[ad_1]
ہندوستان کے انتخابی میدان میں ایک بڑی ’’مہابھارت‘‘ شروع ہو چکی ہے۔یہ معرکہ ہندوستان کی دو بڑی جماعتوں،حکمران بی جے پی اورسب سے اہم اپوزیشن جماعت کانگریس اور دونوں کی اتحادی جماعتوں کے اتحاد کے درمیان ہو رہا ہے،یہ معرکہ ملک سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر دے گا، عمومی طور پر حکمران جماعتوں کو عام انتخابات میں جواب دہی کا سامنا ہوتا ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس امتحان سے نہیں گزرنا پڑتا لہٰذا وہ کم دباؤ کا شکار ہوتی ہیں،تاہم، ہندوستان میں معاملہ کچھ مختلف نظر آرہا ہے کیونکہ اپنی سیاسی اور نظریاتی کمزوریوں سے قطع نظر بر سراقتدار اتحاد نے معاشی محاذ پر غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ہے جس کے باعث حکومت مخالف جماعتوں کو انتخابی کامیابی کے لیے سخت محنت اور جارحانہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنی پڑ رہی ہے۔
اس تناظر میں، کانگریس اور بی جے پی کی تمام مخالف جماعتوں اور گروپوں نے حالیہ عام انتخابات سے کافی پہلے ہی متحد ہو کر ایک مضبوط INDIA نامی انتخابی محاذ بنا لیا تھا اور ایک اجتماعی اعلان کے ذریعے، عوام کے سامنے خود کو ایک سیاسی متبادل کے طور پر پیش کر دیا تھا۔ ہندوستان کے ذرایع ابلاغ نے اس اہم پیش رفت کو نہایت اہم قرار دیا تھا۔
ہندوستان کے ایک اردو اخبار نے،اپوزیشن کے گرینڈ الائنس اور اس کے مشترکہ اعلان نامے کے حوالے سے لکھتا تھا کہ کانگریس اور اپوزیشن کی 26 جماعتوں کے لیڈروں کے کرناٹک کے دارالحکومت،بنگلورمیں تشکیل پانے والے اتحاد ’انڈیا‘نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا اجتماعی عہد کرتے ہوئے فیصلہ کہا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں،بی جے پی کے تقسیم نظریہ کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ کریں گی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم‘ ہندوستان کی 26 ترقی پسند جماعتوں کے دستخط شدہ لیڈر آئین میں درج ہندوستان کے نظریہ کا دفاع کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ بی جے پی کی طرف سے منظم طریقے سے ہماری جمہوریہ کے کردار پر شدید حملہ کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنے ملک کی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر ہیں۔
ہندوستانی آئین کے بنیادی ستونوں یعنی سیکولر جمہوریت، معاشی خودمختاری، سماجی انصاف اور وفاقیت کو منظم اور خطرناک طریقے سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ اعلان میں کہا گیا تھا، ’’ہم منی پور میں پیش آنے والے انسانی المیے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی خاموشی حیران کن اور بے مثال ہے۔
منی پور کو امن اور مفاہمت کی راہ پر واپس لانے کی فوری ضرورت ہے۔ ہم جمہوری طور پر منتخب ریاستی حکومتوں کے آئین اور آئینی حقوق پر جاری حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہماری سیاست کے وفاقی ڈھانچے کو دانستہ طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کا کردار آئینی معیارات سے تجاوز کر گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجتماعی موقف میں مزید کہا گیا، ’’سیاسی حریفوں کے خلاف بی جے پی حکومت کی ایجنسیوں کا کھلم کھلا غلط استعمال ہماری جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کی جائز ضروریات، تقاضوں اور حقوق سے مرکز کی طرف سے فعال طور پر انکار کیا جا رہا ہے۔
