7

سرسید سے بلو چستان کے سر سید ’’ پروفیسر فضل حق میر‘‘ تک

[ad_1]

انسان کو اللہ تعالیٰ نے گویائی کی قوت کے ساتھ ایک اعلیٰ دماغ عطا کر کے اِسے اشرف ا لمخلو قات کے درجے پر فا ئز کیا ۔ غالب نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے

 بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

 آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

آدمی اشرف المخلوقات ہو نے کے تقاضے اُس وقت پورے کرتا ہے جب وہ بصارت سے بصیرت کی جانب سفر کرتا ہے یعنی جب وہ علم حاصل کرتا ہے۔ روز اوّل سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ اُن ہی قوموں نے دنیا میں ترقی کی جنہوں نے تعلیم کی جانب توجہ دی۔ آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل سر زمین عرب میں جہاں جہالت اور ظلمت اپنی مثال آپ تھی، وہاں آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن پاک کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات سے ایسی روشنی اور بصیرت اُس معاشرے کو بخشی کہ یہ مسلمان پوری دنیا میں امن و سلامتی اور ترقی کی علامت بن گئے۔

اگرچہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد اسلامی خلافت پر ملوکیت کا رنگ غالب آگیا مگر علم و تحقیق کا فروغ جاری رہا ۔ بغداد میں ہارون الرشید اور اُس کے وزیر بکرمہ کے دور 786 ء تا 809 ء میں دجلہ اور فرات کی سر زمین دنیا میں علم و تحقیق کا گہوارہ بنی رہی، ایسی ہی صورت سلجوقیوں کے دور میں 1038 ء سے 1092 ء تک اُن کے وزیر حسن بن علی المعروف ’’نظام الملک طوسی‘‘ کے زمانے میں رہی۔ یہ وہ دورہے جب مغرب میں جہالت تھی وہ تاریکی کا زمانہ Dark age کہلا تا ہے۔ 1097 ء سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا، 1160ء سے 1193 ء سلطان صلاح الدین ایوبی نے فرانس ، جرمنی اور برطانیہ سمیت اہل یورپ کو شکست پر شکست دی اور یہاں سے ہی اہل یورپ نے جدید اور روشن اسلامی معاشرے کے خدوخال کو اپنایا اور پھر بقول شاعر

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے

اسپین جہاں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی تھی وہاں ملکہ الزبیلا اور فراننڈس نے1492 ء میں غرناطہ کے مسلمان حکمرانوں کو شکست دی اور یہاں کسی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑا،اسی سال یعنی 1492 ء ملکہ الزبیلا کی مالی معاونت سے کرسٹو فر کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا ۔

اب جہاں تک تعلق برصغیر کا ہے تو یہاں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے ضلع لسبیلہ تک 712 ء میں محمد بن قاسم نے فتوحات کیں مگر یہاں زیادہ دیر مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں رہی۔ 12 ویں صدی عیسوی میں غزنوی و غوری ہندوستان آئے ، ہندوستان میں خلجی سلطنت 1290 ء سے 1320 ء تک رہی ، اس کے بعد تغلق خاندان کا اقتدار 1321 ء سے 1414 ء رہا پھر سادات دہلی کا دور 1414 ء سے 1451 ء تک رہا ، لودھی سلطنت 1451 ء سے 1526 ء تک رہی اور پھر ظہیر الدین بابر نے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا خاتمہ اگرچہ 1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی پر ہوا ، لیکن اس کا آغاز نور الد ین جہا نگیر کی باشاہت 1605 ء تا 1627ء سے ہو چکا تھا جب اُس نے اپنی شہزادی کے کامیاب علاج پر خوش ہو کر انگریز ڈاکٹر کو ساحل پر طویل خطہ زمین انعام کے طور پر مانگنے پر دے دیا تھا۔

