[ad_1]
پنجاب کے کسانوں کی آہ و بکا کا اثر آخرکار وفاقی حکومت پر ہوگیا۔ میاں شہباز شریف نے وزرات فوڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کو عہدے سے ہٹایا اور اب گندم اسکینڈل کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔ خبر یہ ہے کہ نگران حکومت کی وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ افسران کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا ہے۔
پنجاب کی حکومت نے کئی کسانوں کو تھانے میں بند کیا تھا تاکہ کسان کے لیڈر بے بس ہوجائیں، مگر کسانوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کو میاں نواز شریف نے بھی محسوس کرلیا۔ یوں اب وفاق اور پنجاب کی حکومت کو اس معاملہ پر کچھ کرنا ہے، مگر پھر سوال وہی ہے کہ گندم امپورٹ اسکینڈل میں ملوث افراد کا کیا واقعی احتساب ہوگا؟ تحریک انصاف کے رہنما عون عباس کا تو دعویٰ ہے کہ نگران دور میں ایک فرد نے گندم کی درآمد سے کئی ارب روپے کمائے۔
ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں بھی گندم درآمد کی گئی مگر متعلقہ سیکریٹری نے وزیر اعظم کو اس بارے میں بے خبر رکھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یوکرین سے کل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی جس کی کل مالیت 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے بنتی ہے۔ گندم کی درآمد کی سمری فوڈ سیکیورٹی کی وزارت نے تیار کی تھی اور اس وقت کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس سمری کی منظوری دی۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس اسکینڈل میں صرف نگران حکومت کے اہلکار ہی ملوث نہیں بلکہ نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے گندم کے امپورٹرزبھی ملوث ہیں۔
مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی رپورٹوں کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کی حکومت نے گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں گندم کی سپورٹ پرائز 3ہزار روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی تھی مگر محکمہ خوراک کے اہلکارو ں کو گندم کی خریداری کے احکامات جاری نہیں ہوئے۔ اپریل کے آخری ہفتے سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بارشیں ہوئیں جو مئی کے مہینہ تک جاری رہیں۔ ان بارشوں نے ان کسانوں کی کمر توڑ دی ہے جن کی گندم زمین پر پکی پڑی تھی۔
گندم کی خریداری کا ہدف 4ملین روپے کم کرکے 2ملین روپے کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں اس دفعہ مقررہ ہدف سے زیادہ گندم پیدا ہوئی ہے۔ کسانوں کا بیانیہ ہے کہ گندم کی کاشت کے لیے دوگنی قیمت پر کھاد، بجلی، ڈیزل اور دیگر زرعی اخراجات پر خرچ ہونے کے باوجود کسان اپنی فصل اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا واضح موقف ہے کہ پنجاب میں اس بحران کی بنیادی وجہ بیرون ممالک سے درآمد کی گئی گندم ہے جس کی بناء پر پنجاب کی موجودہ حکومت رواں سال گندم کی خریداری شروع ہونے سے پہلے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سال گندم کی کٹائی سے پہلے گندم کے 40 لاکھ ذخائر موجود تھے اور نگراں حکومت کے دور میں بھی اتنی ہی گندم موجود تھی۔ حکومت نے رواں سال 34 ملین ٹن گندم بیرون ملک بھیجی تھی ۔ پھر نگراں حکومت کے دور میں نجی شعبہ کو گندم کی درآمد سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریکارڈ پیداوار کے باوجود 30لاکھ ٹن سے زیادہ گندم کی خریداری کا ہدف پورا نا ہوسکا۔ کراچی کی بندرگاہ پر ذخائر جمع ہیں جس پر پنجاب کی حکومت نے ان کو روزانہ کی بنیاد پر اضافی سرچارج دینا پڑرہا ہے۔
مزدور رہنما اقبال ملک ملتان میں انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے سرگرم رکن ہیں۔ اقبال ملک کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کی غیر دانشمندانہ پالیسی کی بناء پر گندم کا بحران پیدا ہوا ہے مگر پنجاب کی حکومت کا رویہ مایوس کن ہے۔ وفاقی حکومت کا ادارہ پاسکو کا عملہ کسان سے براہِ راست گندم خریدنے کے بجائے مڈل مین سے گندم خرید رہا ہے۔ اقبال ملک نے پنجاب کے کسانوں کے حالاتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پنجاب کی حکومت نے پاسکو نے براہِ راست خریداری شروع نہیں کی تو کسان کو مجبوراً کم قیمت پر مڈل مین اور فلور مل مالکان کو گندم فروخت کرنی پڑرہی ہے۔ مڈل مین بہت کم قیمت پر گندم خرید رہا ہے۔ کسان گندم کم قیمت پر بیچنے مجبور ہوگئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے کسانوں سے مناسب نرخوں پر گندم نا خریدی تو نا تو کسان بجلی کا بل ادا کرسکے گا نا کھاد اور نا کیڑے مار ادویات کی رقم ادا کرنے کے قابل رہے گا۔ (کسان یہ ساری اشیاء ادھار پر لیتا ہے۔ )یہی صورتحال رہی تو اگلے سال کسان کو کوئی قرضہ نہیں دے گا۔ اس کا ٹیوب ویل کا کنکشن کٹ چکا ہوگا، اس کے پاس نا کھاد خریدنے کے پیسے ہوںگے اور نا کیڑے مار دوائیاں خریدنے کے، یوں زرعی شعبہ ایک خوفناک بحران کا شکار ہوجائے گا۔
پنجاب کی حکومت نے حقائق کو سمجھتے ہوئے درست فیصلہ نہیں کیا۔ جب اپریل کے پورے مہینے محکمہ خوراک کے اہلکاروں نے گندم کی خریداری شروع نہیں کی تو کسانوں کی پریشانیوں کا آغاز ہوا اور چند اخبارا ت اور ٹی وی چینلز میں کسانوں کی پریشانی کی خبریں شایع ہوئیں تو پنجاب کی حکومت نے اس کا نوٹس لیا مگر کوئی عملی اقدام نہ ہوا اور پھر جب کسان مکمل طور پر مایوس ہوئے اور دوسری طرف بارش نے تباہی مچائی تو پھرکسانوں نے شور شرابا شروع کیا۔ اصولی طور پر ایک عوامی فرد ہونے کی بناء پر مریم نواز کو کسان رہنماؤں سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے اور کسانوں کو واضح یقین دہانی کرانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب کسان رہنماؤں نے لاہور میں احتجاج کا اعلان کیا تو پولیس کو متحرک کیا گیا۔
پولیس کے اہلکاروں نے کسانوں کو گرفتار کر کے تھانوں میں بند کیا اور کسانوں کے جلوسوں پر طاقت کا بیہمانہ استعمال ہوا ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گونج قومی میڈیا سے اب بین الاقوامی میڈیا پر سنائی دی گئی اور بین الاقوامی اخبارات میں رپورٹیں شایع ہوئیں اور کئی چینلز نے وڈیو وائرل کی۔ جب حزب اختلاف کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تو بے قصور کسانوں کو لاہور اور دیگر شہروں کے تھانوں میں بند تھانوں سے رہائی ملی۔
ایک صحافی نے حکومت پنجاب کی مجبوریاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس نہ تو رقم ہے نہ گوداموں میں جگہ ہے مگر محض کسانوں کا تنازع کو نظرانداز کرکے صورتحال معمول پر نہیں لائی جاسکتی۔ حکومت پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ گندم میں نمی پیدا ہونے کی بناء پر حکومت خریداری نہیں کررہی۔ کسان اس جواز کو مسترد کرتے ہیں۔ مگر سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ گندم درآمد کرنے کے معاملے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ نجی شعبے نے گندم درآمد کی تھی۔ گندم کی خریداری کی سمری کابینہ میں آئی تھی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت گندم سستی تھی اس لیے گندم درآمد کی گئی اور یہ سارا بحران دراصل باردانا مافیا، فرٹیلائزر مافیا اور دیگر گروہوں نے پیدا کیا ہے۔ فری ٹریڈ کی بناء پر کسی اشیاء کی درآمد پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
انوارالحق کاکڑ کہتے ہیں کہ گندم کی درآمد کا مطالبہ صوبائی حکومتوں کے بیوروکریٹس نے کیا تھا جو آج بھی اپنے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی تجارت پر نظر رکھنے والے بعض صحافیوں کا یہ بیانیہ ہے کہ نگران حکومت نے امریکا کے دباؤ پر یوکرین سے گندم کی خریداری کی اجازت دی تھی۔ وزیر اعظم نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور یقیناً ان تحقیقات سے بہت سارے حقائق سامنے آئیں گے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود پنجاب کے کسانوں کے دکھوں کا مداوا ہونا ضروری ہے۔
[ad_2]
Source link