ہم اشیائے ضروریہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ریکارڈ بے روزگاری کے سنگین معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کو مضبوط کرتے ہیں۔ نوٹوں کی منسوخی اپنے ساتھ ایم ایس ایم ای اور غیر منظم شعبوں میں بد ترین تباہی لائی، جس کے نتیجے میں ہمارے نوجوانوں کے لیے بڑے پیمانے پر بے روزگاری آئی۔ہم من پسند دوستوں کو ملکی جائیداد کی لاپرواہی سے فروخت کی مخالفت کرتے ہیں۔
ہمیں ایک مضبوط اور اسٹرٹیجک پبلک سیکٹر کے ساتھ ساتھ ایک مسابقتی اور فروغ پذیر پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے ایک منصفانہ معیشت کی تعمیر کرنی چاہیے، جس میں انٹرپرائز کے جذبے کو پروان چڑھایا جائے اور توسیع کا ہر موقع فراہم کیا جائے۔ کسان اور کھیت مزدور کی فلاح و بہبود کو ہمیشہ اولین ترجیح ملے اپوزیشن اتحاد نے اقلیتوں کے حوالے سے کہا کہ ہم اقلیتوں کے خلاف پیدا کی جا رہی نفرت اور تشدد کو شکست دینے کے لیے ساتھ ہیں اور خواتین، دلتوں، قبائلیوں اور کشمیری پنڈتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لیے تمام سماجی، تعلیمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک منصفانہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور پہلے قدم کے طور پر ذات پر مبنی مردم شماری نافذ کریں گے۔اپوزیشن جماعتوں نے کہا، ’’ہم اپنے ساتھی ہندوستانیوں کو نشانہ بنانے، ہراساں کرنے اور دبانے کی بی جے پی کی منظم سازش کا مقابلہ کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ ان کی نفرت پر مبنی مہم نے حکمران جماعت اور اس کے تفرقہ انگیز نظریے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف شیطانی تشدد کو جنم دیا ہے۔
یہ حملے نہ صرف آئینی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ ان بنیادی اقدار یعنی آزادی مساوات اور بھائی چارہ کو بھی تباہ کر رہے ہیں جن پر جمہوریہ ہند کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔بی جے پی کی جانب سے ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ تخلیق اور دوبارہ لکھ کر عوامی بیانیہ کو آلودہ کرنے کی بار بار کوششیں سماجی ہم آہنگی کی توہین ہے ۔ ہم قوم کے سامنے ایک متبادل سیاسی، سماجی اور اقتصادی ایجنڈا پیش کرتے ہیں۔ ہم حکمرانی کے جوہر اور انداز دونوں کو تبدیل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں جو زیادہ مشاورتی، جمہوری اور شراکت دار ہو گا۔‘‘
INDIA نامی اس 26 جماعتی ترقی پسند اپوزیشن اتحاد کا خیال ہے کہ وہ اپنے روایتی ووٹ بینک کے علاوہ مذہبی،نسلی،لسانی اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں اور نچلی ذاتوں کی حمایت سے حکومتی اتحاد NDA کو شکست دے کر اقتدار میں آ سکتا ہے ،تا ہم وزیراعظم نریندر مودی اپوزیشن کے تاسیسی اجلاس کو ’’گٹر کانفرنس‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اس انتخابی جنگ میں عوام کس اتحاد کے سر پر اقتدار کا تاج سجاتے ہیں اس کا فیصلہ اس وقت جاری، 18ویں لوک سبھا،انتخابات میں ہو جائے گا۔ پاکستان، میں عام انتخابات کے بعد منتخب جکومت بر سر اقتدار آ چکی ہے،ہندوستان میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے اور چند ماہ بعد امریکا میں صدارتی انتخاب ہونے والے ہیں۔یہ تینوں انتخابات اور ان کے نتائج بڑی اہمیت کے حامل ہیں جو نہ صرف متعلقہ ملکوں کی داخلی بلکہ علاقائی و عالمی صورت حال پر بھی اثرانداز ہوں گے۔
[ad_2]
Source link