6

والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق

[ad_1]

 بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔   فوٹو : فائل

بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

دین اسلام میں والدین کیساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔ یعنی مخلوق خدا میں والدین کے حق کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے۔

اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے، اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے ، غرض ر شتے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں۔

ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میںاپنی بندگی اور ا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں، ترجمہ ’’ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔

چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا: اے ہمارے پروردگار! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ الاسراء23) اس آیت کریمہ میں اللہ جل جلالہٗ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں۔

انہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ’’ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطا عت جائز نہیں۔

سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اُن کا کہنا مت ماننا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے بڑھاپے کو ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں بڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو ’’اُف‘‘بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا، روایات میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔

البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہو جاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسن سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے۔

ان کو’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا، میں نے عرض کیا پھر کونسا؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا، میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا (بخاری شریف970مسلم شریف 85) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر (بخاری شریف 5972) دوسری روایت میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میں ہجرت اور جہاد پر آپﷺ کی بیعت کرتا ہوں اور میں اس پر صرف اللہ تعالی سے اجر کا طلبگار ہوں، آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی موجود ہے؟

اس نے عرض کیا جی ہاں دونوں زندہ ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا اپنے ماں باپ کے پاس واپس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (مسلم شریف 2549) حضرت معاویہ بن جاھمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے (نسائی جلد 2 3104, ابن ماجہ 2781) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟

انہوں نے عرض کیا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا جاؤ انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے (طبرانی جلد 2-ص 289،الترغیب والترہیب 2485) حضور نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو بدنصیب قرار دیا جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پا کر بھی جنت میں داخل نہ ہو سکے، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا! اس شخص کی ناک خاک میں ملے، اس شخص کی ناک خاک میں ملے،اس شخص کی ناک خاک میں ملے (تین مرتبہ فرمایا) پوچھا گیا اے اللہ کے رسولﷺ! کس کی (ناک خاک میں ملے)؟ تو آپﷺ نے فرمایا جس نے ماں باپ دونوں کو یا اُن میں سے کسی ایک کو بحالتِ بڑھاپا پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہو سکا (یعنی انکی خدمت کر کے یا اُنہیں راضی رکھ کر جنت کا حقدار نہ بن سکا) (مسلم شریف 2551) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’نہیں ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔

حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبر پر جلو افروز ہوئے اور آپﷺ نے تین مرتبہ (آمین) فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل (امین علیہ السلام) آئے اور انہوں نے آ کر کہا اے محمد ﷺ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان) میں سے کسی ایک کو پائے (پھر ان سے نیکی نہ کرے) پھر وہ مر جائے اور جہنم میں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔آپ ﷺکہیں آمین تو میں نے کہا آمین، پھر انہوں نے کہا اے محمدﷺ! جس شخص نے ماہ رمضان پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اسکی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا تو اللہ اسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔ آپ ﷺ کہیں آمین ، میں نے کہا آمین، انہوں نے کہا کہ جس شخص کے پاس آپ ﷺ کا ذکر کیا گیا اور اُس نے آپ ﷺ پر درود نہیں پڑھا پھر اُسکی موت آگئی اور وہ جہنم میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے ۔ آپﷺ کہیں آمین تو میں نے کہا آمین (ابن حبان ج 3,صفحہ 188, 907 -صحیح الترغیب والترھیب 2491) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جن کے والدین زندہ ہیں ان کو اپنے والدین کی خدمت کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں