[ad_1]
’’ہمارا خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے میں سامنے آنا پڑ گیا‘‘ ان کی آواز‘ آنکھوں اور چہرے پر عجیب قسم کی چمک تھی‘ نفسیات دان اس چمک کو ’’نیگیٹو انرجی‘‘ کہتے ہیں‘ ہم میں سے بہت سے لوگ اندر سے منفی ہوتے ہیں‘ برے واقعات‘ ڈیزاسٹرز اور بری خبریں ان لوگوں کی خوراک ہوتی ہیں چناں چہ انھیں جہاں بھی یہ چارہ نظر آتا ہے ان کے چہروں‘ آنکھوں اور آواز میں توانائی آ جاتی ہے‘ یہ لوگ اندر سے خوش ہو جاتے ہیں اور میرے یہ جاننے والے بھی ایسی ہی مخلوق ہیں‘ یہ ہر بری اور افسوس ناک خبر پر چمک اٹھتے ہیں‘ یہ منگل کی رات بھی چہک رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا ’’عمران خان سپیرا ہے اور اس نے نفرت کا سانپ بل سے باہر نکال دیا ہے‘ یہ سچ کہتا تھا میری لڑائی سیاسی جماعتوں اور حکومت سے نہیں‘ میرا ہدف فوج ہے جب کہ فوج دو سال سے سیاست دانوں اور حکومت کے پیچھے چھپ رہی تھی‘ عمران خان نے اپریل کے آخر میں اپنی پالیسی تبدیل کی اور اس نے پی ٹی آئی کے آفیشل پیجز سے فوج کو براہ راست ہدف بنانا شروع کر دیا‘ اس نے جیل میں جنرل عاصم منیر کا نام بھی لیا‘ اس کا کہنا تھا ’’اگر بشریٰ بی بی کو کچھ ہوا تو جنرل عاصم منیر اس کے ذمے دار ہوں گے اور میں قیامت تک ان کا پیچھا کروں گا۔
اس نے ڈی جی آئی کا نام بھی لیا اور پھر چیئرمین نیب جنرل (ریٹائرڈ) نذیراحمد بٹ کی یونیفارم میں تصویر لگا کر نامناسب القابات سے بھی نوازا‘ عمران خان نے 9 مئی کو پورے ملک میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور اس نے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو بھی ساتھ ملا لیا چناں چہ فوج پریشر میں آ کر پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہو گئی اور اب عمران خان اکیلا اسلامی دنیا کی پانچویں بڑی اور ایٹمی فوج کے سامنے کھڑا ہے‘ میرا کپتان ٹیپو سلطان کی طرح گیدڑ کی سو سالہ زندگی کو شیر کی ایک دن کی زندگی پر وار دے گا‘ آپ اب تماشا دیکھنا‘‘ وہ اس کے بعد چٹکیاں بجانے لگے اور قہقہے لگانے لگے جب کہ میں انھیں افسوس سے دیکھ رہا تھا۔
عمران خان میں بے شک بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ گیوپ اپ نہیں کرتا‘ حالات خواہ کتنے ہی ناساز کیوں نہ ہوں یہ اپنے موقف پر ڈٹا رہتا ہے‘ مایوس نہیں ہوتا‘ اس نے جیل بھی کاٹ کر دکھا دی‘ میرے سمیت ننانوے فیصد لوگوں کا خیال تھا عمران خان جیل نہیں کاٹ سکے گا‘ یہ ٹوٹ جائے گا اور معافی مانگے گا لیکن اس شخص نے جیل کو اپنا گھر بنا کر واقعی سب کو حیران کر دیا اور 8 فروری کے الیکشن میں بھی عمران خان نے انتخابی نشان اور امیدواروں کے بغیر میلہ لوٹ لیااور نئی تاریخ رقم کر دی لیکن ہم جب عمران خان کی ضد کو دیکھتے ہیں تو ان کی یہ ساری خوبیاں اس کے سامنے بونی محسوس ہوتی ہیں۔
