[ad_1]
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا، اگر ہم محنت کریں تو بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے، لیکن یہ کام صرف باتوں سے نہیں ہوگا بلکہ عمل کر کے دکھانا ہوگا۔
جزا و سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں، ہمیں اپنے ریونیو میں اضافہ کرنا ہوگا، پاکستان کے ذمے واجب الادا قرض بہت بڑا چیلنج ہے، ہمارا سالانہ وصولیوں کا ہدف تین سے چارگنا کرپشن ، فراڈ اور لالچ کی نذر ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہم قرض لینے پر مجبور ہیں۔ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے برملا اظہار کرتے ہوئے ملکی نظام میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ان پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے یا نظام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بوسیدہ ٹیکس اسٹرکچر کی وجہ سے ملک کو ہر سال ایک تہائی ٹیکس وصولیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پورے ملک سے ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کے اپنے افسران کی بڑی تعداد نان فائلر ہے۔ یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا معاشی نظام ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکا ہے اور حکومتوں کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً جو معاشی اصلاحات کی جاتی رہی ہیں ان کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی تعمیر نو کے معاملے کا زندگی کے حقائق اور انسانی ضروریات کی روشنی میں جائزہ لینے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ دراصل چیک اینڈ بیلنس کا نظام ، ہر حکومت کو امور ریاست میں بنیادی طور پر اپنے انتظامی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی معاملات میں رکھنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ رفتہ رفتہ حکمرانوں اور بیوروکریسی میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو ماضی کے انتظامی اور مالیاتی ورثے کی لوٹ مار میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا،ایک طرف بربادی بھی جاری ہے۔
دوسری طرف سرکار کی طرف سے تنخواہیں بھی جاری ہیں، حکمران طبقے کی مراعات بے حساب ہیں، ملک میں احتساب کا غلغلہ ہے مگر کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں، عدالتیں فریاد کناں ہیں کہ کرپشن کے بڑے مگرمچھ کہاں غائب ہوگئے، کیا قوم ایک ملک گیر جوابدہ سسٹم سے محروم ہے، عوام دکھ سہتے آئے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ آئین کے سامنے قانون کے دروازے پر سب برابر نہ رہے، سیاسی کھینچا تانی، چھینا جھپٹی، کشمکش، داؤ پیچ، الجھنوں کی آندھی اور مسائل کی دلدل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں لا قانونیت انتہا کو پہنچ گئی ہے رشوت، کرپشن، سفارش، اقربا پروری اور میرٹ کو ڈی میرٹ کرنے کی انتہا ہو گئی، جو سیدھی راہ پر چلنے والا تھا، ایماندار تھا، ٹو دی پوائنٹ تھا وہ خود کو اس نظام میں مس فٹ محسوس کرنے لگا، معیشت کی حالت یہ ہو گئی کہ ہم بار بار کشکول پکڑے عالمی اقتصادی اداروں کے در پر دست طلب دراز کیے کھڑے نظر آتے ہیں۔
دوست ممالک سے حاصل کیے گئے قرضے ری شیڈول کرواتے ہیں اور آئی ایم ایف سے اگلے قرضے کے حصول کے لیے اس کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور تکلیف بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران یہ بیان دیتے ہوئے پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات ساری شرطیں پوری کر دی ہیں، کوئی یہ نہیں سو چتا کہ ان شرائط کو پورا کرنے کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے عوام کی کمر دہری ہوئی جاتی ہے۔
ہم قرضوں پر انحصار کرنے والی معیشت بن کر رہ گئے ہیں پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پا رہی قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔
عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں حکمران طبقات ان پر سوار ہوکر حکومت کرتے ہیں اور قرض لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں ارباب اختیار و اقتدار یہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا، عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرنا اور ٹیکسوں کی بھرمار کر کے غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنا نہیں ہوتے۔
کسی بھی حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں بس عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں مشکل فیصلہ ایک آزاد جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی، قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتا ہے۔
ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیں جس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے صنعت اور خدمات کے شعبے روز بروز تنزلی کا شکار ہیں ملک کو درپیش بحرانوں نے سب سے زیادہ کاروباری، تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے۔
اشرافیہ کے تحت چلنے والی حکومتوں میں مادہ پرستی اس حد تک زور پکڑنے لگتی ہے کہ افراد و شخصیات امیر ترین بنتے چلے جاتے ہیں اور وطن مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے، وطن عزیز اس کی مثال ہے، وطن عزیز پر حکمرانی کا حق جتانے والوں کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت بیرونی ملکوں میں انوسٹ شدہ رقوم میں سے اتنا تو ملک کے اندر لے آؤ کہ وطن عزیز دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن اشرافیہ کبھی اس کا نہ سوچے گی اور نہ ہی اس پر عمل ہوگا۔
حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر ڈھائی فیصد سے زائد ہو چکے ہیں۔ اس لیے معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کو نمایاں طور پر بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے جس میں جغرافیائی، سیاسی کشیدگی، اشیا کی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور عالمی مالیاتی شرائط کا مزید سخت ہونا شامل ہیں عالمی مالیاتی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے، گردشی قرضے کم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے، امیر پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا جائے، انرجی اور ٹیکس سیکٹر میں اصلاحات لائی جائیں، اسمگلنگ اور کرپشن پر قابو پایا جائے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے۔
قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لیے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں اس لیے ٹیکس چوری کے راستے کھلے ہیں ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لیے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیار کر لی گئی حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصروف رہی ہیں یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جب کہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے پٹرول‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے، ٹیکس در ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے۔
اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کیے ہوتے اور معمولی مزاحمت پر پالیسیوں سے پسپائی اختیار نہ کی ہوتی تو آج توانائی کے شعبے پر بھاری ٹیکس اور اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کی18فیصد شرح کو کم کرنا ممکن ہوتا مگر بد قسمتی سے حالات یہ ہیں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا ر ہا ہے۔
پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا، آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی۔ ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجکاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔
وقت آگیا ہے کہ اہل سیاست دور اندیشی سے کام لیں، احساس کریں کہ عوام کے مسائل سے لاتعلقی کا شاخسانہ مزید ستم ڈھائے گا اور سیاسی نظام اور نوکر شاہی کی غفلت، فرض ناشناسی، سنگدلی اور نو آبادیاتی طرز عمل کا سلسلہ دراز ہوا تو معاشی حالات غضب ناک بھی ہوسکتے ہیں، قومی سطح پر سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازوں کے ایک جامع پالیسی ڈائیلاگ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا فائدہ تب ہی ہو گا جب ملک میں معاشی اصلاحات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گی۔ اس طرح مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لیے حکومتی نظام کی خرابیاں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
[ad_2]
Source link