماری یا موت سے نہیں لگتا بلکہ ’’مسیحاؤں‘‘ سے لگتا ہے

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

پھنس گیا ہے تیرا بیمار مسیحاؤں میں

وہ کسی شہر میں کوئی وبا پھوٹ پڑی تو وہاں کے گھرانے نے اپنے بچوں کو کسی دوسرے شہر میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھیج دیا کہ خود تو جا نہیں سکتے کم سے کم بچے تو اس وبا سے محفوظ رہیں لیکن’’بچے‘‘ اتنے شریر تھے کہ گھر کو سر پر اٹھالیا۔ سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ گھر کے بچوں اور بڑوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔تنگ آکر انھوں نے بچوں کے والدین کو خط لکھا کہ مہربانی کرکے اس’’وبا‘‘ کو ادھر بھیج دیجیے لیکن اپنے بچوں کو لے جایئے۔لیکن ہم کس سے درخواست کریں کہ ساری بیماریوں،امراض اور وباؤں کو ہم پر چھوڑ دیجیے لیکن مسیحاؤں سے چھٹکارا دلا دیجیے ؎

اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے

ہم’’حرف غلط‘‘ ہیں تو مٹا کیوں نہیں دیتے



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں