[ad_1]
9مئی پھر آ رہا ہے ۔ پھر سے زخم ہرے ہو رہے ہیں اور تلخ یادیں بھی ۔اِن المناک یادوں اور زخموں میں پھر سے اسیر رہنما کا چہرہ اُبھر رہا ہے۔
ایک نون لیگی سینیٹر کا کہنا ہے:’’پی ٹی آئی دباؤ بڑھا کر 9مئی کی غارت گری کو عفوو درگزر کا جامہ زیبا پہنانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی بخوبی جانتی ہے کہ اُسے یہ خیرات کس گھر سے ملے گی۔‘‘ مولانا فضل الرحمن میدان گرم کرنے کے لیے پھر سے میدان میں ہیں۔احساسِ شکست مولانا کو چَین نہیں لینے دے رہا۔
ایسے میں حکومتی ایوانوں میں اور بیرونِ حکومت کچھ پخت و پز بھی ہو رہی ہے۔9مئی کا سانحہ ہنوز سلگ رہا ہے ، لیکن اِس کے باوصف ہر کوئی اسیر رہنما و بانی پی ٹی آئی سے آگے بڑھ کر مصافحہ و معانقہ کرنا چاہتا ہے۔منتخب حکمران بھی اُن سے مکالمے کے متمنی ہیں اور مبینہ طور پر غیر منتخب قوتیں بھی اور دولتمندتاجر طبقہ کے نمائندگان بھی۔ امریکا نے بھی اپنی تازہ ترین ’’عالمی انسانی حقوق رپورٹ‘‘ میں اسیر بانی پی ٹی آئی کے بارے میں حمایتی گوشہ اختیار کیا ہے۔
کراچی میں جناب شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ تاجروں اور صنعتکاروں کی کانفرنس میں بھی اُن کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔
وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے مگر ابھی تک اس سفارش کا کوئی باقاعدہ اور مبسوط جواب نہیں دیا ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ خان صاحب کے دَور میں جب نواز شریف ، شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز قیدی بنائے گئے تھے تو کوئی ایک کاروباری ایسا مشورہ لے کر اسیر رہنماؤں کے ریسکیو کے لیے آگے نہ بڑھا تھا ۔ اِس حوالے سے بانی پی ٹی آئی نہایت خوش قسمت واقع ہُوئے ہیں۔ ماضی قریب کی اِن تلخیوں کے باوصف شہباز شریف صاحب مفاہمت کی راہ میں سدِ راہ نہیں بنانا چاہتے ۔
وہ تو پہلے ہی اپنے کرداروافعال سے بانی پی ٹی آئی سے مصافحے اور معانقے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے لیے شہباز شریف صاحب کی طرف سے میثاقِ معیشت کی بازگشت ابھی تک فضا میں ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے لیے ، مفاہمت ہی کے ضمن میں نون لیگی قائد،جناب نواز شریف، کی طرف سے بھی کوئی کٹی نہیں ہے۔
نئے پیش منظر میں جناب نواز شریف کی سوچوں اور فکرکی نمائندگی کرتے ہوئے نون لیگی سینیٹر، عرفان صدیقی صاحب ،نے کہا ہے کہ عمران خان ہم سے بات کریں۔اُن کے الفاظ یوں ہیں:’’ عمران خان اگر محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کر سکتے ہیں تو ہم سے کیوں نہیں؟‘‘۔ بانی پی ٹی آئی سے مفاہمت و مصالحت کے لیے اِس سے بڑھ کر اور کیا خواہش ہو سکتی ہے؟ خان صاحب تو محمود خان اچکزئی کی نقلیں بھی اُتار چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن صاحب کو قابلِ اعتراض القابات سے بار بار یاد کرکے اُن کا دل دکھا چکے ہیں۔
اب اسیر خان صاحب کی مگر بوجوہ کایا کلپ ہو گئی ہے۔مگر فریقِ ثانی، حکمران نون لیگ اور اقتدار کے حاشیے پر کھڑی پیپلز پارٹی،سے مکالمے اور معانقے کے لیے اپنا سینہ اور ہاتھ آگے بڑھانے پر بظاہر تیار نظر نہیں آرہا۔ بانی پی ٹی آئی کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے جہاں اُن کی حکومت کے خاتمے پر تھا: میں تو اصل طاقتوروں اور اصل حکمرانوں سے بات کروں گا۔مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر، جناب شہر یار آفریدی، کا یہ بیان : ’’ہم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تین ناموں (امین گنڈا پور،عمر ایوب،شبلی فراز) کی منظوری دے دی ہے۔ اصل حکمران مگر فی الحال ان سے ہمکلام ہونے پر تیار نظر نہیں آتے کہ اسیر خان صاحب نے اُنہیں ناراض کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کوئی احتیاط برتی نہ زبان پر پہرہ بٹھایا۔اُن کے ہاتھوں سے اعتبار و اعتماد کی ساریں دیواریں مسمار ہو چکی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ’’ اصل حکمرانوں ‘‘سے بھی ہمکلام ہونے کا راستہ تب ہی کھلے گا جب ’’ثانوی حکمرانوں‘‘ سے بات چیت شروع ہوگی۔ درمیان داروں کی مگر کوشش یہی ہے کہ اسیر رہنما سے بات چیت کا کوئی دروازہ،کوئی کھڑکی کھلے۔ تناؤ میں کمی آئے۔محاذ آرائی ٹھنڈی اور مدہم پڑے۔مگر اسیر رہنما کی قیادت میں فریقِ ثانی محاذ آرائی ہی میں اپنی مقبولیت اور بقا دیکھ رہا ہے۔
درمیان داروں کی مگر پھر بھی کوشش ہے کہ سلسلہ جنبانی آگے بڑھے۔ مثال کے طور پر مبینہ ’’ خیر خواہوں‘‘ کی کوشش۔ ایک انگریزی معاصر نے اگلے روز یہ خبر اُڑائی کہ ’’ تین خیر خواہوں کا ایک گروپ، جس میں دو سابق وفاقی وزراء اور ایک ریٹائرڈ جنرل شامل ہے، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے اسیر رہنما میں صلح یا مفاہمت کرانے یا اختلافات کے خاتمے کے لیے متحرک ہو چکا ہے ۔‘‘ کہنے اور سُننے کو تو یہ فیلر اچھا لگتا ہے ۔ اِس کے مبینہ عزائم بھی مستحسن ہیں، مگر ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے تبصرہ کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’خیر خواہوں‘‘ کا یہ مبینہ گروپ سرے سے ہے ہی نہیں ۔ یہ دراصل ایک ہوائی ہے جو دانستہ اسیر رہنما کے ہمنواؤں اور چاہنے والوں کی جانب سے اُڑائی گئی ہے ۔
لیکن جہاں آگ دہکتی ہے، وہیں سے دھواں بھی نکلتا ہے ، کے مصداق اسیر رہنما ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین صلح اور مفاہمت کی کوششوں کی مذکورہ بالا کوششیں اتنی بھی بے بنیاد اور بلاوجہ نہیں ہیں ۔جب سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر جناب اسحق ڈار اپوزیشن ( بمعنی پی ٹی آئی ) کو پیشکش کرتے ہُوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’ آیے ، ہمارے ساتھ مل بیٹھیں تاکہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالا جا سکے‘‘ تو اِس آفر کو کیا نام دیا جائے ؟ حکومت اور حکومتی شخصیات کی اِن مفاہمانہ کوشش میں اسحاق ڈار تنہا نہیں ہیں ۔ کئی دیگر نون لیگی قائدین بھی اِس میں برابر کے شریک ہیں ۔
مثال کے طور پر نون لیگ کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ ، نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں کہا ہے: ’’سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف ملک کی خاطر کل بھی عمران خان سے مذاکرات کے لیے آمادہ تھے اور آج بھی ہیں۔ نواز شریف نے اُس وقت بھی عمران خان سے بات چیت کی تھی جب اُنہوں نے نواز شریف حکومت کے خلاف126دنوں کا دھرنا دیا تھا‘‘ ۔
گویا اسیر رہنما سے مفاہمت کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی ’’ٹِل مَٹھ‘‘ نہیں ہے ۔ ان کوششوں میں ’’تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘‘ کے سربراہ ، محمود خان اچکزئی ، بھی شامل ہو گئے ہیں ۔
اُنہوں نے اگلے روز کہا: ’’ شہباز شریف کہتے ہیں کہ تعاون ہونا چاہیے ، لیکن مَیں کہتا ہُوں کہ آیئے دو دو نمائندے منتخب کریں اور بیٹھ کر بات کریں ۔ تحریکِ انصاف سے مَیں نے اِس ضمن میں ابھی بات نہیں کی ہے ، لیکن مَیں اُنہیں (مصالحت کے لیے ) آمادہ کر لُوں گا ۔‘‘اِس سے بڑھ کر مثبت بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ ستم ظریفی کی بات مگر یہ ہے کہ جس روز محمود اچکزئی صاحب نے یہ بات کہی، اُس کے اگلے روز ہی کوئٹہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے، ایک پرانے مقدمے میں عدم حاضری کے باعث، محمود خان اچکزئی صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ،جو اگلے روز ہی منسوخ کردیے گئے۔
[ad_2]
Source link