14

چین امریکا چپقلش اور تجارتی اصول

[ad_1]

عالمی تجارتی اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تجارت میں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ فوٹو: فائل

عالمی تجارتی اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تجارت میں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ فوٹو: فائل

امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن گزشتہ روز اہم دورے میں چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے ہیں۔ روس یوکرائن تنازعہ اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی اور چین امریکا تجارتی چپقلش کے تناظر میں امریکا کے وزیر خارجہ کا حالیہ دور چین انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔امریکا اور چین کا میڈیا بھی اس دورے پر تبصرے کررہا ہے۔

پاکستان کے میڈیا نے بھی اس حوالے سے خبریں شایع کی ہیں۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کو دوران ملاقات کہا ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کو شراکت دار ہونا چاہیے، حریف نہیں تاہم ان ممالک کے تعلقات میں متعدد مسائل تاحال حل طلب ہیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ نے چینی دارالحکومت بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔

چینی صدر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو عالمی تجارت میں شراکت دار ہونا چاہیے، ایک دوسرے کا حریف نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب بھی بہت سے مسائل ہیں جنھیں حل کرنے کی ضرورت ہے اور مزید کوششوں کی ابھی بھی گنجائش باقی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکا بھی چین کی ترقی کے بارے میں مثبت نظریہ اپنائے گا، جب یہ بنیادی مسئلہ حل ہو جائے گا تو ہی تعلقات صحیح معنوں میں مستحکم ہوسکتے ہیں، بہتر ہو سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔ البتہ گزشتہ برس امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے بعد کچھ معاملات میں بہتری ضرور آئی ہے۔

اس سے قبل چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو خبردار کیا تھا کہ امریکی دباؤ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا کرسکتا ہے کیونکہ امریکی سفارتکار نے چینی حکومت کی جانب سے روس کی حمایت سمیت دیگر مسائل پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے یہ بھی متنبہ کیا تھا کہ تائیوان کا سوال پہلی سرخ لکیر ہے جسے چین امریکا تعلقات میں عبور نہیں کیا جانا چاہیے تاہم انتھونی بلنکن نے وانگ یی کے ساتھ 5 گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات کو وسیع اور تعمیری قرار دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں سرکردہ چینی سیاستدانوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ انتھونی بلنکن نے وانگ یی کے ساتھ روس کے لیے چین کی حمایت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی خاصے عرصے سے چل رہی ہے۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار امریکا چین چپقلش کو نئی سرد جنگ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں کورونا وائرس پھیلانے کا ذمے دار چین کو قرار دیا تھا۔ اسی دور میں چائنیز کمپنیوں پر امریکا میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

چین کی قیادت نے بھی اس پر خاصا سخت ردعمل دیا تھا اور جوابی وار کرتے ہوئے چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلانے کا الزام امریکا پر عائد کیا تھا۔ صدر جوبائیڈن کے دور میں بھی چین اور امریکا کے درمیان تجارتی چپقلش چل رہی ہے۔

اسی دوران روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا، اس حملے سے پہلے اور بعد میں روس اور امریکا کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہوئے، نیٹو ممالک اور برطانیہ بھی روس مخالف کیمپ کا حصہ بن گئے، روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، روس کے صدر پیوٹن نے بھی جوابی اقدامات کیے اور براہ راست امریکا پر الزامات عائد کرنا شروع کیے۔ ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔

اسرائیلی فوج نے غزہ پر چڑھائی کر دی۔ اس منظرنامے میں چین کی حکومت نے روس کی حمایت کی جب کہ اسرائیل کے اقدام کی مخالفت کی۔ ایران کے شامی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کی بھی چین نے مذمت کی۔ اس کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا، جواب میں امریکا نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں جب کہ چین نے اس حوالے سے ایک متوازن پالیسی اختیار کیے رکھی ہے۔

تائیوان چین کے لیے انتہائی حساس ایشو ہے۔ چین کی قیادت تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتی ہے اور تائیوان کی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ امریکا اور مغربی یورپ تائیوان کی خودمختاری کی حمایت کرتے ہیں، امریکا اور مغربی یورپ تائیوان کی حکومت کو ہر قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ امریکا نے حال ہی میں تائیوان کو عسکری حوالے سے جدید ٹیکنالوجی فراہم کی ہے جس پر چین کی حکومت نے سخت احتجاج کیا ہے۔

