10

حافظ نعیم الرحمن سے ایک ملاقات

[ad_1]

میرے جیسا دنیادار شخص جب کسی با برکت جگہ پہنچتا ہے تواس پر مودبانہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور محفل کا ماحول اس پر روحانی نوعیت کا سحر طاری کر دیتا ہے اور وہ سکون محسوس کرنے لگتا ہے۔

میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہور کا ، جہاں داخل ہوتے ہی ماحول بدل جاتا ہے، کیفیت وہی ہوجاتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ منصورہ میں بیشتر شہیدوں کے گھر ہیں جنھوں نے اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دی اور اپنے والدین کے لیے مغفرت کا سبب بن گئے۔منصورہ لاہور سے جڑی یادیں مرحوم و مغفور محترم صفدر چوہدری کی یادیں ہیں جنھیں میں انکل کہا کرتا تھا۔

درویشانہ اور فقیرانہ طبیعت کے مالک صفدر چوہدری مرحوم ایک مدت تک جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات کی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ وہ مظفر نعیم شہید کے والد تھے ۔ مظفر نعیم نے کشمیر میں شہادت کا رتبہ پایا۔ میرا جماعت اسلامی سے پہلا تعارف صفدر انکل کے توسط سے ہی ہوا۔کیا وضع دار اور درویش طبیعت کے مالک لوگ تھے جنھوں نے زندگی بھر مولانا مودودی ؒ کے مشن کی آبیاری کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے رکھا اور آخری وقت تک اپنے نفس کے ساتھ حقیقی جہاد کرتے نظر آئے ۔

جماعت کے منصورہ ہیڈکوارٹر میں کون کون سی شاندار شخصیات زندگی گزار گئیں، ہر ایک کی زندگی پر کم از کم ایک کتاب ضرور لکھی جا سکتی ہے، چاہے وہ میاں طفیل محمدؒ ہوں، ملک غلام علی ؒ یا ان جیسی اور کئی شخصیات ۔ ہر ایک نے اپنے مشن سے وفا کی اور اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی تیاگ دی۔

پاکستان کی واحد منظم سیاسی جماعت جس میں عہدیدار باقاعدہ ممبران کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اس میں موروثیت کا دور دور تک واسطہ نہیں ہے۔

سید ابوالا علیٰ مودودیؒ نے اس جماعت کی بنیاد رکھی، ان کی اولاد بھی اس جماعت کی وارث قرار نہ پائی البتہ اس جماعت کے کارکنان ہی اس کے وارث ٹھہرے اور آج تک اس جماعت کے کارکنان کی مرضی سے امیر جماعت کا انتخاب ہوتا ہے البتہ مرکزی شوریٰ چند ایک نام ضرور تجویز کر دیتی ہے جنھیں اراکین ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی کی قیادت منتخب کرتے ہیں یعنی ان پر قیادت تھوپی نہیں جاتی بلکہ ان کی مرضی سے ہی منتخب کی جاتی ہے۔

چند روز قبل جماعت کے متحرک ترین سیکریٹری اطلاعات بھائی قیصر شریف نے اطلاع دی کہ نو منتخب امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن کالم نویسوں سے ملاقات کررہے ہیں اور مجھے ناچیز کو بھی اس ملاقات کے لیے حکم نما دعوت دی۔ میں نے حاضر ہونے کا وعدہ کیا اور یہ سوچ در آئی کہ نئے منتخب امیر جماعت کے خیالات جاننے کا موقع بھی ملے گا ۔

میں جب پہنچا، منصورہ کے دارالضیافہ میں محفل جمی ہوئی تھی۔ قیصر شریف کی میزبانی میں دور حاضر کے صف اول کے کالم نویس امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن کی گفتگو سن رہے تھے، تاخیر سے پہنچنے کے باعث میں ان کی گفتگو کے اولین حصے سے محروم رہا لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے تھے ایک سچے پاکستانی کی آواز تھی جو دل سے نکل رہی تھی، وہ عام آدمی کی بات کررہے تھے ،انھوں نے گندم کے بحران پر حکومت کو خبردار کیا اور بعد ازاں وہ کسانوں کے شانہ بشانہ کھڑے بھی نظر آئے ۔انھوں نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ تحریک انصاف کی جیت کو ہار میں بدلا گیا، خود انھوں نے اپنی جیت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جس کی جیت بنتی تھی، اس کے حق پر ڈاکا ڈالنے سے واضح طور پر انکار کیا ۔

حافظ نعیم الرحمن بلاشبہ جماعت کے ایک متحرک رہنماء ہیں۔ انھوں نے کراچی میں جماعت کی سیاسی بالادستی کو زندہ کیا اور عوام کو یہ باور کرایا کہ جماعت اسلامی ہی ان کی حقیقی نمایندہ جماعت ہے۔ امیر جماعت نے جماعت اسلامی کے سیاسی مستقبل کے متعلق کھل کر گفتگو کی اور کالم نویسیوں اور ایڈیٹرز کے چبھتے سوالات کے خندہ پیشانی سے جوابات دیے اور اس بات کا عندیہ دیا کہ جماعت مستقبل میں مسائل کو سامنے رکھ کر سیاست کرے گی۔

ان نے اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ کشمیر اور فلسطین پر جماعت کے موقف کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کی بنیاد عدل پر رکھی گئی ہے اور عدل سے ہی سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ امیر جماعت کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی سیاست کو متحرک اور نئی جہت دینے کے لیے وہ مطالباتی تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں اور عوامی طاقت سے حکومت کو دباؤ میں لائیں گے ۔ انھوں نے کہا جماعت اسلامی ایک پر امن جماعت ہے اور مولانا مودودی ؒ کے افکار کی ہدایات اور تعلیمات پر چلنا ان کا نصب العین ہے ۔

اس لیے جماعت ایک پر امن سیاسی مزاحمت کے ذریعے عوامی مسائل کو اجاگر کرے گی اور عوام کو اس بات کا احساس دلایا جائے گا کہ ان کے حقیقی نمایندے وہ جماعتی نمایندے ہیں جن کی زندگیاں عوام کے مطابق گزرتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی دو عملی نہیں ہوتی کیونکہ یہ ان میں سے ہیں ۔ یہ ایسے لوگوں کا گروہ ہے جو مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کو اپنا مشن بناتا ہے جس کی ایک اعلیٰ مثال الخدمت فاؤنڈیشن کی ہے جس کے جھنڈے تلے دنیا بھر میں فلاحی سر گرمیاں جاری ہیں۔ تقریب کے اختتام پر ایک پر تکلف ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جسے حاضرین محفل نے جماعت کی نئی قیادت اور اس سے وابستہ سیاسی روشن مستقبل کی جانب واضح اشارہ قرار دیا ۔

میرے والد محترم عبدالقادر حسن بانی جماعت مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کی تعلیمات اور نظریات سے بہت متاثر تھے۔وہ جب تک زندہ رہے ‘ان کے ساتھ اپنے تعلق اور عقیدت کا برملا اظہار کرتے رہے۔

اس لیے مجھے بھی مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کے ساتھ عقیدت اور جماعت اسلامی سے پیار وراثت میں ملا ہے۔اسی لیے جب مجھے بھائی قیصر شریف کا حکم ملا تو میں بغیر چوں چراں کیے ‘اس حکم کی تعمیل کی ۔دعا ہے کہ جماعت اسلامی نئے امیرکی قیادت میں سیاسی کامیابیا ں حاصل کرے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں