[ad_1]
حکمرانی کے بحران کا براہ راست تعلق مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی سے جڑا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں یا حکمران طبقہ کی ترجیحات میں یہ نظام نہ صرف کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے بلکہ بار بار کے تجربات نے بھی اس نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے مزید حقیقی نظام سے دور کردیا ہے۔جو بھی صوبائی حکومت برسراقتدار آتی ہے سب سے پہلے اس کا اقدام پہلے سے موجود نظام کو ختم کرنا اور اس کے بعد پہلے سے موجود نظام میں نقائص کو ظاہر کرکے نئے نظام کی تشکیل نو کا اعلان کرنا ہوتا ہے ۔
اس وقت پنجاب میں صوبائی وزیر بلدیات ذیشان رفیق کی نگرانی میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ یہ کمیٹی 2022کے نظام میں نئی ترامیم یا نئی اصلاحات کو متعارف کروا کر نئے نظام کی تشکیل کو یقینی بنائے گی ۔ کمیٹی میں صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات اور سابقہ ناظم نارووال و ممبر صوبائی اسمبلی احمد احسن اقبال بھی شامل ہیں ۔سیکریٹری بلدیات اور سیکریٹری قانون بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ پنجاب میں آخری مقامی حکومتوں کے انتخابات 2015میں عدالتی حکم کی بنیاد پر ہوئے تھے۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی محض قانون کی تیاری کو بنیاد بنا کر مختلف تجربے کرتی رہی مگر نہ تو نظام کو کوئی حتمی شکل دی جاسکی اور نہ ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکا ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب میں موجود صوبائی حکومت اور اس کی بنائی ہوئی یہ کمیٹی ماضی کی کمیٹیوں یا ماضی کے تجربات سے کیسے مختلف ہوتی ہے ۔ کیا نئے نظام کی تشکیل اور نئے مقامی حکومتوں کے انتخابات کو فوری طور پر ممکن بنایا جاسکے گا یا اس میں بھی تاخیری حربے اختیار کرکے وہی کھیل دوبارہ کھیلا جائے گا جو ہماری سیاست کا حصہ ہے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کو متعدد بنیادی چیلنجز درپیش ہیں ۔ اول اس میں قانونی سقم ہے ۔اگرچہ 1973کے آئین کے مطابق دیکھیں تو ہم کو 140-A کی شق نظر آتی ہے جو انتخابات کو یقینی بنانے ، سیاسی ،انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم اوربیوروکریسی کے مقابلے میںمنتخب عوامی نمایندوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ نظام کی قیادت کریں ۔لیکن اسی آئین میں یہ خامی موجود ہے کہ اگر مقامی حکومتوں کا نظام اپنی مدت کو پورا کرتا ہے یا اسے قبل ازوقت ختم کردیا جاتا ہے تو کتنے دن میں مقامی حکومتوں کے نظام کو قائم کرنا ضروری ہے۔
اس لیے آئین میں ہمیں یہ ترمیم کرنا ہوگی کہ مقامی حکومت کے نظام کے خاتمہ کے 90یا120دن میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ جو بھی صوبائی حکومت آئین پر عملدرآمد نہ کرے اسے آئین شکنی کا سامنا کرنا پڑے۔دوئم ، انتخابات اور اس نظام کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ قومی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مدت چار یا پانچ برس ہو۔ ان کے انتخابات یا تو ایک ہی دن ہوں یا جو بھی صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر آتی ہے اور نئی صوبائی حکومت کے تشکیل کے بعد120دن میں صوبائی حکومت ان مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کی پابند ہونی چاہیے۔
سوئم، مقامی حکومت کے نظام کی اصولی، سیاسی اور قانونی اہمیت کو قبول کیا جائے اور اسے آئین کی سطح پر وفاقی ، صوبائی حکومت کے بعد تیسری مقامی حکومت کے طور پر قبول کرنا بھی آئینی تقاضوں کا حصہ ہے۔چہارم ،18ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کا عمل ضلعی خود مختاری کے نظام کے بغیر مکمل نہیں ہوگا ۔ صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ عدم مرکزیت یا صوبائیت کے مقابلے میں ضلعی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بناکر عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
پنجم، صوبائی فنانس کمیشن میں اس نقطہ کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے کہ جو بھی ضلع کمزور ہیں یا احساس محرومی زیادہ ہے وہاں وسائل کی تقسیم کا فارمولہ نئے سرے سے تشکیل دیا جائے تاکہ صوبائی وسائل محض بڑے شہروں تک خرچ نہ ہوں بلکہ چھوٹے اور پسماندہ علاقوں میں بھی وسائل کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہو۔ششم ،مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل میں اس بنیادی اصول کو اختیار کیا جائے کہ اس نظام کے مقابلے میں کسی بھی طرز کا متبادل نظام نہ بنایا جائے اور تمام نظام ضلعوں کی سطح پر مقامی حکومتوں کو جوابدہ ہوں۔ہفتم، ترقیاتی منصوبوں اور عملدرآمد سمیت ترقیاتی بجٹ کو براہ راست مقامی حکومتوں کے نظام سے ہی منسلک کیا جائے اور کم ازکم صوبائی ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد حصہ مقامی حکومتوں کے نظام کی مدد سے خرچ ہو اور ممبران اسمبلی کے ترقیاتی امور کو محدود یا ختم کیا جائے ۔
پنجاب میں جب نئے نظام کی تشکیل کو ایک بار پھر نئے سرے سے یقینی بنایاجارہا ہے تو ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرکے مقامی حکومت کے نظام کی تشکیل کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ مقامی حکومت کے نظام میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ محدود ہوں اور یونین کی سطح پر یونین کونسل اور ضلعی کونسل کے نظام کو مضبوط بنایا جائے اور جتنے چھوٹے یونٹ ہوں گے اتنا ہی یہ نظام عام آدمی کے مسائل کے حل کو یقینی بنائے گا۔ بالخصوص عورتوں، اقلیتوں ،کسانوں ، مزدوروں ، نوجوانوں کی نمایندگی کو موثر بنایا جائے اور ان کو ہر سطح پر بااختیار بنایا جائے۔چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات ضلعی و تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر براہ راست ہونے چاہیے اور اسی طرح سے مخصوص نشستوں کے انتخابات کو بھی براہ راست طریقہ کی مدد سے مکمل کیا جائے ۔
عورتوں کی بھی مقامی حکومتوں کے نظام میں 33فیصد نمایندگی کے اصول کو اختیار کیا جائے اور خود مسلم لیگ ن کی حکومت 2013میں یہ قانون پاس کرچکی ہے کہ صوبہ میں سیاسی سمیت تمام انتظامی اداروں میں عورتوں کی نمایندگی 33فیصد ہوگی تو موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی اسی فارمولہ کے تحت عورتوں کی نمایندگی کو 33فیصد یقینی بنانا چاہیے۔
اگرچہ مقامی حکومت کا نظام صوبائی معاملہ ہے مگر وفاق کو صوبوں پر یہ دباؤ بڑھنا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں آئین کی شق 140-Aکے تحت ایک خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنا کرشفافیت اور عوامی شراکت کے اصول کو یقینی بنائیں۔
[ad_2]
Source link