اِس کے بعد تاریخ میں انجیئنر بادشاہ کہلانے والے شاہجہان نے بے تحاشہ سرکاری خزانہ خرچ کیا ، صر ف تاج محل کی تعمیر پر ہی ایک کروڑ روپے خرچ کر دیے گئے اُس وقت کے ایک روپے کی قیمت آج ایک لاکھ روپے کے برابر ہے ، تاج محل کے مقابلے میں کئی گنا کم لاگت سے میں یورپ میں 1209 ء سے1300 ء کے درمیان برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یورنیورسٹی سمیت اٹلی، فرانس، اسپین اور پرتگال میں 17 یو نیورسٹیاں قائم ہو چکی تھیں اور جب شاہجہان آگرہ میں تاج محل تعمیر کروا رہے تھے تو یورپ میں تقریباً سو سے زیادہ یو نیورسٹیاں تھیں جن میں ہزاروں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے، بابر نے جب 1526 ء میں بارودی توپ خانہ سے ابراہیم لودھی کے سینکڑوں ہاتھیوں اور ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل فوج کو اپنی بارہ ہزار فوج سے شکست دی تھی تو یورپ کے کولمبس کو امریکہ دریافت کئے اور واسکوڈی گاما کو راس امید کا چکر لگا کر ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کئے کئی برس بیت گئے تھے ۔

یورپ کے بیشتر ممالک اپنے بحری جہازوں میں بہتر اور معیاری توپیں لگا کر دوسرے ملکوں پر حملے کرنے اور اُن پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آچکے تھے ۔ شاہجہان کی چار ملکائیں تھیں جن میں سے ملکہ ممتاز محل اُسے بہت پسند تھی جس سے اُس کے 14 بچے پیدا ہوئے، چودھویں بچے کی پیدائش میں ملکہ ممتاز محل چل بسیں تو اُس کی یاد میں مقبرہ تاج محل بنایا گیا۔ انگریز نے1757 ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو غدار میر جعفر کی مدد سے شکست دی اور شہید کیا۔ اُس وقت بنگال کا جی ڈی پی پوری دنیا کے جی ڈی پی کا 15% تھا ۔

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی بجائے برطانیہ کی باشاہت کا اعلان ہوا اور واضح کر دیا گیا کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد کوئی مقامی شخصیت شہنشاہ ہند نہیں ہو گی اور برطانیہ کا بادشاہ ہی ہندوستان کا بادشاہ ہو گا تو 1857 ء کی جنگِ آزادی شروع ہوئی جسے انگر یز نے غدر کا نام دیا، بہادر شاہ ظفر جو ہندوستان کا آخری شہنشاہ کہلایا وہ 1837 ء کو دہلی میں پیدا ہوا اور 1862 ء کو میانمار (برما) رنگون میں جلا وطنی میں وفات پائی ۔ بہادر شاہ ظفر 1837 ء میں تخت نشین ہوا اور 1857 ء میں اُس کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔

اگرچہ بہادر شاہ ظفر برائے نام ہی بادشاہ تھا اور انگر یز وں سے وظیفے کی رقم یا نوابین کی جانب سے نذرانوں کی رقم بھی لال قلعہ کے اخراجات کے مقابلے میں کم تھی اور اس دوران شاہی نورادات بھی بکتے رہے مگر بہادر شاہ ظفر نے اپنے اجداد کے طور طریقے ترک نہیں کئے۔ بہادر شاہ نے پانچ شادیاں کیں جن سے اُس کے 22 بیٹے اور 14 بیٹیاں تھیں اور اسی بنیاد پر آج بھی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سینکڑوں بلکہ ڈھائی تین ہزار افراد ایسے ہیں جو اپنے تحریری شجرہ نسب سے خود کو بہادر شاہ ظفر کی چھٹی ساتویں نسل ثابت کر سکتے ہیں۔ اِن میں سینکڑوں آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس جنگ آزادی میں سر سید احمد خان نے ایک انگریز خاندان کو انسانی بنیاد وں پر قتل ہونے سے بچایا، اس کی وجہ سے جنگ آزادی کے بعد وہ انگریزوں کے زیادہ قریب آگئے ۔ سرسید احمد خان جن کا خاندان مغلیہ دور کے عدالتی نظام سے منسلک رہا تھا وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی سروس میں 1838 ء میں آگئے تھے۔

1867 ء میں وہ چھوٹی عدالت کے جج ہو گئے۔ سر سید احمد خان کا تاریخ ، سیاست ، ادب اور شعبہ تعلیم پر گہر ا مطالعہ تھا، اُنہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی، واضح رہے کہ ہندوستان میں انگریز کی حکمرانی کے دور میں انگریزوں کی تعداد مقامی آبادی کے مقابلے میں تناسب کے اعتبار سے واقعی آٹے میں نمک کے برابر تھی یعنی یہ تناسب0.25 فیصد تھا۔ 1941 ء میں متحدہ ہندوستان کی کل آبادی 40 کروڑ تھی جس میں انگریزوں کی تعداد صرف ایک لاکھ تھی ۔

انگریز نے ہندوستان کے جاگیرداروں کی مدد سے اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عملدر آمد کر کے یہاں حکومت کی۔ اب جہاں تک تعلق جنگ آزادی کا ہے تو اس کا الزام پوری طرح مسلمانوں پر عائد کیا گیا اور جنگ آزادی کو ناکام بنانے میں ایک جانب ہندو اکثریت نے اہم کردار ادا کیا تو دوسری جانب پنجاب جسے انگریزوں نے 1846 ء میں فتح کیا تھا، یہاں سے سکھ فوج نے دہلی آکر جنگ آزادی کی اس بغاوت کو کنٹرول کیا تھا، باوجود اس کے کہ 1857 ء تک مغلیہ اقتدار برائے نام رہ گیا تھا مگرکیونکہ مسلمانوں نے یہاں صدیوں حکومت کی تھی اس لیے اشرافیہ میں اِن کا تناسب جنگ آزادی سے قبل تقریباً 45% تھا مگر جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں یہ تناسب دس فیصد بھی نہیں رہا۔

ہندو سر سید کی علی گڑھ تحریک سے بہت پہلے انگریزی تعلیم کی جانب مائل ہو چکے تھے۔  1875 ء میں ہندوستان میں مسلمان گریجویٹ افراد صرف بارہ تھے جب کہ ہندو گریجویٹ کی تعداد سینکڑوں میں تھی جنگ میں شکست نے ہندوستان کے مسلمانوں کو نہ صرف تباہ کر دیا تھا بلکہ اُن میں مایوسی، دکھ اور اضطراب شدت کی انتہا تک تھا۔ ایک جانب ہندو اکثریت معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی طور پر غالب آچکی تھی تو دوسری جانب انگریز اُن کے دشمن تھے ۔ سرسید یہ جان گئے تھے کہ ترقی اور آزادی کے لیے جدید تعلیم نہایت ضروری ہے اور جدید تعلیم انگریزی سیکھے بغیر ممکن نہیں تھی اس موقع پر سر سید نے مسلمانوں کو مصلحت کی بنیاد پر یہ سمجھایا کہ ہند اکثریت کے غلبے سے بچنے اور ہند وستان کے مسلمانو ں کی دینی، سماجی، اخلاقی شناخت کو بچا نے کے لیے جدید تعلیم ہی بنیادی ضرورت ہے، ساتھ ہی انہوں نے دوقومی نظریے کی بنیاد پر انگریزوں سے جداگانہ انتخابات اور ملازمتوں کے کوٹے کے مطالبات کئے۔1885   ء میںجب آل انڈیا کانگریس پارٹی قائم ہو تو سرسید نے مسلمانوں کو اس میں شمولیت سے باز رکھا۔

اُن کا سب سے عظیم کام علی گڑ ھ کالج کا قیام ہےجو بعد میں یونیورسٹی بن گئی، یہی یو نیورسٹی پاکستان کی تحریک کا قلعہ ثابت ہوئی، سرسید احمدخان ہی کے نظریات کو زیادہ بہتر اور مصفا انداز میں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ا پنایا اور آخر 14 اگست 1947 ء کو پاکستان حاصل کر لیا۔ اگرچہ یہ تاریخ کا ایک کارنامہ ہے ۔ پاکستان جس کی بنیادی تحریک تعلیمی تحریک تھی یعنی سرسید احمد خان نے اپنی مدد آپ کے تحت چندے جمع کر کے علی گڑھ کالج تعمیر کیا اور پھر اس میں ایسی تعلیمی پالیسی رائج کی جو ایک جانب تو جدید انداز میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے تقاضے پورا کرتی تھی تو دوسری جانب ہندوستانی مسلم سماج کے دینی، اخلاقی ، تہذیبی، ادبی اور سماجی تحفظ کی ضمانت دیتی تھی، اگرچہ جہاں تک سرسید کے مذہبی خیالات کی بات ہے تو بہت سے معاملات میں علما دین اُن سے اختلافات بھی رکھتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ سرسید کی تعلیمی تحریک ہی کی بنیاد پر ہندوستان کا مسلم معاشرہ تعلیم کی روشنی میں دینی، سیاسی، سماجی اخلاقی طور پر بصارت سے بصیرت کا سفر طے کرتا آگے بڑھا۔ سر سید کی وفات 27 مار چ 1898 ء کے 42 برس بعد 23 مار چ 1940 ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور 14 اگست1947 ء کو ہمیں آزادی مل گئی ۔

آزادی کے ایک سال بعد ہی قائد اعظم کا انتقال ہو گیا۔آزادی کی پہلی سالگرہ پر معروف شاعر فیض احمد فیض نے نظم کہی

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

پھر اس نظم کے آخری مصرعے کچھ یوں ہیں ۔

نشانِ دید دل کی گھڑی نہیں آئی

بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

پاکستان میں اُس وقت شرح خواندگی 16 % بیان کی جاتی ہے لیکن افسوس یہ ہوا کہ ہمارے ہاں اب بھی حکومتوں کی سب سے کم ترجیح تعلیم ہوتی ہے ۔ بجٹ کا بہت کم حصہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، آج یعنی 2024 ء کے مطابق ہمارے ملک میں اسکول جانے کی عمر کے حامل تقریباً 3 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرسید کی وفات کے 49 سال بعد پاکستان قائم اور آزاد ہوا تو اُس وقت تک انگریز نے ہندوستان کے دیگرعلاقوں کی طرح ہمارے آج کے پاکستان کے علاقے میں اسکولوں، کالجوں اور دو تین یونیورسٹوں کی حد تک سرکاری شعبوں میں تقریباً مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی تھی،آزادی کے بعد 1951 ء کی مردم شماری کے مطابق ہمارے آج کے پاکستان کی آبادی3 کروڑ 40 لاکھ تھی اُس وقت اگر شرح خواندگی 16% تھی تو اُس وقت ملک میں اَن پڑھ افراد کی کل تعداد 2 کروڑ85 لاکھ تھی ، آج وطن عزیز کی کل آبادی تقریباً 23 کروڑ بتائی جا رہی ہے اور شرح خواندگی 56% ہے تو ہمارے ملک میں اِن پڑھ افرد کی مجموعی تعداد10 کروڑ 12 لاکھ ہے اور اب معمولی خواندہ تو ایک طرف اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد میں کتب بینی یعنی معالعہ کا رجحان چونکہ ماضی کے مقابلے میں 0.5% رہ گیا ہے۔

اس لیے سماجی ، سیاسی ، جمہوری شعور کی سطح ماضی کے مقا بلے میں بہت گر گئی ہے۔ ہمارے ہاں آزادی کے بعد سرکاری شعبے میں انگر یز سرکارکی نصابی تعلیم جاری رہی جو جبراً نہیں تھی۔ انگر یز ہی کے دور میں نہ صرف سرسید احمد خان نے اپنے تعلیمی اداروں میں نصاب کو اپنی معاشرتی، دینی، اخلاقی ضروریات کے مطابق ڈھالا تھا بلکہ مسلمانوں، ہندوں، عیسائیوں اور سکھوں کی اور بہت سی تنظیموںنے بھی ازخود اپنے تعلیمی ادارے کھولے تھے اور معاشرتی علوم اور مذہبی تعلیم کو اپنے طے کردہ معیار کے مطابق نصاب میں شامل کیا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد سے 1977 ء تک بہرحال اگر کو ئی بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا تو اُسے اچھے اساتذہ کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم مفت میسر تھی۔

1972 ء میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی نے حصولِ تعلیم میں طبقاتی فرق اور پرائیویٹ شعبے میں اساتذہ کے معاشی اقتصادی استحصال کو مٹا دیا اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر ایک نصاب تعلیم کی بنیاد پر طلبا و طالبات کو یکساںاور معیاری تعلیم فراہم کرنے کی کو شش کی اور پرائیویٹ اسکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد ٹیچرز کو سرکاری اسکیلوں کے مطابق تنخواہیں دیں، مگر 1977 ء کے بعد طبقاتی بنیادوں پر تعلیم نہ صرف دوبارہ جاری ہو گئی بلکہ اس میں بھی کئی درجات بن گئے، مگر افسوس یہ ہے کہ اس تعلیم کی بنیاد پر یہ دعوے تو کئے جاتے ہیں کہ اس لیے مختلف شعبوں میں ٹیکنیکل بنیادوں پر عالمی سطح کی اور بہت مہنگی تعلیم فراہم کی جاتی ہے لیکن یہاں احساس و جذبات کی بنیاد پر انسان کے کردارکی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا میں سر عبدالقیوم اور بلوچستان میں بلوچستان کے سر سید پروفیسر فضل حق میر (ستارہ امتیاز) ایسی شخصیات ہیں جن کو اِن صوبوں کے عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے اِن کو یہ احساس تھا کہ تعلیم کے شعبے میں جب تک جذبہ حب الوطنی کے ساتھ رضاکارانہ بنیادوں پر محنت نہیں کی جاتی اُس وقت تک نہ تو معاشرہ معیاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم بیدار ہو سکتی ہے اب جہاں تک تعلق بلوچستان کا ہے تو بلوچستان جو ملک کے کل رقبے کا تقریباً43  فیصد ہے یہ صوبہ غربت اور معیاری زندگی کے تمام اعشاریات کے لحاظ سے پسماندہ ہے بلکہ یہاں ملک کی شرح خواندگی کے اعتبار سے بھی تناسب بہت کم اور یہاں شرح خواندگی 46% بیان کی جاتی ہے۔

انگریز بنگال میں 1757 ء میں آیا تھا اور فورٹ ویلیم کالج کلکتہ میں 1800 ء میں قائم کر دیا گیا تھا جبکہ 1857 ء میں وہاں پہلی یونیورسٹی بنگال یونیورسٹی کے نام سے کلکتہ میں قائم کر دی گئی تھی۔ بلوچستان میں انگریز نے1839 ء میں پہلی اینگلو افغان جنگ کے بعد قدم رکھا اور جنگ میں خان آف قلات میر محراب خان نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ انگریز نے 1878 ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ سے چند دن پہلے یہاں خان آف قلات سے معاہدے کر کے کوئٹہ شہر کی تعمیر کی اور پھر تیسری اینگلو افغان جنگ 1919 ء تک انگریز نے مرکزی ہند وستان سے لائے ہوئے ملازمین کے مطالبے پر ایک سنڈے من ہائی اسکول سمیت تین سرکاری ہائی اسکول قائم کئے، جبکہ کوئٹہ میں پارسی پٹیل خاندان کی جانب سے لیڈی سنڈے من مڈل اسکول کے لیے زمین اور پانچ ہزار روپے کی رقم دی گئی۔ جب 1947 ء میں پاکستان آزادہوا تو بلوچستان میں کوئی کالج نہیں تھا۔

موجودہ سائنس ڈگری کالج ہی سنڈے من ہائی اسکول تھا جہاں 1946 ء میں اسے ہائیرسیکنڈری اسکول بنایا گیا تھا اور یہاں بارہ جماعتوں تک تعلیم دی جانے لگی مگر انٹر میڈیٹ کی اِن کلاسوں کو اسکول ہی کے پرانے ٹیچرز پڑھاتے تھے۔ 1948 ء میں اس کو بلوچستان کا پہلا کالج بنا دیا گیا۔ بلوچستان کا واحد بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن 1969 ء میں قائم ہوا جبکہ 1970 میں یہاں پہلی یونیورسٹی،بلوچستان ملک کے پہلے عام انتخابات سے قبل صوبہ کا درجہ ملنے کے چند ماہ بعد یونیورسٹی آف بلوچستان کے نام سے قائم ہوئی۔ یوں دیکھا جائے تو انگریزوں نے اپنے دور میں بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی کام نہیں کیا مگر جہاں تک تعلق رضاکارانہ بنیادوں پر جذبہ حب الوطنی کے تحت تعلیم کے شعبوں میں کام کرنے کا ہے تو اس سلسلے میں بلوچستان کی تاریخ میں سب سے پہلا نام نواب میر یوسف مگسی کا ہے جو بدقسمتی سے عین جوانی میں 31 مئی 1935 ء کے زلزلے میں جان بحق ہو گئے۔

انہوں نے اپنے علاقے جھل مگسی میں خواتین کی تعلیم کے لیے بھی بہت کام کیا، انگریز کے دور میں کو ئٹہ میں جب انگریزوں نے عیسائیت کی تبلیغ اور فروغ کے لیے مشن اسکول کھولا تو یہاں ہندوں نے اپنے مذہبی تحفظ کے لیے سناتا دھرم ہائی اسکول اور سکھوں نے خالصہ ہائی اسکول کھولے جب کہ مسلمانوں کی انجمنِ اسلامیہ نے یہاں اسلامیہ ہائی اسکول کھولا، جہاں قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم بھی تشریف لائے تھے اور اسے چھوٹا علی گڑھ قرار دیا تھا۔ آزادی کے چند برس بعد بلوچستان کے کچھ اہل نظر اور درد دل رکھنے والی شخصیات جن میں مولانا عبدالعزیر مرحوم، مولانا عبدالمجیدخان اور میرفضل محمد جمالی ، نے رضاکارانہ بنیادوں پر بلوچستان میں قومی تعمیر ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم کے ساتھ اسلامی اقدار کی بنیاد پر طالب علموں کی کردار سازی کی پالیسی کو اپنا کر رفاعی، فلاحی تعلیمی ادارے تعمیر نو ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور شروع میں کرائے کے مکان میں کوئٹہ میں ایک پرائمری اسکول کھولا، یہ تمام شخصیات اپنے کردار و عمل مطالعہ اور علم وتحقیق کے اعتبار سے مثالی تھیں لیکن اِن میں مولا نا عبدالعزیز بہت پائے کے عالم دین اور زبردست خطیب تھے۔

کوئٹہ میں چمن ریلوے کراسنگ کے ساتھ اب بھی اُن کی مسجد ہے جہاں اب امامت اور خطیب کے فرائض ملک کے معروف عالم دین دانشور ڈاکٹر عطاء الرحمن انجام دے رہے ہیں، تعمیر نو پرائمری اسکول کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا عبدالعزیز کے ہونہار شاگرد فضل حق میر اس اسکول میں ٹیچر ہو گئے اور صرف چھ سال بعد تعمیر نو اسکول ہائی بھی بنا تو جلد ہی فضل حق میر پرنسپل بن گئے۔ 1969 ء میں جب بلوچستان بورڈ آف انٹرمیدیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہوا تو اس اسکول کے طلبا نے متواتر صوبے بھر میں میٹرک کے سالانہ امتحانات میں پوزیشنیں لینی شروع کیں، 1982 میں فضل حق میر نے تعمیر نو ٹرسٹ کے اراکین کے ساتھ مل کر شہر کے درمیان تقریباً تین ایکڑ زمین حکومت سے حاصل کر کے یہاں تعمیر نو کالج قائم کیا اور پھر اس کالج کے طلبا نے بھی بورڈ کے سالانہ امتحان میں صوبے بھر میں پہلی دوسری تیسری پوزیشنیں حاصل کرنی شروع کیں ۔

پروفیسر فضل حق میر نے اپنے کردار وافکار اور دن رات کی محنت سے تعمیر نو کی ساکھ قائم کی، پالیسی کے لحاظ سے تعمیر نو ٹرسٹ ہے اور اس کے ادارے کسی شخص کی ملکیت نہیں، اس وقت تعمیر نو ٹرسٹ کے چیرمین میر عبدالخالق جمالی ہیں جو پر وفیسر فضل حق میر مرحوم کے پرانے ساتھی اور دوست ہیں ، باقی اراکین میں سے میر غلام حسین جما لی جو جنرل سیکرٹری ہیں ان کے علاوہ محمد نسیم لہڑی، مولانا عبدالعزیز مرحوم کے فرزند ڈاکٹر عطاالرحمن ، حافظ محمد طاہر، بریگیڈئر ریٹائر عبدالجلیل سب پروفیسر فضل حق میر مرحوم کے عزیز اورپرانے شاگرد ہیں۔ باقی ایک رکن محمد عثمان بابئی کو پروفیسر فضل حق مرحوم کی وفات کے تین سال بعد تعمیر نو ٹرسٹ کے بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ تمام عہدیداران اور اراکین رضاکارانہ بنیادوں پر بغیر کسی معاوضے کے کام کر رہے ہیں۔ پروفیسر فضل حق میر نے ایک جانب تو معیار تعلیم پر توجہ دی اور محنت سے کام کیا اور یہ ریکارڈ پر ہے کہ گذشتہ 53 برسوں میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے میٹرک اور ایف ایس سی کے سالانہ امتحانات میں صوبے بھر میں پہلی،دوسری اور تیسری پوزیشنوں سمیت ٹاپ ٹوینٹی پوزیشنوں میں سے مجموعی طور پر تعمیر نو ٹرسٹ کے تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات نے تقریباً ’’نصف‘‘ یعنی 50% پوزیشنیں حاصل کیں جب کہ تعمیر نو کے تعلیمی اداروں کی تعداد جو اگرچہ اس وقت سات ہے مگر اِن میں سے تین کالج اور تین ہائی اسکول ہیں، اس کے مقابلے میں صوبے بھر میں دیگر ہائی اسکولوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار اور کالجوں کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب ہے۔

پروفیسر فضل میر مرحوم کے کمالا ت یہ بھی رہے کہ انہوں نے بہت اچھے اساتذہ کا انتخاب کیا جہاں کہیں اُنہیں کوئی اچھا پروفیسر نظر آیا اُس کو عزت و تکریم کے ساتھ اور سرکاری اسکیلوں کے مطابق اپنے ہاں لے لا ئے، انہوں نے ساتھ ہی اپنے اساتذہ اور طالب علموں کی کرداری سازی اور شخصیت کی تعمیر کی ، وہ اپنی زندگی کے آخری دن23 مارچ 2018 ء تک تعلیم کے فروغ کو عبادت کا درجہ دیتے تھے، مرحوم کی شخصیت بہت پُرتقدس اور محترم تھی، تعلیمی اعتبار سے فضل حق میر،ایم اے اسلامیات کے ساتھ بی ایڈ تھے، مگر وہ ایک دینی اسکالر بھی تھے، عاشق نبیﷺ تھے اور اس بنیاد پر وہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلام آباد میں ہر سال بارہ ربیع اوّل پر منعقد ہونے والی عالمی سیرت کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے اور سیرت پر بہترین تحقیقی مقالات پر ایوارڈ پاتے رہے، ساتھ ہی تاریخ، انگلش، اردو، اور فارسی شعر ادب پر اُن کا گہرا مطالعہ تھا وہ اس بات کو ہمیشہ باور کر واتے رہے کہ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہوتا ہے۔

اس لیے تعمیر نو کالج اور ہائی اسکولوں کے طلبا صوبائی اور قومی سطح کے ہاکی ، فٹ بال، کرکٹ اور سوئمنگ کے مقابلوں میں اب تک پہلی، دوسری تیسری پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں، اسی طرح اُنہوں نے لٹریری سوسائٹی اور سائنس سوسائٹی بنائیں تو اِن شعبوں میں بھی تعمیر نو ٹرسٹ کے طلباء نے بین الاقوامی، قومی اور صوبائی سطح پر نام پیدا کیا۔ مرحوم پروفیسر فضل حق میر نے کوئٹہ میں تعمیر نوکالج اور کوئٹہ اسٹرین بائی پاس پر 72 ایکڑ رقبے پر مشتمل تعمیر نوایجوکیشنل کمپلیس میں دو خوبصورت اور وسیع جامع مساجد تعمیر کروائیں، تعمیر نو کالج کی جا مع مسجد کے وہ خود خطیب تھے، جہاں ہر جمعہ کی نماز پر ہزاروں نمازی اُن کا درس اور خطاب سننے آتے تھے، وہ بلا کے مقر ر تھے، وہ مرتے دم تک تعمیر نو ٹرسٹ کے دو عہدوں پر کام کر تے رہے، وہ تعمیر نو کالج کے پرنسپل بھی تھے اور تعمیر نو ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل بھی تھے، مگر تنخواہ وہ صرف پرنسپل کی وصول کرتے تھے ۔

انہوں نے تعمیر نوکالجوں اور اسکولوں کا معیار اتنا بلند کیا کہ آج بھی ہر سال داخلوں کے وقت یہاں اِن کالجوں اور اسکولوں پر داخلے کے ہزاروں امیدواروں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور یہاں صرف میرٹ پر داخلے دئیے جا تے ہیں کسی گورنر، وزیر اعلیٰ، وزرا کسی سفارش کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے، تعمیر نو ٹرسٹ کے تمام تعلیمی ادارے بغیر نفع ونقصان کی بنیاد پر کا م کر رہے ہیں اور نہ صرف یہاں فیسیں واجبی ہیں بلکہ تقریباً30% مستحق اور غریب طلبا و طالبات کی فیسیں معاف ہیں، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تمام اعلیٰ سول سروس اور فوج کے افسران میں سے نصف سے زیادہ تعمیر نو کے تعلیمی اداروںسے فارغ التحصیل ہیں اور یہ پروفیسر فضل حق میر کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ یہ تمام اعلیٰ افسران اپنے معیاری کام اور اخلاص سے پہچانے جا تے ہیں ۔

بلوچستان میں آج کوئی ایسا شخص نہیں جو پروفیسر فضل حق کا نام عزت و احترم سے نہ لے اور اُن کی خدمات کی وجہ سے اُن کو خراج تحسین پیش نہ کر ے ، پر وفیسر فضل حق میر کا انتقال جب 23 مارچ 2018 ء کو ہوا تو بلوچستان کے عوام کی اکثریت کو خدشہ تھا کہ اب چونکہ ایسی قدآور شخصیت تعمیر ٹرسٹ میں موجود نہیں اس لیے تعمیر نو ٹرسٹ کے تعلیمی اداروں کا معیار متاثر ہو گا اور اس کی ترقی رک جا ئے گی اور پہلے ایک برس تک اگرچہ معیار تو نہیں گرا اور تعمیر نو کالج نے بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے سالانہ امتحانات میں پوزیشنیں بھی لیں مگر اِن پو زیشنوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم تھی لیکن دوسرے سال ہی کالج کی کامیابی کا گراف دوبارہ اسی سطح پر آگیا اور سال2022 ء کے بورڈ کے سالانہ امتحانات میں تعمیر نو کالج نے بلوچستان بھر میں پہلی، دوسری، تیسری پوزیشنوں کے ساتھ ساتھ ٹاپ ٹونٹی پوزیشن میں سے آٹھ پوزیشنیں حاصل کیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر فضل حق میر مرحوم جہنوں نے 52 سال سے زیادہ تعمیر نو فلاحی ، رفاعی ادارے کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں، وہ اتنے مردم شناس تھے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دوستوں اور ہونہار شاگردوںکو تعمیر نو ٹرسٹ کے بورڈ میں شامل کر لیا تھا، آج مرحوم فضل حق میر کو وفات پانچ برس گزر چکے ہیں اس دوران بورڈ کے چیرمین میر عبدلخالق جمالی، سیکرٹری غلام حسین جمالی، نسیم لہڑی ، ڈاکٹر عطاء الرحمن، بر یگیڈئیر(ریٹائر) عبدالجلیل، حافظ محمد طاہر اور عثمان بابئی نے گرلز کالج کی نئی عمارت، تختانی بائی پاس پر پرائمری اسکول کی عمارت اور سمنگلی روڈ پر گرلز پرائمری اسکول کی بڑی اور کشادہ پختہ عمارتیں تعمیر کر وائی ہیں۔

سر سید احمد خان کی طرح پروفیسر فضل حق میر کا بھی یہ خواب تھا کہ وہ بلوچستان میں ایک بڑی اور معیاری یونیورسٹی قائم کریں جس کے لیے اُنہوں نے پالیسی اور یونیورسٹی کے لیے وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق شعبہ جات بنانے کا پورا منصوبہ تحریر ی صورت میں بنا لیا تھا لیکن سر سید کی طرح زندگی میں وہ اس خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکے۔ امید ہے کہ تعمیر نو ٹرسٹ کے یہ عہدیداران اور اراکین مستقبل قریب میں مرحوم فضل حق میر کے اس خواب کوحقیقی شکل دیں گے۔

سرسید احمد خان کا انتقال 27 مارچ 1898 ء ہوا تھا۔ بلوچستان کے سرسید ، پروفیسر فضل حق میر کا انتقا ل 23 مارچ 2018 ء کو ہوا، ان بیس برسوں میں ایک حقیقت سب کے سامنے ہے کہ ہر دور میں ہمارے ہاں تعلیم کی حقیقی ترقی اور فروغ کے لیے حکومتوں کی جانب سے کئے گئے کام عددی اعتبار سے تو کہیں زیادہ رہے مگر معیار تعلیم اور حقیقی ترقی کے لیے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ رضاکارانہ طور پر خلوص وجذبہ سے کام کرنے والوں کی کوششوں سے معاشرے میں سماجی، سیاسی ،اقتصادی اور معاشی ترقی کہیں زیادہ ہوئی اور شعور بیدار بھی ہو ا، مرحوم پروفیسر فضل حق میر کا تعلیم کے بارے میں وژن نبی کریمﷺ کی اِس حدیث سے واضح ہوتا ہے جو اُنہوں نے تعمیر نو کالج کے صدر دروازے کی پیشانی پر کھدوائی ہے وہ یہ ہے ( عقل میرے دین کی بنیاد ہے اور علم میرا ہتھیار ہے )



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں