12

قصور گندم کاشتکاروں کا ہے!

[ad_1]

انور مسعود ہمارے عہد کے مشہور ترین مزاحیہ شاعر ہیں۔ ان کا ایک ضرب المثل کی طرح مشہور شعر ہے ؎

پپو سانوں تنگ نہ کر

بڑے ضروری کم لگے آں

تے سوچی پئے آں

ہن کیہ کریئے

(دوست ہمیں تنگ نہ کر، ہم بہت ضروری کام کر رہے ہیں یعنی سوچ رہے ہیں کہ اس فارغ وقت میں اب کیا کریں)

پنجاب حکومت اور پنجاب کے گندم کاشتکار بھی بیک وقت اسی الجھن سے دو چار ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت بلا تاخیر معمول کے مطابق امدادی قیمت یعنی 3900 روپے سکہ رائج الوقت فی من ان سے گندم خریدے۔ گندم کی بھرپور فصل ہوئی ہے۔ کاشتکار کے اخراجات اور منافع سب گندم کی بورؤں میں بند ہے۔ وقت اور دستور کے مطابق حکومت ان سے گندم خریدے اور کسانوں کی دعائیں لے۔

دوسری جانب پنجاب حکومت اس ادھیڑ بن میں ہے کہ گندم کی اچھی فصل ہوگئی ، اچھی بات ہے لیکن حکومت کے گلے جاتی نگران حکومت تیس لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی گھنٹی باندھ گئی تھی۔ یہ گھنٹی اسے نئی فصل کی گندم خریداری کے ہاں میں سر ہلانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت میں جہاں دیدہ اور کاروبار کو سمجھنے والے لوگ بیٹھے ہیں۔

انھیں اندازہ ہے کہ حکومت کے گودام بھرے ہوئے ہیں۔ نئی گندم کے لیے رقم کہاں سے لائیں؟ اسٹوریج کی جگہ کا مسئلہ ہے. چلیے یہ مسائل بھی سلجھا لیں تو بقول وزیر خوراک پنجاب کے موسم میں نمی کا تناسب 18/19فیصد ہے۔ یہ نمی گندم میں بھی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ حکومت اتنی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی کہ اس قدر زیادہ نمی والی گندم اٹھا کر گھر لے آئے اور گھاٹا کھائے۔ حکومت سوچے گی سمجھے گی کہ کیا اور کیسے کرنا ہے، جلدی کیا ہے!

وفاقی حکومت کو کسانوں کی پریشانی کا علم ہوا تو وزیراعظم نے کمال شفقت اور اپنی شہباز اسپیڈ کی مناسبت سے پاسکو کو حکم دیا کہ فی الفور گندم خریداری شروع کی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے خریداری کا ٹارگٹ بھی بڑھا دیا لیکن کسان اتنے عمدہ اور دلپذیر بیان پر شاداں و فرحاں ہو کر لمبی تان کر سونے کے بجائے لاہور پنجاب اسمبلی کے سامنے مطالبات کے حق میں دھرنا دینے نکل کھڑے ہوئے۔ نہ صرف لاہور بلکہ کئی دوسرے بڑے شہروں میں بھی مظاہروں پر تل گئے۔

یہی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی تو کسان مظاہرین کے صدقے واری جاتی لیکن اب تو وہ خود حکومت ہے۔ سو،قانون حرکت میں آنا مجبوری اور ضروری ہو گیا۔ گندم خریداری کا فیصلہ تو نہ ہوسکا لیکن ان مظاہرین میں سے بیشتر کی حوالات منتقلی کا فیصلہ ضرور ہو گیا۔

بحران اور تنازعات سے نمٹنے یا بقول کسے دل جان چھڑانے کا ہر حکمران کا اپنا اپنا طریقہ کار ہے۔ پاکستان کے درویش مزاج اور مرنجان مرنج گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وہ متنازعہ معاملے کی فائل اپنی میز پر فیصلے کی منتظر فائلوں کے ڈھیر میں سب سے نیچے رکھ دیتے۔ ؤں اس فائل پر ’’ غور و خوض کا وافر وقت مل جاتا ‘‘۔

قابل فیصلہ نئی فائلوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا اور وہ فائل اپنی باری کی منتظر رہتی تاوقتیکہ تنازعہ یا فیصلہ طلب بحران اپنے قدرتی انجام کو پہنچ جاتا۔ ہر حکومت کو وقت کی یہ لگژری اس قدر وافر میسر نہیں ہوتی اس لیے خواجہ صاحب کی اتباع کا موقع نہیں ملتا۔ وقت میسر بھی ہو تو بھی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے، اس لیے حکومتوں کے پاس تیر بہدف نسخہ کمیٹی بٹھانے کا دریافت کر لیا گیا۔ ہر موسم اور بحران میں یہ نسخہ ہر حکومت کے لیے اکسیر ثابت ہوتا ہے، یہی نسخہ موجودہ حکومت کے بھی کام آ رہا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کو جب اندازہ ہوا کہ موجودہ حکومت کے پہلے ماہ کے دوران تقریباً سات لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد ہوئی تو انھوں نے فوراً نوٹس لینے کا فیصلہ کیا۔ فروری 2024ء کے بعد بھی گندم کی درآمد جاری رکھنے پر تحقیقات کا حکم دے دیا۔

گندم کی درآمد جاری رکھنے اور ایل سیز کھولنے کے ذمے داروں کے تعین کی ہدایت کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ کمیٹی گندم کا وافر اسٹاک موجود ہونے کے باوجود درآمد جاری رکھنے کے ذمے داروں کا تعین کرے گی۔

اس سے پہلے گزشتہ روز ہی نگران دور حکومت میں امپورٹ کی جانے والی گندم کے حوالے سے قائم اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی نے وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل فوڈ سیکؤرٹی ،خزانہ اور تجارت کی وفاقی وزارت گندم امپورٹ کے بارے میں اپنی ذمے داریاں کماحقہ ادا نہیں کر سکیں۔

مانیٹرنگ میں غفلت کی گئی، ملک میں موجود 44 لاکھ ٹن سرکاری گندم اسٹاکس کی فوری نکاسی کے بجائے امپورٹ پر توجہ دی گئی۔وفاقی و صوبائی حکام نے ملک میں گندم کی قلت کا غلط تخمینہ لگایا۔ امپورٹ کو لامحدود کرنے سے موجودہ بحران کی بنیاد پڑی۔رپورٹ کے مطابق غلط منصوبہ بندی، بد انتظامی اور غفلت کی بنیادی ذمے داری وفاقی محکمہ پلانٹ پروٹیکشن پر عائد کی گئی۔

دوسری جانب فیڈریشن آف چیمبرز کے سربراہ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ حکومت نجی سیکٹر کے امپورٹرز کو بلا وجہ پریشان نہ کرے جن کی مہربانی کی وجہ سے گندم کی سپلائی اور ڈیمانڈ میں توازن قائم ہوا۔ان کے بقول گندم امپورٹ کا فیصلہ نگران حکومت نے خوب ٹھونک بجا کر کیا تھا، اب بلاوجہ بحران کی ذمے داری زائد امپورٹ پر تھوپی جا رہی ہے، انکوائری کی آڑ میں معصوم امپورٹرز کو بلا وجہ ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

یہ نکتہ قابل غور ہے کہ پنجاب حکومت اور پردھان وفاقی حکومت کی آنیاں جانیاں، بحران کی وجوہات جاننے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا جذبہ اپنی جگہ قابل قدر ہے لیکن مجال ہے کہ خریداری کا پرنالہ ہلنے کا کہیں کوئی ذکر ہو۔ کسان اپنی جگہ پریشان ہیں لیکن حکومت کی اپنی پریشانی بھی کم نہیں۔

حکومت ’’بحران کی پیدائش‘‘ کے بنیادی مسئلے پر اتنی پریشان اور الجھی ہوئی کہ سائنس دان پہلے مرغی یا انڈے کے مسئلے پر کیا پریشان ہوئے ہوں گے ! انکوائری کمیٹؤں کی پھرتیاں اور اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں ’’غور و خوض‘‘کے سیشن پر سیشن ہو رہے ہیں۔ عام آدمی کا دل حکومت کی اس درد مندی کو دیکھ کر پسیج گیا ہے لیکن کسان ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ باردانہ دو، خریداری کرو، برداشت ہو چکی فصل امدادی قیمت پر کسان کے ہاں سے اٹھاؤ۔

اب کسانوں کو کون سمجھائے کہ’’ہن کیہ کریئے‘‘کا مسئلہ ؤں چٹکیاں بجاتے حل نہیں ہو سکتا۔ سرکار کا اپنا ایک طریقہ کار ہے، اجلاس ہو رہے ہیں، کمیٹیاں انکوائریاں کر رہی ہیں، غور و خوض ہو رہا ہے، کسان اپنی باری کا انتظار کریں۔ اگر اتنی جلدی مچانی تھی تو نگران حکومت کو گندم امپورٹ نہ کرنے دیتے یا گندم کی فصل اتنی زیادہ نہ اگاتے۔ غلطی اپنی اور اب حکومت پر چڑھائی۔۔ توبہ توبہ!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں