10

گلابوں سے بھرے باغات ، سرسبز میدان اور سورج مکھی کے کھیت

[ad_1]

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ پندرہواں پڑاؤ)

’’الفاظ پرندوں کی ڈار کی صورت مجھ پر اترتے اور اسی طرح اچانک غائب ہوجاتے ہجرتی پرندوں کی طرح، میں صرف وہ ذخیرہ آب ہوں جہاں وہ ذرا دیر رکتے، گرم زمینوں کی طرف روانگی سے قبل تھکن اتارتے اور سستاتے ہیں۔ ‘‘ مولانا رومی ؒ

ہم مولانا رومی ؒ کے شہر میں ہیں، یہ شہر ایک عظیم مثنوی کے خالق کا شہر ہے۔ یہ شہر ہی نہیں یہاں بسنے والے بھی دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ ہم اس باغ کی معطر فضا میں خاصی دیر بیٹھے رہے۔ ایک ایک کرکے نمازی مسجد سے جاچکے تھے اور مسجد خالی ہوگئی تھی۔ عزیز نے کہا ’’اماں اندر چلتے ہیں۔ باہر سے تو مسجد بہت شان دار ہے اندر سے دیکھتے ہیں کیسی ہے۔‘‘ میرا اندازہ تھا کہ یہ مثنوی کے کاتب علاؤدین کے نام پر ہے۔

جب ہم اندر داخل ہوئے تو خواتین والے حصے کی طرف ابھی بھی کچھ عورتیں موجود تھیں۔ میں نے اندر جھانک کر دیکھا ایک ادھیڑ عمر خاتون اور چار پانچ نوجوان لڑکیاں دائرے کی شکل میں بیٹھی تھیں۔ شاید نماز کے بعد درس ہورہا تھا۔ ہم مردوں والے حصے میں آگئے۔ وہاں ابھی بھی کچھ لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ مگر عام لوگوں سے ان کے حلیے مختلف تھے۔ لمبے لمبے چوغے اور سرپر ٹوپیاں اور نورانی چہرے۔ شاید یا تو ورد کررہے تھے یا مراقبہ کررہے تھے صرف ایک نے چہرہ اٹھاکر دیکھا۔ میں نے عزیز سے کہا ’’واپس چلو‘‘

’’کیا ہوا اماں؟‘‘ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔

’’ہم کو ان کی عبادت میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ میرے ساتھ باہر آگیا۔ اب بتائے کیا ہوا میں نے کہا،’’عزیز میں نے اتنا نورانی چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ ذرا تصور کرو اتنی بڑی مسجد اور ایک کونے میں چند نورانی چہرے والے لوگ کون ہوسکتے ہیں۔‘‘

’’کون لوگ اماں مسجد تو خالی تھی۔‘‘

’’ اچھا تم کو لوگ نظر نہیں آئے۔‘‘ میں نے پوچھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے سوال پوچھے گا۔ میں نے کہا،’’اچھا اب تم مجھ سے سوال مت کرنا کیوںکہ میرے پاس جواب نہیں ہے۔‘‘ مجھے معلوم تھا کہ یہ نئی نسل کے لوگ ہیں میری بات کو مذاق میں اڑا دیں گے۔

وہ کہنے لگا،’’اماں آپSuperstitious ہوتی جارہی ہیں۔ آئیے آپ کو چائے پلاتے ہیں۔‘‘ مگر میرا ذہن وہیں لگا ہوا تھا۔ واپس جاکر تصدیق کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے میرا خیال ہو، نظر کا دھوکا ہو یا وہ لوگ موجود ہوں تو عزیز کو نظر کیوں نہیں آئے؟ عقل ماؤف تھی وہ مجھے کیوں نظر آئے، دل و دماغ میں جنگ جاری تھی مگر خوف نہیں تھا۔ ایک اطمینان تھا کہ اچھا ہوا واپس پلٹ آئے ورنہ ان کی عبادت میں خلل آجاتا۔ وہ جو بھی تھے عبادت گزار اور نیک تھے اور ان سے کیا ڈرنا۔

