11

یکطرفہ مذاکرات کی لاحاصل کوشش

[ad_1]

پی ٹی آئی میں یک طرفہ مذاکرات کی کوشش خود ان کے اپنے ہی رہنماؤں کے بیانات کے باعث مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ بانی چیئرمین نے اپنی قید میں جو تین رکنی کمیٹی بنا کر اسے ہی مذاکرات کا اختیار دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے طور پر مذاکرات چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی رہنما خود اپنے بانی کے اقدام کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جو پی ٹی آئی میں جاری تضادات کو نمایاں کر رہا ہے اور ان کے باہمی اختلافات میں نمایاں ہو چکے ہیں۔ بانی چیئرمین نے مذاکرات ہی کے لیے اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کو اختیار دیا ہے تو ان کے چیئرمین کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات ہو رہے ہیں نہ بانی نے کسی کو ہدایات دی ہیں۔

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات نہیں ڈیل کی درخواستیں دے رہی ہے اور داخلی گروہ بندی کا شکار ہے، جہاں پر ہر ایک گروہ نے اپنا اپنا بیانیہ بنا رکھا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان کا کہناہے کہ مذاکرات صرف پولیٹیکل فورسز کے ساتھ ہوں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انھیں بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی ڈیل کا علم نہیں جو کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنی ہے تو ان ہی کے پاس تفصیلات ہوں گی حکومت کو تو اس سلسلے میں کچھ پتا نہیں ہے۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل یا این آر او کی تلاش میں ہیں۔

پی ٹی آئی کے خیال میں کوئی اور انھیں این آر او نہیں دے سکتا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ہم تین پارٹیوں کے علاوہ سب سے بات کرنے کو تیار ہیں، ہم ڈیل کے ذریعے اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما شہریار آفریدی کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی غیر سیاسی بالا تروں سے مذاکرات کرنے سے انکاری نہیں ہے۔

اپنے اقتدار میں بار بار یہ دعوے کرنے والا پی ٹی آئی وزیر اعظم کہا کرتا تھا کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا جب کہ ان سے کسی نے این آر او نہیں مانگا تھا، نہ اپوزیشن پارٹیوں کو حکومت سے این آر او لینے کی خواہش تھی، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا وزیر اعظم سب پارٹیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کر چکا تھا سب کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کر طویل قید ہی میں نہیں رکھا تھا بلکہ انھیں جیلوں میں حاصل قانونی سہولیات بھی واپس لینے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے تمام حکومتی کارروائیوں کا سامنا کیا حکومت کے سامنے نہیں جھکے تھے، نہ انھوں نے اپنی رہائی کی خواہش کی تھی اور عدالتوں میں جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا تھا اور طویل اسیری برداشت کی تھی اور ملک کی عدالتوں سے ہی انھیں ثبوت نہ ہونے پر ضمانتیں ملی تھیں۔

موجودہ (ن) لیگی حکومت اور سابقہ پی ڈی ایم حکومت کا یہ کہنا درست تھا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد عدالتوں سے جیسے بانی پی ٹی آئی اور ان کے رہنماؤں کو ریلیف ملنے کا ریکارڈ قائم ہوئے تھے انھیں تو پی ٹی آئی حکومت میں اتنا عدالتی ریلیف نہیں ملا تھا نہ ججز ان پر مہربان تھے جب کہ اب صورت حال مختلف ہے۔ عمران خان کو ضمانتیں بھی ملی ہیں اور ان کی سزائیں بھی معطل ہوئی ہیں مگر ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔

عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت میں شامل کسی پارٹی اور حکومت سے مذاکرات سے صاف انکار کر چکی ہے کیونکہ ان کے خیال میں حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں اور اسی لیے عمران خان نے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی اور موجودہ حکومت کو وہ غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔

ماضی میں ہمیشہ مذاکرات حکومت کے ساتھ ہی ہوئے کبھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات نہیں ہوئے جن کے برعکس پی ٹی آئی پہلی بار غیر آئینی مذاکرات چاہتی ہے ، آئینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی پارٹی سے مذاکرات نہیں کر سکتی ہے ۔

اب پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے آئینی کردار تک محدود رہے اور سیاست میں مداخلت نہ کرے یہ خیال پی ٹی آئی کو ماضی میں کبھی نہیں آیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی 2011 کے جلسے کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مخالف قوتوں کی مدد سے ہی سیاست کر رہی تھی اور 2018 کے انتخابات میں وہ جس طرح سے اقتدار میں آئی تھی اس کا سب کو پتا ہے۔ اپنے اقتدار میں عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی حکومت ہی کسی دوسری قوت کے ذریعے چلا رہے تھے اور انھوں نے ہی اس قوت کو سیاست میں ملوث بھی کیا تھا۔

اب بھی پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ انھیں ہر صورت چاہے غیر آئینی طور پر اقتدار دلایا جائے۔ پی ٹی آئی اور اس کے بانی خود ایسی مقتدر قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ قوتیں موجودہ حکومت سے انھیں اقتدار دلا دے جو غیر آئینی ہو سکتا ہے آئینی نہیں۔ پی ٹی آئی اپنے طور پر اسٹیبلشمنٹ سے یکطرفہ مذاکرات چاہتی ہے جو ناممکن ہیں اور یہ پی ٹی آئی کی لاحاصل کوشش ہے جو غیر آئینی خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی اور پی ٹی آئی کو سیاسی پارٹیوں سے ہی مذاکرات کرنا ہوں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں