[ad_1]
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل19 میں واضح طور پر آزادی اظہار اور اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں، ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پاکستان ایئر فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
بلاشبہ آرمی چیف کی ایسی یقین دہانی مثبت اور قابل تحسین ہے۔ یہ تسلیم کرنا اہم ہے کہ رائے کے اظہار کے آئینی حق کی حفاظت میں خلل نہ ڈالا جائے اور حدود و قؤد کے بارے میں نہایت محتاط رویہ اختیارکیا جائے۔ اسی طرح ملک میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی اور قومی امورکے بارے میں متنوع اورکثیر الجہتی مباحث دیکھنے میں آئیں گے۔ آئین میں اظہارِ رائے کی آزادی ہے مگر ملکی سلامتی، دوست ممالک سے تعلقات اور حساس معاملات پر باتیں درست نہیں۔
ہم آزادی رائے کی بات کریں تو پاکستان میں آزادی اظہار رائے دنیا کے بہت سے ممالک کی نسبت اتنی زیادہ ہے کہ آپ کسی کو بھی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اگر وہاں آزادی اظہار رائے کی صورتحال دیکھیں تو ماضی قریب میں بھارت نے فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ٹویٹرکے دفتر پر تو باقاعدہ چھاپہ مارا گیا تھا۔
چین میں فیس بک، ٹویٹر اور اس طرح کی کوئی ایپ نہیں چلتی ان کا اپنا نظام ہے جس کے تحت لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے ارد گرد ممالک پر نظر دوڑائیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی نسبت پاکستان میں لوگوں کو رائے کی آزادی میسر ہے لیکن بعض لوگ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ آزادی اظہارکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے گھرکی باتیں باہر والوں کو بتائیں اورکہیں کہ یہ رائے کی آزادی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہ دنیا میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست بناکر پیش کرتا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو صحافیوں اور عام لوگوں کے لیے خطرناک ملک بنا کر پیش کیا جائے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ بھی ففتھ جنریشن وارکا حصہ ہی ہے کہ کسی کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا جائے کہ وہ حقیقت کا گمان دے ۔
سر شام ہمارے ہاں بیسیوں چینلوں پر صحافی حضرات اپنے اپنے سیاسی نظریات و مفادات کے پیش نظر رات گئے تک جو پروگرام سامعین وناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان میں رائے اور فکر خیال کے اظہارکی بڑی آزادی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سخت مارشل لائوں کے دور میں بھی ہمارے شعراء نے وہ نظمیں لکھی ہیں جس کا کہیں اور تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کے ادوار میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، استاد دامن، احمد فراز وغیرہ نے جو کلام پیش کیے ہیں وہ اظہار رائے ہی ہیں۔
بیسویں اور اکیسویں صدی انسانوں کی آزادی اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے حوالے سے ہر ملک بالخصوص امریکا اور مغربی ممالک میں بہت زیادہ قانون سازی اور زور شور سے باتیں ہوئیں اور اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں اس حوالے سے اُن ممالک کے بارے میں رپورٹیں وغیرہ بھی شایع کرتے رہتے ہیں، جہاں اظہار رائے پر قدغنیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ہر ملک اور تنظیم کی اپنی نظر اور اپنی عینک ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے بارے میں بات ریکارڈ پر ہے کہ دنیا کے بعض مشکل مقامات اور حالات میں اس کے اداروں نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہت کام کیا لیکن بعض اوقات بعض مقامات پر اس کے بھی پر جلنے لگتے ہیں۔ مثلاً فلسطین کے کیمپوں میں جو سنگین خلاف ورزیاں ہوئی تھیں انسانی حقوق کی یا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دہایوں سے جو قیادت برپا ہے اور بھارت نے وہاں کشمیر کے باشندوں کے سارے حقوق کو غصب کر کے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل میں یا کیمپ میں تبدیل کردیا ہے، اس کے بارے میں اُس شدت کے ساتھ عالمی تنظیمیں بات نہیں کر پاتیں جس انداز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان دنیا کے پہلے چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے لوگ زیادہ تر وقت ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ساتھ موبائل زیادہ تر اس مواد کو دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بغیر کسی ذمے داری یا چیک اینڈ بیلنس کے تیار کیا گیا ہے۔
فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سہولیات پرکوئی بھی کچھ بھی لکھ اور بول سکتا ہے۔ نہ تو شیئر کرنے والوں کے پاس علم اور احساس ہے کہ وہ عوامی جگہ پر کیا شیئر کر سکتے ہیں اور نہ ہی صارفین حقیقی معلومات اور غلط معلومات، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے میں فرق کر سکتے ہیں۔ اکثریت کسی خبر اور تبصرے میں بھی فرق نہیں کر سکتی۔
میڈیا کو دنیا میں پروپیگنڈے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر وہ ممالک جو دشمن ممالک کی آبادی کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، اگر ہم بھارت پاکستان کی بات کریں تو بھارتی فلموں کو پاکستان کے خلاف ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دوطرفہ متنازع مسائل پر بھارتی مؤقف کا پرچار کیا جاسکے۔
70 اور 80 کی دہائؤں میں پاکستانیوں کو بھارتی فلموں کا شوق رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری نے بڑی تعداد میں فلمیں بنائیں جن کا واحد مقصد پاکستانی عوام کو متاثرکرنا تھا۔جھوٹی خبریں، پروپیگنڈا، ڈس انفارمیشن جنگ و امن میں دشمن کے مورال کو تباہ کرنے کے ہتھیار رہے ہیں اور اگر ہم سرد جنگ کے دورکو دیکھیں تو موجودہ دور میں یہ دشمن ممالک کے لوگوں کی رائے سازی کے ذریعے دشمن کو اندر سے نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر سب کے لیے بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے جو چاہیں لکھنا یا بولنا آسان ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جعلی، جھوٹی یا گمراہ کن معلومات خبر کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ جعلی خبروں کا مقصد اکثر کسی شخص یا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کا استعمال ہائی پروفائل لوگوں نے ان کے لیے ناگوار خبر پر لاگو کرنے کے لیے بھی کیا ہے۔ مزید برآں، غلط معلومات میں نقصان دہ ارادے کے ساتھ غلط معلومات پھیلانا شامل ہوتا ہے۔
بھارت نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو قومی نظریے سے متنفر کرنے کے لیے میڈیا کا آلہ استعمال کیا۔ اس وقت میڈیا اخبارات، پمفلٹ، ریڈیو اور ٹی وی تھا جب کہ انسانی سطح پر مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ اور ہندو برادری کے رہنما وہاں کے طلبہ کے نوجوان ذہنوں اور عام لوگوں کے سادہ دماغوں کو آلودہ کرنے کے لیے تیار تھے۔
نتیجہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے ایک بار پھر ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب جعلی خبروں، پروپیگنڈے اور غلط معلومات کا لانچنگ پیڈ سوشل میڈیا ہے جس میں فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر، انسٹا گرام اور ڈیجیٹل ویب سائٹس بھی شامل ہیں۔
یورپی یونین کی ڈس انفولیب پہلے ہی درجنوں بھارتی ڈیجیٹل میڈیا آئوٹ لیٹس کو بے نقاب کر چکی ہے کؤنکہ پاکستان اور چین کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے جعلی سائٹس کا استعمال کیا جا رہا تھا، دنیا کے بڑے میڈیا ہائوسز سے ملتی جلتی ویب سائٹس بنا کر قارئین کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ یہ جعلسازی صرف قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس پروپیگنڈے پر یقین دلانے کے لیے کی گئی تھی۔
بھارت سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بھارتیوں کی اس میڈیا پرگرفت ہے۔ سوشل میڈیا کمپنؤں میں بڑی تعداد میں بھارتی نمایاں عہدوں پر کام کررہے ہیں۔
بھارت پاکستان کی سلامتی اور نظریے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ ہمیں دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں لیکن خود ہمیں کم ازکم یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جو مواد ہمیں پیش کیا جا رہا ہے وہ کہیں ہماری قومی یکجہتی کے خلاف ہے یا اسے نقصان تو نہیں پہنچا رہا، اگر یہ نقصان دہ ہے تو ہمیں اسے شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ایسے مواد کی اطلاع ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کو دینی چاہیے۔
ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری، ٹی وی، ریڈؤ، اخبار، سوشل میڈیا، فلم اور معیشت ہیں۔ یہ لڑائی زمین پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں کے ذریعے لڑی جا رہی ہوتی ہے۔
لوگوں کے جسم کو نہیں بلکہ ان کے ذہن کو شکارکیا جاتا ہے۔ اس میں حریف کسی ملک میں اپنی فوجیں نہیں اتارتے بلکہ اس ملک کے عوام کو ہی اس کے خلاف استعمال کر کے اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں بہت توانائی ہے، صرف انھیں درست سمت کی جانب گامزن کرنا ہے اور ہمیں یہ کام من حیث القوم کرنا ہے۔
[ad_2]
Source link