چین کے وزیر خارجہ نے بھی اسی حوالے سے انتھونی بلنکن کو باور کرایا ہے کہ تائیوان چین کے لیے سرخ لکیر ہے اور اسے کسی بھی ملک کو عبور نہیں کرنا چاہیے۔ چین اور ہندوستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ سے ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے، سرحدی فورسز کے درمیان تناؤ اکثر اوقات سامنے آتا رہتا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور یورپ ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گزشتہ دس برس میں امریکا اور انڈیا کے درمیان تعلقات آگے بڑھ کر اسٹرٹیجک سطح تک چلے گئے ہیں۔

امریکا اور یورپی کمپنیاں انڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں جب کہ جاپانی کمپنیاں بھی انڈیا میں سرمایہ لگا رہی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے سرمایہ کار بھی بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یوں انڈیا کی ترقی کی شرح میں ماضی کے مقابلے میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کی مڈل کلاس کا حجم خاصا بڑھ گیا ہے، ایجوکیشن لیول بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس پر چینی حکومت بھی نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ چینی قیادت انڈیا کے بڑھتے ہوئے تجارتی حجم اور عسکری طاقت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

امریکا اور مغربی یورپ اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس حکمت عملی کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا پر اپنی اقتصادی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ آج دنیا کے سرمائے پر امریکا، اسرائیل، یورپی یونین، برطانیہ کی اجارہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کے مالیاتی اداروں کی فنڈنگ یہی ممالک سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے وہی پالیسی اختیار کرتے ہیں جو اس کے ڈونرز کے مفادات سے ہم آہنگ ہو۔

چین نے اس حوالے سے بھی متبادل حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت چین نے انڈیا، جنوبی افریقہ، برازیل کے تعاون سے برکس کے نام سے ایک مالیاتی ادارہ بنایا ہے۔ یہ ادارہ خاصی حد تک کامیاب ہے۔ چینی قیادت بڑے تحمل سے آگے بڑھ رہی ہے اور اپنے آپ کو عالمی تنازعات سے دور رکھنے میں اب تک کامیاب چلی آ رہی ہے۔ چین نے خارجہ پالیسی کا اصول جنگ نہ کرنے کی کسوٹی پر استوار کیا ہے۔

امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن سے ملاقات کے دوران بھی چین کے صدر شی جن پنگ نے بڑی متوازن اور نپی تلی باتیں کی ہیں۔ انھوں نے شراکت داری کی بات کی ہے اور حریف نہ بننے کا واضح اشارہ کیا ہے۔ یعنی چین امریکا سے بھی کسی قسم کی سرد جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔ چینی قیادت کی اولین ترجیح سرمائے اور تجارتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ چینی قیادت کسی ملک کے ساتھ جنگ میں نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی وہ کسی ملک میں پراکسی جنگ لڑنا چاہتی ہے۔

چینی قیادت نے امریکا کو مثبت پیغام دیا ہے۔ عالمی تجارتی اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تجارت میں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے سے تجارتی سرگرمیاں کمزور ہوتی ہیں۔ سرمائے اور تجارت کا پہلا اصول امن اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں۔ جس ملک میں جتنا زیادہ امن ہو گا، اس ملک کے قوانین اور ضابطے جتنے زیادہ ریشنل اور قابل عمل ہوں گے، فیصلہ سازوں کے احتساب کا طریقہ کار بلاامتیاز ہو گا، اس ملک میں سرمایہ خودبخود چل کر آ جائے گا۔

کاروبار ترقی کریں گے، حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں زبردستی نہیں کرنی پڑے گی، تفریحی سرگرمیاں بڑھتی جائیں گی، سیاحت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یوں مڈل کلاس کا پھیلاؤ بھی بڑھے گا، تعلیم یافتہ ہنرمند طبقے کا پھیلاؤ بھی زیادہ ہو گا، ملک کی جی ڈی پی میں غیرمعمولی اضافہ ہو جائے گا جب کہ جس ملک میں دہشت گردی ہو گی، وائٹ کالر کریمنلز سسٹم پر بھاری ہو جائیں گے، انڈرورلڈ من مانی کرے گی، قوانین اور ضوابط یکطرفہ ہوں گے، ریاست اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں پر جوابدہی کے قوانین مبہم ہوں گے یا سرے سے ہوں گے ہی نہیں، تو ایسی صورت میں سرمایہ اس ملک سے فرار ہو کر کسی پرامن منزل کی جانب روانہ ہو جائے گا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں