13

میزبان اور مہمان – ایکسپریس اردو

[ad_1]

www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی صاحب کے گھر مدعو تھا‘ میرے پاس اس دن تین پرانے دوست آئے ہوئے تھے‘ میں انھیں بھی ساتھ لے کر میزبان کے گھر پہنچ گیا‘ میرے ساتھ تین لوگ دیکھ کر میزبان کا رنگ بدل گیا لیکن مجھے وجہ سمجھ نہیں آئی‘ ہم پنجابی صدیوں سے یہ حرکت کرتے آ رہے ہیں۔

ہم کسی جگہ اکیلے نہیں جاتے جہاں بھی جاتے ہیں دو چار لوگ ساتھ لے جاتے ہیں اور ہمارے میزبان اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں‘ ہم لوگ صدیوں سے یہ سوچ کر روزانہ زیادہ کھانا بناتے ہیں کہ کوئی مہمان نہ آ جائے اور ہمارے ہاں اکثر بن بلائے مہمان آتے رہتے ہیں اور ہر مہمان اپنے ساتھ دو چار اضافی مہمان لے آتا ہے۔

انتقال پر بھی جنازے کے مقابلے میں کھانے پر زیادہ لوگ ہوتے ہیں چناں چہ ہمارے لیے یہ معمول ہے لیکن میرا میزبان پنجابیوں کی اس حرکت سے واقف نہیں تھا چناں چہ اس کا رنگ فق ہو گیا مگر ہم جب اندر داخل ہوئے تو اس وقت میزبان کی پریشانی سمجھ آئی‘ اس کی ڈائننگ ٹیبل پر پہلے سے چار لوگ بیٹھے تھے‘ اس نے اس دن اپنے چار دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا‘ ٹیبل پر چھ لوگ بیٹھ سکتے تھے‘ ایک وہ خود تھا‘ دوسرا میں تھا اور باقی چار اس کے دوست تھے۔

میز پر چائے کے بھی چھ برتن لگے تھے اور میں بھی اپنے ساتھ تین لوگ لے آیا تھا اور یوں ہم کل نو لوگ ہو گئے لہٰذا وہاں بحران پیدا ہو گیا‘ میزبان بیچاراسارا وقت اضافی چائے کی بھاگ دوڑ میں لگا رہا‘ اس کے دوست ہمارے لیے ٹیبل خالی کرنے پر مجبور ہو گئے‘ ہم میز پر بیٹھ گئے جب کہ وہ بے چارے اسٹول پکڑ کر دائیں بائیں فٹ ہو گئے‘ بہرحال قصہ مختصر وہ ملاقات ٹھیک ٹھاک کرائسیس کا شکار ہو گئی‘ ہم کوئی ڈھنگ کی بات کر سکے اور نہ میزبان ٹک سکا۔

میری زندگی کا دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ ہول ناک ہے‘ کراچی کے ایک صاحب میرے فین تھے‘ وہ بے چارے غریب انسان تھے‘ ٹیوشن پڑھا کر گزارہ کرتے تھے‘ وہ مجھے کھانے پر بلانے کے لیے بہت اصرار کرتے تھے‘ میں نے ایک دن ان کا دل رکھنے کے لیے ہاں کر دی‘ وہ اسلام آباد آئے ہوئے تھے‘ انھوں نے مجھے ایک ریستوران میں دعوت دے دی اور میں اس بار بھی دو بندے ساتھ لے گیا‘ ہم ریستوران پہنچے تو اس شریف آدمی نے اپنے ایک دوست کو بھی انوائٹ کیا ہوا تھا‘ اس کے پاس صرف تین لوگوں کا بجٹ تھا جب کہ ہم پانچ ہو گئے ‘ وہ بے چارہ کھانے کے دوران مسلسل دائیں بائیں دیکھتا رہا۔

میں اس وقت زیادہ بولڈ اور مہذب نہیں تھا ورنہ میں بل دے کر اس کی ٹینشن کم کر دیتا‘ میں اگر آج یہ غلطی کرتا ہوں تو میں ریستوران میں داخل ہوتے ہی میزبان بن جاتا ہوں اور ویٹر کو شروع میں ہی بتا دیتا ہوں تم نے بل مجھ سے لینا ہے‘ میں میزبان کو بھی اطلاع کر دیتا ہوں اور وہ خواہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو مگر میں اسے بل نہیں دینے دیتا لیکن اس زمانے میں مجھے ان باریکیوں کا اندازہ تھا اور نہ اتنی جرات تھی لہٰذا میں اس دن بل کے وقت خاموش بیٹھا رہا‘ وہ بے چارہ بل دیکھ کر پریشان ہو گیا اور وہ بل اس کے دوست اور اس نے پیسے ملا کر دیا اور میں آج تک اپنی اس حماقت پر شرمندہ ہوں۔ میرے ساتھ بھی ایک دن یہی ہوا‘ یہ 20سال پرانی بات ہے۔

میں نے پانچ مختلف لوگوں کو کھانے پر بلایا اور وہاں چودہ لوگ پہنچ گئے‘ ریستوران مکمل بک تھا لہٰذا ہمیں ٹیبل چھوڑ کر بڑی میز کے لیے پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑا‘ دوسرا میرے پاس اضافی لوگوں کے بل کے لیے رقم نہیں تھی‘ میں اس زمانے میں کریڈٹ کارڈ بھی نہیں رکھتا تھا اور میرے پاس ڈرائیور بھی نہیں تھا چناں چہ میں شدید پریشانی میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنے کسی مہمان کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر میں منیجر کے پاس گیا اور اسے ساری بات سمجھائی‘ وہ بھلا آدمی تھا‘ اس نے میری مدد کی اور میں نے دوسرے دن اس کا بل ادا کیا۔

میں نے ان واقعات کے بعد زندگی میں اصول بنا لیا‘ مجھے اگر کسی جگہ مدعو کیا جاتا ہے تو میںاکیلا جاتا ہوں اور اگر کسی کو ساتھ لے جانا ضروری ہو تو پہلے میزبان سے اجازت لیتا ہوں اور اسے اپنے ساتھی کے پروفائل اور ساتھ آنے کی وجہ بتاتا ہوں‘ اس سے میں‘ میزبان اور میرے ساتھ جانے والا شخص شرمندگی سے بچ جاتے ہیں‘ میں نے اب ’’بے شرمی‘‘ کے ساتھ اپنے ملاقاتیوں سے بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے ’’آپ اکیلے تشریف لا رہے ہیں یا آپ کے ساتھ بھی کوئی ہو گا‘‘ اس سے مجھے میز پر کھانا اور چائے لگانے میں سہولت ہو جاتی ہے۔

مہمان اگر کھانے کے وقت آ رہے ہوں تو میں ان کو لنچ اور ڈنر کی دعوت بھی دے دیتا ہوں‘ یہ اگر میری دعوت قبول کر لیں تو میں ان سے ان کی مرضی کا کھانا بھی پوچھ لیتا ہوں‘ آج کے زمانے میں لوگ مخصوص کھانا کھاتے ہیں‘ کوئی نمک مرچ پسند نہیں کرتا‘ کوئی میٹھے سے پرہیز کرتا ہے اور کسی کو کھٹے کھانوں سے الرجی ہوتی ہے‘ کچھ لوگ دیسی کھانے کھاتے ہیں اور کچھ پورپین کھانے پسند کرتے ہیں‘ آج کل مہمانوں کی مرضی کے مطابق ریستوران سے کھانا بھی منگوایا جا سکتا ہے چناں چہ پوچھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا‘ میرے ایک دوست مجھ سے زیادہ چالاک ہیں‘ وہ مہمان سے پوچھنے کے بجائے اسے بتا دیتے ہیں۔

میرے پاس بڑی اچھی مچھلی یا اچھا گوشت اور اچھی سبزی ہے اور میرا کک فلاں فلاں ڈش بہت اچھی بناتا ہے‘ آپ کیا پسند کریں گے‘ مہمان کے پاس اب تین چار آپشنز ہوتے ہیں‘وہ ان میں سے کوئی ایک سلیکٹ کر لیتا ہے‘ میں نے وقت کے ساتھ یہ بھی سیکھا جب کوئی شخص دعوت دے تو وقت پر پہنچیں‘ ہو سکتا ہے اس کے بعد اس کی کوئی مصروفیت ہو یا اگر اس نے کسی ریستوران پر دعوت دی ہے تو ریستوران نے کھانے کا وقت فکس کر رکھا ہو اور ہمارے بعد کسی دوسرے کی بکنگ ہو‘ میرے ایک پرانے دوست ہیں۔

جاوید اقبال‘ یہ کارٹونسٹ ہیں‘ چالیس سال سے جنگ اخبار کے لیے کارٹون بنارہے ہیں‘ میں نے ان سے ایک حیران کن چیز سیکھی‘ یہ جب بھی میرے پاس آتے ہیں‘ یہ اپنی آمد کے ساتھ رخصتی کا وقت بھی بتا دیتے ہیں‘ یہ بتاتے ہیں میں اڑھائی بجے آپ کے پاس آئوں گا اور سوا تین بجے چلا جائوں گا‘ اس کے بعد میری کسی جگہ مصروفیت ہے اور یہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیتے ہیں یہ کیا کھائیں گے اور کیا پئیں گے‘ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں‘ میزبان اپنے شیڈول کو ری شیڈول کر لیتا ہے اور دوسرا وہ ان کی مرضی کی چائے اور کھانے پینے کا اہتمام کر سکتاہے‘ اس سے وقت اور خوراک ضایع ہونے سے بچ جاتی ہے۔

ہمارے گھروں میں روزانہ مہمان نوازی کی مد میں ٹنوں کے حساب سے خوراک ضایع ہوتی ہے‘ خواتین سارا سارا دن خوراک تلتی اور پکاتی رہتی ہیں اور مہمان بعض اوقات انھیں چھوئے بغیر واپس چلے جاتے ہیں اور یوں خوراک‘ توانائی اور وقت تینوں برباد ہو جاتے ہیں‘ ریستورانوں میں یہ بدعت عام ہے‘ ہم غیر ضروری آرڈر کرتے ہیں اور یہ خوراک بعدازاں ڈسٹ بنوں میں چلی جاتی ہے اور یہ اس ملک میں ہوتا ہے جس کی ساٹھ فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ یہ نہیں ہونا چاہیے چناں چہ میں بھی اب جاوید اقبال صاحب کی پیروی میں میزبان کو پہلے بتاتا ہوں میں فلاں وقت آئوں گا اور فلاں وقت واپس چلا جائوں گا اور صرف چائے کا ایک کپ یا گرین ٹی پیوں گا اور بس۔

میں نے وقت کے ساتھ ایک اور چیز بھی سیکھی اور یہ بھی میرے دوستوں نے مجھے سکھائی‘ ہم جب کسی کے گھر دعوت پر جاتے ہیں تو ہم کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور لے کر جاتے ہیں اور اپنے مہمان کو پہلے اس چیز کے بارے میں اطلاع کرتے ہیں مثلاً ہم ڈنر پر مدعو ہیں‘ ہم اپنے میزبان کو بتائیں گے آپ سویٹ ڈش تیار نہ کیجیے گا‘ ہم فلاں کیک‘ قلفی‘ کھیر یا حلوہ لے کر آ رہے ہیں اور ہم مل کر اسے انجوائے کریں گے‘ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں‘ ہم میزبان کا بوجھ بانٹ لیتے ہیں اور دوسرا خواتین سویٹ بنانے کے جھنجٹ سے بچ جاتی ہیں۔

آپ کو اگر یہ آئیڈیا اچھا لگے تو پھر آپ ایک اور چیز کا خیال بھی رکھیں‘ آپ زیادہ مقدار میں چیز لے کر جائیں تاکہ میزبان کے گھر والے بھی اسے ایک دو دن انجوائے کر سکیں‘ ایسا نہ ہو آپ اپنی قلفی خود ہی کھا کر رخصت ہو جائیں اور خواتین بے چاری جھوٹے برتن مانجھتی رہ جائیں اور آخری بات جس شخص کے گھر یا دفتر جائیں اور وہ آپ کی خدمت کرے تو اس کا شکریہ ضرور اداکریں‘ کھانے اور سروس کی تعریف بھی کریں اور اس کے گھر‘ دفتر اور ریستوران کی بھی۔

ریستوران کا انتخاب میزبان نے کیا ہے اور آرڈر بھی اس نے دیا ہے لہٰذا وہ تعریف کا مستحق ہے‘ کھانے میں کبھی نقص نہ نکالیں‘ نہ سامنے اور نہ بعد میں‘ یہ انتہائی واہیات حرکت ہوتی ہے‘ کھانے کے دوران کوئی اضافی چیز مثلاً دہی‘ اچار‘ سلائس‘ چمچ یاپلیٹ نہ مانگیں‘ ہو سکتا ہے میزبان کے پاس وہ موجود نہ ہو اور وہ شرمندہ ہو جائے لہٰذا جو سامنے ہے اسی کو انجوائے کریں اور کھل کر اس کی تعریف کریں یہ منافقت نہیں ہوتی‘اسے تہذیب اور شائستگی کہتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں