[ad_1]
نائن الیون کے واقعہ کے فوراً بعد امریکی صدر جارج بش نے ہمارے اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف سے ایک پیغام کے ذریعے یہ سوال کیا تھا کہ ’’ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن!‘‘ جس کے جواب میں ہم نے ایک عظیم اور مخلص دوست کی طرح اپنا تن من دھن سب اس پر وار کردیا تھا۔ ہم نے نہ صرف اُسے افغانستان میں حملوں کے لیے راہداری فراہم کی بلکہ اپنے ہوائی اڈے اور بندرگاہیں بھی اس کے استعمال میں دے دیں۔
دہشت گردی کی نام نہاد عالمی جنگ میں اس کے ہراول دستے کے طور پر شرکت کرتے ہوئے اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیا۔ نتیجے میں ہمیں کیا ملا۔ تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین اور بم دھماکے اور خود کش حملے۔ دس پندرہ سالوں تک ہم ایک انتہائی غیر محفوظ ملک اور قوم کے طور پر جانے پہچانے گئے، ہماری تمام معاشی اور اقتصادی کارروائیاں جمود کا شکار ہوگئیں۔ دنیا کے لوگوں نے ہمارے ملک کا سفر مکمل طور پر متروک کردیا یہاں تک کے اسپورٹس کے مقابلے بھی ہمارے یہاں منعقد نہیں ہوسکے۔
ہمارے ستر ہزار افراد اپنی جانوں سے گئے اور ملک نہ صرف اقتصادی طور پر کنگال ہوگیا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں اور ملکوں کا مقروض ہوگیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہم نے ایک لمحہ بھی چین و سکون کا نہیں گزارا۔ بیس بائیس سال ہوچکے ہم ابھی تک اس دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہونے کے نتائج اور خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ امریکا جس کے کہنے پر ہم نے ایک انتہائی مخلص دوست کی طرح اپنی زمین اس کے حوالے کردی تھی وہ اس جنگ کے بعد ایسے منحرف ہوا کہ پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔ ہمیں معاشی طور پر کمزور کرکے وہ خود تو الگ ہوگیا اور ہمیں اس جنجال میں نبرد آزما ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ گیا۔
آج ہمارے پڑوسی ملکوں میں سے کوئی بھی ہمارا دوست نہیں ہے۔ افغانستان بھی ہمیں اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے اپنے آپ کو اس گرداب سے نکالنا شروع کیا تو ایک بار پھر امریکا ہماری ترقی و خوشحالی کی راہوں میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوگیا۔ ہم نے اپنے اطراف کے ملکوں کے ساتھ اپنے روابط بہتر بنانے شروع کیے تو وہ ہمیں پھر آنکھیں دکھانے لگا۔ ہم اپنے توانائی اور دیگر بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اگر کچھ ملکوں سے معاہدے کرتے ہیں تو وہ ہم پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دینے لگتا ہے۔ ایران ہمارا پرانا ہمسایہ ہے۔
اس کے ساتھ ہمارے مذہبی اور دیگر رشتے استوار ہیں۔ انڈیا اگر اس کے ساتھ تجارت کرے یا چاہ بہار راہداری منصوبہ بنائے تو امریکا کو کوئی اعتراض نہیںہوتا، لیکن ہم اگر گیس لائن منصوبے پر عملدرآمد کرنا چاہیں تو اُسے تکلیف ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم نے اگر اس معاہدے کو مکمل نہیں کیا تو ہم پر 18ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی پتا نہیں کیا مجبوری ہے کہ اس سے معاہدے کی خلاف ورزی پر اس سے اس جرمانے کی رقم کا تقاضہ بھی نہیں کرتے۔
ہم نے آج سے چالیس سال قبل جنرل ضیاء الحق کے دور میں چالیس F-16 طیاروں کی فراہمی کا ایک معاہدہ کیا تھا اور ان کے رقم بھی کمپنی کو ادا کر دی تھی، مگر ہمارے اسی دوست نما دشمن کی وجہ سے وہ ہمیں آج تک نہیں مل سکے۔ وہ طیارے تیار ہونے کے بعد کئی سالوں تک ہینگرز میں کھڑے رہے اور کمپنی نے ان ہینگرز کا کرایہ بھی ہم سے وصول کیا۔ بعد ازاں امریکا نے ہمیں اُن طیاروں کے بدلے ہمیں بلاضرورت گندم لینے پر راضی اور رضامند کر لیا۔ طیاروں کے بدلے گندم لینے کا بے ہودہ مذاق دنیا میں شاید ہی کسی قوم کے ساتھ کیا گیا ہو۔ امریکا جب چاہتا ہے ہم پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے دوستی اور محبت کا بھرم بھرنے لگتا ہے۔
کبھی کم عمربچوں سے مزدوری کروانے کے جرم میں یا کبھی FATA کے ذریعے گرے لسٹ میں رکھ کر۔IMF بھی مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں ہے، وہ اسے بھی ہمارے جیسے کئی مجبور اورلاچار ممالک کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ہم جب بھی ترقی کی راہ پر نکل پڑتے ہیں اور IMF کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو وہ ہماری منتخب جمہوری حکومت کو ڈی ریل کر کے ایک بار پرIMF کے قدموں میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اُسے ہمارا نیوکلیئر منصوبہ اور سی پیک پروجیکٹ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ مکمل ہوگیا تو پاکستان اس کی گرفت سے باہرنکل جائے گا اور پھر اسے قابو کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہوجائے گا۔
اسی لیے وہ اسے مکمل ہونے ہی نہیںدیتا۔ اسی طرح ایران کے ساتھ گیس لائن منصوبہ بھی ہماری معیشت کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وہ اسی لیے اس کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ ایران کے ساتھ دیگرممالک تجارت کریں تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن پاکستان اگر ایران کے صدر کو اپنے ملک میںخوش آمدید کہے تو یہ اس پر بار گراں گزرتاہے اوروہ فوراً ہمیں تنبیہ کرنے لگتا ہے، ہم اگر روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے لگیں تو بھی وہ ہمیں دھمکیاں دینے لگتاہے۔
ہمارے حکمران اگراس کی اِن دھمکیوں کو خیال خاطرمیں نہ لائیں تو وہ انھیں پھرمزید رہنے بھی نہیں دیتا۔ انھیں اقتدار سے معزول کردیتا ہے یا پھرانھیں دوسری دنیا میں پہنچا دیتاہے۔ خیال کیاجاتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی عوامل کارفرما تھے اورجنرل ضیاء کے طیارے کا حادثہ بھی کچھ ایسی وجوہات کا شاخسانہ ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اِن دونوں سانحات کی تحقیقات مکمل نہ ہونے دی جاتیں۔ امریکا نے اپنے سفیرآرنلڈ رافیل کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کی اس ناگہانی موت کی کوئی تحقیقات ہونے نہ دی۔ایسا عام حالات میں ہوتا نہیں ہے کہ امریکا اپنے کسی شہری کی موت کی وجوہات معلوم نہ کرے، یہ تو پھر بھی ایک اہم شخص تھا۔
پاکستان نے اپنے معرض وجود کے دن سے لے کر آج تک امریکا سے اپنی دوستی اور محبت کے اصول اور ضوابط نبھائے ہیں، یہ امریکا ہی ہے جوکبھی کبھار یا اکثر اِن اصولوں پر عمل کرنے سے انکارکر دیتا ہے۔ ہم نے تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس سے محبت اور دوستی نبھائی ہے، وہ چاہے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہو یا پھرایک سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجرکی چین کے حکمرانوں سے ملاقات کا اہتمام، پاکستان نے ہمیشہ خود کو ایک مخلص دوست ہی ثابت کیا ہے۔ مگریہ امریکا ہی ہے جس نے ہم سے اپنے تعلقات نبھانے میں ہمیشہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔
آج اسے افغانستان میں ہماری مدد کی ضرورت نہیں رہی تو وہ ہمیں اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ کل اگر اسے پھر ہماری ضرورت پڑگئی تو وہ ایک بار پھر ہم سے دوستی اورمحبت کے تقاضے کرنے لگے گا۔ ہم جب تک معاشی طور پر اس کے مجبور رہیں گے وہ ہم سے اسی طرح کا برتاؤکرتا رہے گا۔2017 میں سی پیک منصوبے پر تیزی سے عمل کرنے کی وجہ سے ہم اس کے چنگل سے نکلنے لگے تھے مگر سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اس نے ہمارا یہ خواب چکنا چورکر دیا اور قوم چند ڈالروں کی امداد اورقرض کے لیے دوسروں کی محتاج ہوکر رہ گئی۔
امریکا کی اس کامیابی میں ہمارے یہاں کس کس نے مدد فرمائی ہے اُن لوگوں کو اپنا احتساب خودکرنا ہوگا۔ ذاتی چپقلش اورعناد کواس حد تک نہیں بڑھایا جائے کہ یہ ملک ہی تباہ وبرباد ہوجائے۔ خدارا اپنے اصل دشمن کو پہچانیے جس نے آج تک آپ کو ترقی کرنے نہ دی اورہر چند سال بعد سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اپنا محتاج اورمجبور بنا دیتا ہے۔
[ad_2]
Source link