مجھے اپنے بچپن کی ایک یاد آگئی۔ ہمارے محلے میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ وہ ٹی وی، وی سی آر اور موبائل کا زمانہ تو تھا نہیں خواتین عشاء کے بعد اپنے دروازوں پر بیٹھ کر باتیں کرتیں اور ہم بچے ان کے سامنے میدان میں کھیلتے رہتے تھے۔ مسجد بھی عشاء کے بعد بند ہوجاتی تھی۔ ہم بچوں کو سختی سے منادی تھی کہ اس طرف نہ جائیں نہ وہاں جاکر شور شرابا کریں۔ ہم نے خود وہاں سفید سائے دیکھے تھے۔

ایک دن ہم نے پوچھا،’’آخر آپ لوگ ہمیں اس طرف جانے سے کیوں منع کرتے ہیں۔ نہ وہ ہمیں کچھ کہتے ہیں نہ ہم ان کو کچھ کہتے ہیں۔‘‘ تو جواب ملا،’’کہتے تو کچھ نہیں ہیں مگر تمہارے شورشرابے سے ان کی عبادت میں خلل پڑتا ہے۔‘‘ یعنی ہمارے بڑوں نے ڈرایا نہیں تھا، احترام سکھایا تھا۔ یہی بات ایک دم میرے منہ سے نکلی جس میں ڈر نہیں تھا ایک احترام تھا۔

خیر یہ علیحدہ موضوع ہے۔ ہم کافی دیر تک الہ دین میں رہے۔ وہیں پر چائے اور کافی وغیرہ کے ہوٹل تھے کچھ میں کھانے کا انتظام بھی تھا مگر اس وقت ہمارا موڈ چائے پینے کا تھا۔ ہلکی سی خنکی اور صاف ستھری پرسکون فضا میں چائے پینے کا علیحدہ مزا ہے۔ جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے وہ جگہ خاصی اونچائی پر تھی اور سامنے بس اسٹاپ تھا۔ اچھی خوب صورت جگہ اور منظر تھا۔ ہماری ہمت پیدل جانے کی نہیں ہورہی تھی۔ ’’ایسا کرتے ہیں بس یا ٹرام سے چلتے ہیں۔ شمس ؒ کے اسٹاپ پر اترکر اذکان کی دکان سے مٹھائیاں خریدتے ہیں وہیں کہیں کھانا کھالیتے ہیں۔‘‘ عزیز نے پروگرام سیٹ کرکے مجھ سے صرف تصدیق چاہی تھی۔

ایک جگہ قونیہ پیزا کا بورڈ لگا دیکھا تو ہم اس جگہ روک گئے۔ قونیہ میں بھی استنبول اور انقرہ کی طرح اسٹریٹ ہوٹل بہت ہیں لیکن بہت صاف ستھرے اپنے شہر کی طرح خوب صورت بنے ہوئے۔ انسان یہاں بے دھڑک کھانا کھا سکتا ہے۔ یہ مختلف اسٹائل کا پیزا تھا۔ چپاتی کی طرح باریک روٹی پر بنا ہوا اور بے تحاشا مزے دار۔ عزیز کہنے لگا میرا تو ایک پیزے سے پیٹ ہی نہیں بھرے گا۔ دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا تھا لیکن میرے لیے کافی تھا۔ یہ ہوتا بھی ون سروینگ پیزا مگر جب پیزا کھانا شروع کیا تو میرا تو آدھے پیزے میں ہی پیٹ بھرگیا اور عزیز کے لیے بھی کافی تھا۔

اس نے میرے آدھے پیزے پر بھی ہاتھ صاف کرلیا۔ اب چائے پینے کا دل نہیں کررہا تھا۔ اس لیے میں نے تو سادہ پانی کی بوتل لے لی اور نمکین لسی کا پیک لیکن جب ہم اذکان خلیل کی دکان پر پہنچے تو وہ ہمیں دیکھتے ہی خوش ہوگیا جب ہم اپنی پسند کی مٹھائیاں لے چکے اور کاؤنٹر پرجاکر پے منٹ بھی کردی تو اذکان خلیل ہمارے لیے ایک بڑا سا مٹھائی کا پیکٹ لے کر آگیا۔ ’’یہ میری طرف سے بچوں کے لیے ہے اگر انکار کیا تو میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ یہ میری محبت ہے مجھے اپنے ملک جاکر بھی یاد رکھنا۔‘‘

’’اذکان تم تو ہمیں ویسے بھی یاد رہوگے۔‘‘ میں نے اس سے کہا،’’اور ہم آج نہیں جا رہے ہیں کل جائیں گے۔‘‘

’’ تو کل بھی ملنے آنا میں انتظار کروں گا۔‘‘ وہ کہنے لگا،’’ابھی باہر جاکر میرا انتظار کرو میں آتا ہوں۔‘‘ اس کی دکان پر کوئی گاہک آگیا تھا۔ ہم اس کی دکان کے باہر آکر بیچ پر بیٹھ گئے۔ وہ اپنے گاہک کو نمٹا کر ہمارے ساتھ والی بینچ پر آکر بیٹھ گیا۔ اس کی دکان پر کام کرنے والا لڑکا دو کپ آئسکریم کے لے کر آگیا۔

عزیز نے کہا ’’آج ہم اس آئسکریم کی پیمنٹ کریں گے۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’تم میرے بھائی ہو اور تمہاری ماں میری ماں ہے۔ یہ میری محبت ہے اس لیے میں کچھ لے نہیں سکتا۔‘‘

قونیہ کی شاپنگ تو صرف مٹھائی کی تھی اور کچھ ہلکا پھلکا سامان تھا۔ اس کی پیکنگ تو آسانی سے ہوگئی۔

عزیز نے رات کو کہہ دیا تھا کہ میں دیر تک سوؤں گا۔ آپ ڈائننگ ہال میں جاکر ناشتہ کرلیجیے گا۔ مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ بہت تھکا ہوا ہے۔

صبح میری آنکھ تو جلدی کھل گئی تھی لیکن میرا دل ناشتہ کرنے کا نہیں کررہا تھا۔ جب دس بجنے میں پندرہ منٹ تھے تو میں ڈائننگ ہال میں آئی۔ آج سب نئے چہرے تھے ۔ پرانے لوگوں میں صرف وہ شخص تھا جو ٹی وی دیکھتے ہوئے ناشتہ کرتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ کام والا لڑکا آگیا۔ حیان موجود نہیں تھا۔

اس نے میرے لیے چائے میز پر لاکر رکھی۔ بریڈ بھی موجود نہیں تھی۔ اس نے تازہ بریڈ سیک کر رکھی اور عزیز کا پوچھا۔

میں نے اسے بتایا کہ وہ سورہا ہے۔ اس نے ایک بڑی پلیٹ ناشتے کی بناکر رکھی اور ٹرکش زبان میں مجھے سمجھایا کہ ناشتے کا وقت ختم ہورہا ہے۔ میں کام سمیٹ رہا ہوں مگر عزیز کا ناشتہ میں کچن میں رکھ رہا ہوں۔ وہ جب بیدار ہو ناشتہ کرلے۔ چائے سماور میں سارا دن تیار رہتی ہے۔ ڈائننگ ہال بھی خالی ہوچکا تھا۔ میں بھی کمرے میں آگئی۔ عزیز ابھی تک سورہا تھا۔ میری بھی تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلی تو دوپہر کے دو بچے تھے۔ عزیز بھی اٹھ چکا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ناشتہ کچن میں رکھا ہوا ہے۔

وہ تو خوش ہوگیا میں تو سمجھ رہا تھا کہ باہر جاکر ناشتہ کرنا پڑے گا۔ عزیز کے جانے کے بعد میں پھر سوگئی۔ میری جب آنکھ کھلی جب عزیز ناشتہ کرکے آچکا تھا۔ اور میرے اٹھنے کا انتظار کررہا تھا۔

ہم ڈائننگ ہال آئے ایک ایک کپ چائے پی اور فریش ہوگئے۔ ریسیپشن پر حیان موجود تھا۔ آج ہمارا دن شروع ہوچکا تھا اور ایڈوانس پے منٹ کی جاتی تھی۔

عزیز نے حیان کو ایک دن کے حساب سے پے منٹ کی۔ اس نے 60 فی صد لے کر ہمیں 40 فی صد واپس کیے جو اچھی خاصی رقم بنتی تھی۔ ’’یہ کیا؟‘‘ عزیز نے پوچھا تو ادھر اس کے باپ نے جواب دیا جو سامنے والے صوفے صر بیٹھے ہوئے تھے، ’’ہم یہاں آکر بکنگ کروانے پر 10فی صد ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں مگر آن لائن بکنگ پر ڈسکاؤنٹ نہیں ہوتا۔ یہ تمہارے لیے چار راتوں کا ڈسکاؤنٹ ہے اور شام کو ارحان آئے تو اسے ضرور بتادینا یہ ڈسکاؤنٹ اس کی طرف سے ہے۔‘‘

ہم نے دونوں کا شکریہ ادا کیا اور باہر آگئے۔ عزیز حیران ہورہا تھا۔ قدم قدم پر قونیہ بتا رہا تھا کہ میں رومیؒ کا شہر ہوں اور اس شہر کے رہنے والے محبت نچھاور کرنے والے ہیں۔ رومی ؒکی تعلیمات کا اس شہر والوں پر بہت اثر ہے۔

اب اصل مرحلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو ہم ان پیارے مہمان نواز لوگوں کو دے سکتے۔ اگر ہم قونیہ سے کچھ خریدکر دیتے تو اچھی بات نہیں لگتی۔ میرے پاس ایک ڈائری تھی جس میں پاکستان کی علاقائی ثقافت کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے چلتے وقت میرے بیٹے احد نے دی تھی کہ آپ اس ڈائری میں پوائنٹ لکھے گا۔ میں نے عزیز سے کہا کہ تم یہ ارحان کو تحفے میں دے دینا۔ میں نے ابھی تک اسے استعمال نہیں کیا تھا۔ روزانہ سوچتی تھی اس پر کچھ لکھوں مگر جب اسے کھول کر دیکھتی تو اتنی خوب صورت ڈائری پر کچھ لکھنے کا دل ہی نہیں کرتا تھا۔

شاید یہ ارحان کے لیے ہی تھی۔

’’مگر اماں! مجھے اذکان کو بھی کچھ دینا ہے۔ آپ دیکھیں وہ ہم سے کتنی محبت سے پیش آتا ہے۔ اتنی ساری مٹھائی تحفے میں دی۔ روزانہ آئسکریم کھلاتا ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’بیٹا محبتوں میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔ یہ باٹنے سے بڑھتی ہیں۔‘‘

’’تم ایسا کرو تم تو کئی بنیائنیں لے کر آئے ہو جو استعمال نہیں کی ہیں ان میں سے ایک دے دو۔‘‘

’’ ایک ہی ہے وہ میں نے نادر کے لیے رکھی ہوئی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

میرے پاس ایک کی چین تھی جو میں نے لوک ورثے سے خریدی تھی۔ لکڑی کی کٹائی پر بڑی باریکی سے لوک ڈانسر اپنے ڈھول کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ آتے وقت میں نے اپنی چابیاں ڈال لی تھیں ’’یہ تو بہت اچھا ہوگیا۔‘‘ عزیز خوش ہوگیا۔

میں جب بھی کہیں جاتی ہوں تو ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں خرید لیتی ہوں۔ عزیز کہنے لگا،’’ایسا کرتے ہیں رومیؒ چلتے ہیں۔ وہاں سے رقص درویش کی کافی کی چین خرید لیتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کو گفٹ کروں گا۔‘‘ میں نے کہا،’’عزیز اب خیال رکھنا اب کبھی ہم کہیں جائیں گے تو اپنے ملک کے کلچر کے چھوٹے چھوٹے گفٹ ضرور ساتھ لے کر جائیں گے۔‘‘ وہ کہنے لگا،’’ہمارے بہن بھائی تو اتنے چھوٹے چھوٹے تحفوں سے خوش ہونے سے رہے۔ اتنی بڑی بڑی لسٹیں صبح شام آرہی ہیں اور ان کے بچے ان سے بھی آگے ہیں۔‘‘

’’یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ فرمائشیں آرہی ہیں اور اﷲ کا شکر ہے کہ ہم کسی کو کچھ دینے کے قابل ہیں۔‘‘

اس وقت ہم رومی ؒ کے ارادے سے نکلے تھے ۔ میں نے عزیز سے کہا،’’ ہم اس طرف جارہے ہیں پہلے Mavlna جائیں گے، پھر شاپنگ کریں گے۔ چوں کہ داخلی دروازہ کافی فاصلے پر تھا۔ اس لیے ہمیں بس یا ٹرام پر جانا پڑا تھا۔

آج Mavlna پر کل کی طرح رش نہ تھا۔ یہ سلجوق حکم راں کا گلاب باغ تھا جو انہوں نے مولانا کے والد کی تدفین کے لیے تحفہ کیا تھا۔ یہاں آکر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم قبرستان میں آئے ہیں۔ قبروں کے اوپر گلاب کھلے ہیں۔ چاروں طرف گلاب کی کیاریاں ہیں اور ایک عجیب بات ہے کہ چار قبریں ایک جگہ بنی ہیں تو دو ایک جگہ ہیں اور ذرا فاصلے پر کچھ قبریں ہیں مگر گلاب کے پودوں اور پھولوں کے درمیان بنی ہیں۔ یہ باغ جہاں اب مولانا کا مرقد اور مولانا میوزم بھی ہے کم از کم دس ایکڑ پر تو پھیلا ہوا ہوگا۔

ہم نے پہلے تو فاتحہ پڑھی، پھر رش کم ہونے کے بعد تمام تبرکات کو تفصیل سے دیکھا اور اس مدرسہ کا بھی وزٹ کیا جو پہلے مدرسہ تھا، اب میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ وہاں سے واپسی پر عزیز نے اپنی پسند کی شاپنگ کی جہاں سے ہم گزرے تھے ادھر جو شاپنگ مال تھا وہاں سونے اور گھڑیوں کی بہت دکانیں تھیں۔ سونا وہاں اپنے ملک سے بہت مہنگا تھا۔ گھڑیاں بھی بہت قیمتی اور ہر برانڈ کی تھیں لیکن بہت مہنگی تھیں، ہم تو صرف دیکھ سکتے تھے۔ گھومتے پھرتے تو احساس ہی نہیں ہوا کہ کیا وقت ہوا ہے۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ عزیز کا دل عزیزہ مسجد دیکھنے کا چاہ رہا تھا۔

ہم پیدل چلتے ہوئے عزیزہ آگئے۔ اس مسجد میں آگ لگ گئی تھی۔ اسے دوبارہ اسی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت خوب صورت مسجد ہے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے مغرب کی اذان ہوچکی تھی۔ لوگ جوق در جوق مسجد کی سمت آرہے تھے۔ اس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ عزیز نے تو مجھے سامان پاسپورٹ کا بیگ پکڑایا اور خود مسجد میں نماز پڑھنے چلاگیا اور میں ادھر برآمدے میں بنے خوب صورت سفید پتھر کی بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔

سامنے عزیزہ کا بازار تھا۔ جس میں سے دکان دار اپنی دکانیں چھوڑ کر نماز پڑھنے آگئے تھے اور ساری دکانیں خالی تھیں۔ انہوں نے شٹر وغیرہ نہیں گرائے تھے۔ مسجد کے برآمدے میں خاصا شور شرابا تھا کیوںکہ چھوٹے بچوں کی مائیں ان کے بچے اور پرام والے بچے بھی موجود تھے اور جہاں اتنے بچے ہوں وہاں خاموشی نہیں ہوسکتی، بے شک نماز کا ہی وقت کیوں نہ ہو جو لوگ نماز سے فارغ ہوکر آتے وہ سنبھال لیتے اور خواتین نماز کے لیے چلی جاتیں مگر شور شرابے میں کمی نہیں آرہی تھی۔ بچوں نے اس جگہ کو پلے گراؤنڈ سمجھ رکھا تھا، مگر یہ شور شرابا اچھا لگ رہا تھا۔

عزیز نماز ختم کرکے آگیا تو ہم اذکان کی دکان پر آگئے۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا مگر اذکان موجود نہیں تھا۔ عزیز نے کہا،’’اماں! ہم کھانا کھالیتے ہیں۔ ہوٹل چل کر پیکنگ بھی کرنی ہے۔‘‘ ہم نے وہیں کھانا کھایا اور ہوٹل واپس آگئے۔ عزیز نے کہا کہ میں پیکنگ فائنل کرکے ایک بار پھر اذکان کی شاپ پر جاکر دیکھ لوں گا یقیناً وہ آچکا ہوگا۔