عمران خان کو اس کی ضد کھا رہی ہے‘ یہ اگراکیلا اس کا شکار ہوتاتو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن المیہ یہ ہے پوری قوم اس بے کار ضد کا لقمہ بن رہی ہے‘ ملک اس کا شکار بن چکا ہے‘ عمران خان کو اقتدار کا ’’جیک پاٹ‘‘ ملا تھا لیکن اس نے ساڑھے تین برسوں میں اسے بری طرح برباد کر دیا‘ خان نے بارہ کروڑ لوگوں کا صوبہ عثمان بزدار کے حوالے کر دیا اور آخری وقت تک خواجہ سرا کے صاحب اولاد ہونے کا انتظار کرتا رہا‘ کے پی میں محمود خان ان کا شاہ کار تھا اور اس شخص نے صوبے کے ساتھ ساتھ پارٹی کا جنازہ بھی نکال دیا‘ عمران خان نے نریندر مودی سے لے کر پرنس محمد بن سلمان‘ جوبائیڈن‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد تک سے بگاڑ لی۔
کابینہ میں روز تبدیلی ہوتی تھی اور قلم دان اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتے دیر نہیں لگاتے تھے‘ وہ ساڑھے تین سال اپوزیشن کو عبرت کی نشانی بنانے کے چکر میں برباد ہو گئے اور آخر میں جب یہ بربادی فوج کے دروازے تک پہنچ گئی اور فوجی قیادت کو یہ محسوس ہونے لگا یہ ہمارا سسٹم بھی برباد کر دے گا تو اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور یوں گورنمنٹ چلی گئی‘ عمران خان کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں125 سیٹیں(مخصوص نشستیں نکال کر) اور سینیٹ میں اکثریت تھی‘ پنجاب‘ کے پی‘ کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومتیں بھی تھیں۔
یہ لوگ اگر صبر کر لیتے تو پی ڈی ایم کی حکومت دو ماہ نہیں نکال سکتی تھی اور یوں عمران خان دوبارہ حکومت بنا لیتے یا پھر نئے الیکشن ہو جاتے لیکن عمران خان نے ضد میں آ کر قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے اور آخر میں پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی توڑ دیں اور یوں پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں مضبوط ہو گئے‘ عمران خان جس دن ٹھنڈے دل سے سوچے گا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گا انھیں 9 مئی جیسی حماقت نہیں کرنی چاہیے تھی‘ آپ کو کور کمانڈر ہاؤس جانے کی کیا ضرورت تھی‘ آپ کوجی ایچ کیو اورپشاورریڈیو اسٹیشن پر حملوں کی بھی کیا حاجت تھی؟ آپ پرامن احتجاج کرتے‘ چیف جسٹس ویسے بھی ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کے ساتھ آپ کا انتظار کر رہے تھے مگر عمران خان کے سر پر امام خمینی بننے کا بھوت سوار تھا‘ اس کا خیال تھا اس کے کارکن فوجی تنصیبات پر حملے کرتے چلے جائیں گے‘ لوگ ہزاروں سے کروڑوں میں بدل جائیں گے اور یہ آخر میں پولیس لائن اسلام آباد پر حملہ کر کے مجھے چھڑا کر لے جائیں گے اور اس کے بعد حکومت اور ریاست دونوں دم توڑ دیں گی لیکن یہ نہ ہو سکا اور عمران خان پھنستے چلے گئے۔
عمران خان کو قسمت نے 8 فروری 2024کے الیکشن کی شکل میں ایک اور موقع دیا تھا‘ عوام نے انھیں ووٹ اور سیٹیں بھی دیں‘ یہ اگر اس وقت سیز فائر کر دیتے‘ یہ فرما دیتے ہم کے پی میں حکومت بنا رہے ہیں اور ہماری حکومت مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں پورے ملک کو حیران کر دے گی‘ ہم قومی اسمبلی میں بھی اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے تاہم ہمیں الیکشن کے نتائج پر اعتراض ہے اور ہم یہ اعتراض لے کر ٹریبونلز میں جا رہے ہیں۔
آپ یقین کریں اس ایک اعلان کے بعد آج عمران خان رہا بھی ہو چکے ہوتے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ٹھیک ہو چکے ہوتے اور اس وقت میاں شہباز شریف کی گھر واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہوتا لیکن عمران خان کی ضد نے انھیں ایک بار پھر آتش فشانی پہاڑ کے دامن میں لا کھڑاکیا اور ان کے سر پر لاوا گرنے لگا‘ ہمیں اب یہ ماننا ہو گا عمران خان جیل میں فرسٹریشن کا شکار ہیں‘ یہ جانتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین دلا رکھا ہے عمران خان جیل سے باہر نہیں آئیں گے‘ ملک میں افراتفری نہیں ہو گی اور سڑکیں بھی دوبارہ بلاک نہیں ہوں گی‘ یہ جانتے ہیں حکومت کم زوری کے باوجود ٹھیک پرفارم کر رہی ہے۔
اسٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں‘ غیر ملکی سرمایہ کار آ رہے ہیں‘ یہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ آئی ایم ایف بھی ملک کو سپورٹ کر رہا ہے‘ مہنگائی بھی کم ہو رہی ہے اور اب انڈسٹری بھی چلنا شروع ہو چکی ہے‘ یہ جانتے ہیں یہ سلسلہ اگر مزید چھ ماہ چل گیا تو ملک کی سمت درست ہو جائے گی اور اکانومی ٹیک آف کر جائے گی‘ یہ جانتے ہیں ان کی پارٹی بھی آپس میں تقسیم ہو چکی ہے‘ نظریاتی سیاست دان وکلاء کی نئی لاٹ کو پسند نہیں کر رہے‘ پارٹی بنانے والے باہر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں جب کہ شیرافضل مروت جیسے لوگ مزے کر رہے ہیں اور یہ لوگ یہ نہیں چاہتے میں باہر آؤں کیوں کہ اگر میں باہر آ گیا تو ان کی اہمیت ختم ہو جائے گی چناں چہ یہ جانتے ہیں میرے پاس یہی تین چار مہینے ہیں۔
میں اگر آج باہر نہ آیا تو پھر میں پانچ سال باہر نہیں آ سکوں گا اور پانچ برسوں کے بعد راوی کیا لکھتا ہے اور کیسے لکھتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لہٰذا عمران خان نے فرسٹریشن میں 7مئی کر دیا‘ ان کے لوگوں کا خیال ہے ہم نے فوج کو ایکسپوز کر دیا‘ ہم نے انھیں باہر نکل کر اپنے سامنے کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا جب کہ معاملہ بالکل الٹ ہے‘ فوج نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس کے جواب میں پی ٹی آئی نے ٹویٹر ٹرینڈ بنا کر اور جوابی پریس کانفرنس کر کے ثابت کر دیا ان کی لڑائی فوج سے ہے اور یہ فوج کو ہر صورت شکست دینا چاہتے ہیں چناں چہ پھر نقصان کس کا ہوا‘ عمران خان کا یا فوج کا؟۔
مجھے یہ لڑائی پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے‘ عدلیہ بھی اس میں داخل ہو چکی ہے اور یہ اگر نہ رکی تو خطرہ ہے یہ جنگ خدانخواستہ ملک کو 1971تک نہ لے جائے اور اگر ہم ایک بار پھر وہاں چلے گئے تو پھر ہماری واپسی ممکن نہیں ہو گی لہٰذا ہوش کی ضرورت ہے اور یہ اینی شیٹو صرف عمران خان کو لینا چاہیے۔
اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے‘ اسٹیبلشمنٹ کسی فرد کا نام نہیں‘یہ پورا ادارہ یا کئی اداروں پر مشتمل ہے‘ ایک جائے گا تو دوسرا آ جائے گا اور وہ بھی وہی کرے گا جو پچھلا کرتا رہا لہٰذا یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو سکے گی‘ خان کو چاہیے یہ ضد کی قربانی دے کر ملک‘ پارٹی اور اپنے آپ کو بچا لے‘ ضد سے آج تک کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ یہ بالآخر عمران خان کو بھی جلا کر راکھ کر دے گی‘ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
[ad_2]
Source link