[ad_1]
ہمارے یہاں یہ روایت رہی ہے کہ ہر نئی حکومت کو کچھ وقت اورمدت معاملات کو سمجھنے اورجانچنے کے لیے دی جاتی ہے۔یہ مدت کم ازکم چھ ماہ کی ہوتی رہی ہے جب کہ بعض اوقات سال بھر کے لیے بھی دی جاتی ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 2018 میں معرض وجود میں آنے والی PTI کی حکومت کو یہ رعایت چھ مہینے کے بجائے سال بھر کی دی گئی،بلکہ مقتدر حلقوں نے انھیں سال بھر سے بھی زیادہ سوچنے اورسمجھنے کے لیے دیا۔
یہ کہا گیا کہ میڈیا پر مزید چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کی جائے تو معاملات بہتر معلوم ہونے لگیں گے۔مگر ہم نے دیکھا کہ معاملات اورحالات سدھرنے کے بجائے مزید ابتر ہی ہوتے چلے گئے۔ملک قرضوں کی دلدل سے نکلنے کے بجائے مزید اس میں غرق ہوتاچلاگیا۔ دوست ممالک سے تعلقات بھی مستحکم ہونے کے بجائے خراب ہی ہوتے چلے گئے۔
چین ، سعودی عرب ، ملائیشیا اور ترکی سمیت ہر ایک سے معاملات میں تلخی کا عنصر نظرآنے لگا۔ غیر دانشمندانہ اور غیر ذمے دارانہ بیانوں کی وجہ سے ہمار ے سارے دوست ہمارا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔جس مہاتیر محمد کے وژن کی خان صاحب دن رات تعریفیں کیاکرتے تھے انھیں بھی اپنی یوٹرن لینے والی خصلتوں کی وجہ سے سخت مایوس اوربددل کیا۔ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ ملکر ایک علیحدہ گروپ بنانے کی غرض سے جو ابتدائی اجلاس کوالالمپور میں بلایا گیا تھا اس میں جانے سے اچانک انکار نے اپنے ساتھ ساتھ اِن دوستوں کو بھی ساری دنیا کے سامنے خفت اور سبکی اُٹھانے پرمجبور کردیا۔پورے دور حکومت میں کوئی ایک ایسا بڑا کارنامہ یا منصوبہ پیش نہیںکیاجس پرقوم انھیں یاد کرکے خراج تحسین پیش کرسکتی۔
شیلٹر ہومز اورلنگر خانے بنانے کے منصوبے حکومتیں نہیں بنایا کرتی ہیں یہ کام تو اس ملک میںفلاحی ادارے پہلے ہی بہت احسن طریقے سے کرتے آئے ہیں۔حکومتوں کا کام تو ملک کو آگے لے جاناہوتا ہے۔ جو کام ترکیہ کے محمد طیب اردگان یا بنگلادیش کی محترمہ حسینہ واجد کر رہی ہیں قوم اپنے حکمرانوں سے کم ازکم ایسے ہی کاموں کی توقع لگائے بیٹھی ہے۔خیر اس حکومت کا ہنی مون پیریڈ چھ ماہ کا نہیں، سال کا نہیں بلکہ پورے دور کا ہی تھا۔ اُسے آخری دم تک سہارا دینے کی کوششیں ہوتی رہیں۔
جناب شہبازشریف کی موجودہ حکومت جس حال میں بنی ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ سادہ اکثریت سے بھی محروم اس حکومت کو جس طرح بنایا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں ہے۔ دیگر دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے ایسی کمزور حکومت لینے سے صاف صاف انکار کردیا تھا اورملکی حالات اس بات کی اجازت بھی نہیںدے رہے تھے کہ اس ملک میںایک بار پھر نئے سرے سے الیکشن کروایا جائے۔
نتیجتاً یہ بار گراں مسلم لیگ نون کے سرتھوپ دیا گیا، مگر اس حکومت کو پارلیمنٹ میں ووٹ آف کانفیڈنس کے لیے یقینا کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں کی حمایت مطلوب تھی جو پاکستان پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موؤمنٹ ، IPP نے وقتی طور پر فراہم کردی۔اُن کا یہ ساتھ کتنا عرصے کا ہوتا ہے یہ حالات اور وقت کو دیکھ کر ہی طے کیاجائے گا۔فی الحال سب کی مجبوری ہے کہ اس حکومت کا ساتھ دیا جائے۔میاں شہبازشریف پر یہ بھاری ذمے داری ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے خود کو اس بات کا اہل ثابت کریں کہ وہ ہی اس عہدے کے لیے ایک درست اورصحیح چوائس تھے۔ کوئی اورشخص یہ ذمے داری اتنے احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی معلوم تھا کہ ملک کے دگر گوں معاشی حالات اور PTI کی جارحانہ مزاحمت اورمخالفت کی موجودگی میں سکون و اطمینان کے ساتھ حکومت چلانا کوئی اتنا آسان اورسہل نہ ہوگا۔اس لیے اس نے فی الحال اس ذمے داری سے خود کو علیحدہ کر لیا۔میاں شہباز شریف کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کوئی بہت زیاد ہ وقت نہیں ہے۔ جوکچھ کرنا ہے ،دوسالوں میں کرکے دکھانا ہوگا۔ اُن کے پاس کوئی ہنی مون پیریڈ بھی نہیں ہے۔ پہلے دن سے انھیںکارکردگی کے میدان میں گھوڑے دوڑانے پڑے ہیں۔حکومت سنبھالے ابھی صرف دوماہ کا عرصہ گزر اہے لیکن انھوں نے بہرحال کچھ اچھے کام شروع کردیے ہیں۔
PDM کے دورحکومت میں اُن پرکارکردگی کے حوالے سے جو داغ لگے تھے انھیں اپنے اس دور میں انھیں دھونے کا ایک بہتر موقعہ ملا ہے۔اپنے اُس دور میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مہنگائی اوراشیائے صرف کی گرانی کے جو بم گرائے گئے تے اُن کا کفارہ انھیں اپنے اس دور میں ادا کرنا ہے۔مسلم لیگ نون کی جوبدنامی اس سولہ ماہ کی حکومت میں ہوئی تھی اُس کاازالہ بھی اب انھی کی ذمے داری ہے۔ایک ماہ بعد اس ملک کا بجٹ بھی پیش کرنا ہے ، وہ اگر عوام کو اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہ دے سکے تو انھیں معلوم ہوناچاہیے کہ اب عوام انھیں معاف نہیں کریں گے۔
ایک مضبوط اپوزیشن ان کے سامنے کھڑی ہے ۔ جو سیاسی پارٹیاں اورحلقے آج انھیں سپورٹ کر رہے ہیں وہ بھی ایسی صورت میں نظریں پھیرتے دکھائی دینے لگیںگے۔صرف ٹیکس لگاکر ملک کی معیشت سدھارنے کا منصوبہ ہمیشہ ناکام ہوجایاکرتا ہے ۔ ہمارے عوام اس وقت اپنی استطاعت سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں۔ بازار میں ملنے والی کوئی شہ بھی ایسی نہیں ہے جس پرٹیکس نہیں لگایاگیاہے۔بجلی کے بلوں کو ہی دیکھ لیجیے ۔ اس میں طرح طرح کے ٹیکس لگا ئے گئے ہیں۔جو بجلی میرے باپ دادا نے استعمال کی تھی اس پربھی کواٹرلی ایڈجسمنٹ کے نام پرجبری ٹیکس لیاجاتاہے۔
صبح سے شام تک عوام اپنی ضرورت کی ہرچیز پرٹیکس دیتے ہیں۔ماہانہ انکم پر وہ علیحدہ سے بھی ٹیکس دے رہے ہیں۔ کئی سالوں سے انکم ٹیکس کی مد میں اورحد میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی گئی ہے۔ ہرماہ پچاس ہزار روپے سے زائدکمانے والا ہرشخص آج انکم ٹیکس دے رہا ہے۔
پچاس ہزار آمدنی پرٹیکس کی شرح 2013 سے مسلسل رائج ہے ، جب کہ ان گیار ہ سالوں میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔سابقہ نواز حکومت نے اس حد اورشرح کو سالانہ بارہ لاکھ تک مقرر کردیاتھا لیکن PTI کے دورحکومت میں IMF کے دباؤ پراسے پھرسے چھ لاکھ روپے پر پہنچادیاگیا تھا۔
وہ دن ہے اورآج کادن عوام اپنی ماہانہ پچاس ہزار آمدنی پرانکم ٹیکس دیتے آئے ہیں۔حکومت کو پھر بھی شکایت ہے کہ ہمارے عوام ٹیکس نہیں دیتے ۔ملک کی معیشت چلانے اوراسے سدھارنے کے لیے اپنے عوام کو نچوڑنے کا یہ طریقہ چھوڑنا ہوگا اورملک میں ترقی اورخوشحالی کے دوسرے منصوبے شروع کرنا ہونگے۔ سارے ملک میں کارخانے اورفیکٹریاں لگانا ہونگی۔قوم کو روزگار دیکر انھیں اپنے پیروں پرکھڑاکرنا ہوگانہ کہ بے نظیرانکم سپورٹ جیسے پروگراموں کے تحت چند ہزارکا محتاج اورعادی بنانا ہوگا۔
نئے طریقوں اورمنصوبوں کے لیے پڑوسی ممالک کی مثالیں بھی سامنے رکھنا ہوگی کہ وہ کس طرح آج ہم سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر کے مالک بن گئے۔ہم کئی سالوں سے صرف 13ارب ڈالر پرگزار ا کررہے ہیں جب کہ ہمارا ازلی دشمن آج تقریبا 800ارب ڈالرکے ذخائر پربھی مطمئن نہیں ہے۔
وہ ترقی کے اب بھی نئے نئے منصوبے تلاش کررہا ہے مگرہم قرض اورامداد کے جدید طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔خدارا اِن طریقوں کو چھوڑکرترقی اورخوشحالی کے روشن منصوبوں پردھیان دیں۔ معدنیات اورزرعی اجناس کے ساتھ ساتھ انڈسڑیاں لگا کرملک کو دوسروں کی محتاجی سے باہر نکالیں۔
زرعی شعبہ اس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہو چکا ہے اگر زرعی شعبے کی ترقی کے لیے جدید طریقے اپنائے جائیں تو خوشحالی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔یہ ہمارے لیے شاید آخری موقعہ ہے ، ہم نے اگر اسے بھی ضایع کردیا تو پھر شایدہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوںمیں۔
[ad_2]
Source link