اسی وقت ریسیپشن سے فون آگیا کہ آپ کے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان کو ڈائننگ ہال میں بٹھادیا ہے۔ ہم ڈائننگ ہال میں آئے تو اذکان ہمارا انتظار کررہا تھا۔

’’مجھے معلوم ہوا کہ تم ملنے آئے تھے تو میں نے سوچا کہ میں خود مل لیتا ہوں، تمہیں برا تو نہیں لگا اگر ہماری ملاقات نہ ہوتی تو بہت افسوس ہوتا۔‘‘

عزیز نے کہا،’’یہ تم نے اچھا کیا، اگر تم سے ملاقات نہ ہوتی ہمیں بھی افسوس ہوتا۔‘‘ عزیز نے اسے کی چین دی وہ اسے لے کر بہت خوش ہوا۔ وہ دکان چھوڑکر آیا تھا۔ اس لیے خدا حافظ کہہ کر چلاگیا، مگر قونیہ والوں کی محبت میں باندھ گیا۔

جب ہم ہوٹل آئے تھے تو ارحان بھی موجود نہیں تھا۔ ہم کیوںکہ بہت دیر سے سوکر اٹھے تھے اس لیے نیند بھی نہیں آرہی تھی ۔ پیکنگ بھی ہوچکی تھی۔ ہم نے گھر بات کرلی اور انہیں بتا دیا کہ صبح قونیہ سے روانگی ہے۔ اسی وقت نادر کا میسیج آگیا کہ میں نے کمرا ٹھیک کروا دیا ہے۔ انشاء اﷲ کل ملاقات ہوگی اور پروفیسر یوسف کا میسیج آیا تھا وہ تم کو بھی کسی وقت میسیج کریں گے۔ عایلا نے تم لوگوں کے لیے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا ہے۔

دوسرا میسج پروفیسر صاحب کا تھا صرف سلام دعا اور ہمارے لیے عایلا اور ان کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیاگیا تھا۔

نہ جانے کیا بات تھی کہ وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ چند دنوں میں قونیہ والوں نے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی۔ بے شک ہم بہت جگہ نہیں گئے تھے مگر قونیہ سے جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ اسی وقت ڈائننگ ہال سے ارحان کا فون آگیا،’’میں تمہارے لیے اسپیشل کباب لے کر آیا ہوں۔ جلدی سے ڈائننگ ہال میں آجاؤ اور اپنی ماں کو بھی لے آنا اکیلے مت آنا، میں انتظار کررہا ہوں۔‘‘

حالاںکہ ہم کھانا کھا چکے تھے مگر ارحان کے دعوت دینے کا طریقہ ایسا تھا کہ انکار کی گنجائش کہاں تھی۔

آج کھانے پر صرف ارحان اور ہم تھے۔ کچن میں کام کرنے والا کھانا لگا رہا تھا اور کام والا لڑکا بھی موجود نہیں تھا۔ کھانے میں کباب تھے اور کلچے جیسے روٹی تھی اور جس طرح ہمارے ہاں کشمش بادام اور بکرے کی بوٹی کا پلاؤ ہوتا ہے کچھ اس طرح کا بنا ہوا پلاؤ تھا جو بے حد مزے دار تھا۔ کباب تو اس قدر لذیذ تھے کہ ابھی تک منہ میں اس کا ذائقہ موجود ہے۔ پلاؤ بھی بے حد مزے دار تھا۔ عزیز نے تو کھانے سے خوب انصاف کیا اور میں نے اپنا پیٹ سمجھ کر کھایا، کیوںکہ پہلے ہی ہم کافی کھاکر آرہے تھے۔ کھانے کے بعد چائے پی کر کافی حد تک کھانا ہضم ہوگیا تھا۔ کمرے میں تو وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا مگر یہاں تو وقت کے پر لگ گئے تھے۔ گیارہ بج رہے تھے۔ ہم نے ارحان سے اجازت چاہی۔ عزیز نے اسے ڈائری دی تو اس نے عزیز کو گلے لگالیا۔

’’میرے بھائی تم مجھے میرا پسندیدہ تحفہ دیا ہے۔‘‘ اس نے ورق گردانی کرتے ہوئے کہا۔ کتنی خوب صورت ڈائری ہے۔ عزیز نے کہا،’’ہم پاکستان سے کچھ لے کر نہیں آئے تھے مگر یہاں سے قونیہ والوں کی محبت لے کر جارہے ہیں۔ تم نے اتنا بڑا ڈسکاؤنٹ دیا ہے۔ ایک دوسرے ملک میں اس ملک کی کرنسی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔‘‘

’’ اب جب تم لوگ دوبارہ قونیہ آؤگے تو اس سے بڑا ڈسکاؤنٹ ملے گا۔‘‘ اس نے محبت سے عزیز کی پیٹھ تھپکی۔

’’الوداع دوست میرے بھائی رابطہ رکھنا۔‘‘ ہم اس کی محبت سمیٹ کر اپنے کمرے میں آگئے۔ فاسٹ ٹرین کے روانگی کی ٹائمنگ ہر اسٹیشن پر ایک ہیں یعنی ساڑھے بارہ بجے اور شام ساڑھے تین بجے۔ ہم کو ساڑھے بارہ بجے کی ٹرین لینی تھی۔ اس لیے جتنی جلدی ہوا ہوٹل چھوڑ دیا مگر بس نے دس منٹ بعد اسٹیشن پر اتار دیا۔

یہ اسٹیشن انقرہ اور استنبول جیسا بڑا نہیں تھا۔ داخل ہوتے ہی بیگ کو چیکنگ سے گزار دیا گیا۔ سامنے ہی انتظار گاہ تھی اور وہیں کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ پلیٹ فارم پر ٹرین کھڑی ہوئی تھی۔ ہم ذرا جلدی آگئے تھے اس لیے کاؤنٹر کھلنے کا انتظار کرنا پڑا۔ انتظار گاہ میں کافی لوگ تھے، مگر ٹکٹ کاؤنٹر کافی تھے اس لیے ٹکٹ آسانی سے مل گئے۔ ہم نے اکانومی کلاس کے ٹکٹ لیے تھے جو کافی سستے تھے۔ قونیہ سے جب ٹرین چلی تو ہم نے کافی دیر تک ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسا کوئی اپنے وطن سے دور جارہا ہو۔ دل بہت اداس ہورہا تھا۔ کھڑکی سے قونیہ کے منظر غائب ہورہے تھے اور ہم ان کو ایک فلم کی طرح دیکھ رہے تھے۔ ہرے بھرے گلابوں سے بھرے باغات ، سرسبز میدان اور سورج مکھی کے کھیت آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہورہے تھے۔ ہم تو جب چونکے جب ایک ٹنل سے گزرے۔ یہ ٹنل زیادہ بڑی نہ تھی۔ اس کا مطلب تھا ہم قونیہ کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ سامنے اسکرین پر کسی شہر کا نام چمک رہا تھا۔ یہ کوئی اسٹیشن تھا جہاں گاڑی رکتی تھی۔ ہمارے ساتھ دو سیٹیں خالی تھی۔ یہاں ایک جوڑا آکر بیٹھا تھا۔ دونوں نے ہم کو مسکرا کر دیکھا۔

ٹرین چلتے ہی اس نے ہم کو سلام کیا۔ نام بتایا اور اپنا موبائل کھول کر اس کو ہمارے سامنے کردیا تھا۔ ’’میرا تعلق چین سے ہے اور یہ میری بیوی ہے، یہ ازبک ہے، لیکن میں چار سال سے ازبکستان میں ہی رہتا ہوں، میں انجینئر ہوں کیا آپ لوگ پاکستانی ہیں؟‘‘ عزیز نے اس کے موبائل میں لکھ دیا۔ جی ہم پاکستانی ہیں وہ تو خوش ہوگیا اس نے اپنی بیوی سے کچھ کہا۔

پھر اپنے موبائل پر لکھا،’’میں بہت عرصہ پاکستان میں کام کرچکا ہوں۔ پھر میرا دو سال کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تو میں ازبکستان آگیا، یہاں میں نے شادی کرلی۔ میں مسلمان ہوں اور میری بیوی بھی مسلمان ہے۔ ہم استنبول جارہے ہیں حضرت ایوب انصاریؓ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تم لوگ بھی اسی لیے جارہے ہو؟‘‘

عزیز نے بتایا کہ ہم ان کی زیارت کرچکے ہیں اگر موقع ملا تو دوبارہ جائیں گے۔ کچھ شاپنگ کرنی ہے پھر اتوار کو واپسی ہوگی۔ اس کی بیوی نے اپنے موبائل پر اپنے بچوں کی تصویریں کھول کر دکھا دیں جو اپنی نانی کے پاس چھوڑ کر آئے تھے۔ پھر اس نے بچوں کو ویڈیو کال کی پھر ویڈیو پر بھی اپنے بچے دکھائے۔

ماں باپ اپنے بچوں سے بات کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ ہماری اداسی بھی ان سے بات چیت کرکے کچھ کم ہوگئی تھی۔ قونیہ اور استنبول کے راستے میں کئی ایک سرنگیں آتی ہیں بعض سرنگیں تو اتنی لمبی تھیں کہ کافی دیر فاسٹ ٹرین 150میل کی رفتار سے اس سرنگ میں چلتی رہی لیکن وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ جب بھی ایک سرنگ ختم ہوتی تو اندازہ ہوتا کہ تمام علاقہ مائننگ کا علاقہ ہے جہاں سے ٹرین گزر رہی تھی وہاں جو چھوٹے بڑے شہر یا گاؤں نظر آئے۔ وہ بہت خوب صورتی اور ترتیب سے بنے ہوئے تھے اور نظروں کو بہت اچھے لگ رہے تھے۔ یہ راستہ استنبول سے انقرہ کے راستے سے یکسر مختلف تھا مگر جوں جوں استنبول قریب آرہا تھا تو ہماری ٹرین سمندر کے قریب ہوتی جارہی تھی۔ میں نے اور عزیز نے ایک جیسے منظر سے اکتا کر ایک نیند لے لی تھی۔

اب جو منظر بدلنے لگے تو پھر ہم کھڑکی سے باہر کے منظر دیکھنے لگے۔ یہ استنبول سے پہلے کوئی انڈسٹریل شہر تھا جہاں کچھ دیر کو ٹرین رکی تھی۔ کچھ لوگ یہاں اترے بھی تھے۔ ٹرین نے پھر رفتار پکڑی تو پھر Sogutlucesmeکے اسٹیشن پر جاکر رکی۔ یہاں سے ہم نے انقرہ کے لیے فاسٹ ٹرین لی تھی۔ اس لیے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب میٹرو کہاں سے ملے گی۔ جو ایک سرائے تک جائے گی۔

نادر نے ہم کو راستہ سمجھا دیا تھا اور لوکیشن بھی بھیج دی تھی۔ یہ ہوٹل یک سرائے کا مشہور ہوٹل تھا۔ کافی بڑا اور خوب صورت بنا ہوا تھا۔ ہم اب تک جتنے ہوٹل میں ٹھہرے تھے ان سب سے شان دار تھا۔ نادر ہم کو ریسیپشن پر مل گیا۔ یہ کئی منزلہ ہوٹل تھا مگر آسانی یہ تھی کہ لفٹ موجود تھی۔ ہوٹل کا ریسیپشن ایریا بھی بہت بڑا تھا۔ عزیز انٹری وغیرہ کروارہا تھا اور میں ادھر صوفوں پر بیٹھ گئی۔ ایک لڑکے نے میرے سامنے چائے لاکر رکھ دی اور ساتھ ایک پانی کی بوتل بھی۔

جتنی دیر میں عزیز واپس آیا میں اپنی چائے ختم کرچکی تھی۔ ہم اس چائے والے لڑکے کے ساتھ ہی اوپر کمرے میں آگئے۔ یہ دوسری منزل کا کمرا تھا مگر بہت ہوادار اور کھلا ہوا تھا۔ ایک ڈبل اور ایک سنگل بیڈ ، ٹی وی اور فرج ہر طرح کی سہولت موجود تھی ابھی ہماری ہمت کھانا کھانے کے لیے جانے کی نہیں تھی۔

پھر جو ہم سوئے تو رات آٹھ بجے آنکھ کھلی۔ تیار ہوکر آئے تو معلوم ہوا ابھی تو استنبول میں زندگی پوری طرح بیدار ہے۔ اپنے شہر کراچی کی طرح جہاں زندگی رات کو بھی جاگ رہی ہوتی ہے اور یہ تو ایک سرائے تھا۔ استنبول کا مصروف ترین علاقہ اب ہم یہاں اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں