[ad_1]
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر ایک عمومی رائے یہی نظر آئی ہے کہ یہ پریس کانفرنس تحریک انصاف کے حوالے سے تھی۔ جب کہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں یہ پریس کانفرنس پاکستان کے نظام عدل کے بارے میں تھی۔ میری رائے میں یہ پریس کانفرنس پاک فوج کا پاکستان کے نظام انصاف سے شکوہ تھا کہ آپ نے ایک سال میں نو مئی کے ملزمان کو سزائیں نہیں دی ہیں۔ میری رائے میں یہ پریس کانفرنس فوجداری نظام انصاف پر مایوسی کا اظہار تھا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ فوج دوسرے مضبوط ترین ادارے عدلیہ سے شکوہ کر رہا تھا کہ آپ نے ہمیں انصاف نہیں دیا۔ بلکہ ایسا کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ایک متاثرہ فریق جس کے گھر پر نو مئی کو حملہ ہوا تھا‘ عدلیہ کے سامنے دہائی دے رہا تھا کہ اس کے ملزم بھی آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔
اس کے مقدمات کا بھی کچھ نہیں بن رہا۔ بلکہ الٹا ملزمان اب یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ تم نے خود ہی اپنے گھر کو آگ لگائی ہے۔ اس کی تحقیقات کے لیے جیوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔ اس نظر سے دیکھیں تو اس پریس کانفرنس کا ایک اور پہلو آپ کے سامنے آئے گا۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے اس کے عمرانی ریموٹ کنٹرول رہنماؤں کی پریس کانفرنس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب کو علم ہے کہ نو مئی کے بعداسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف سے بات کرنے کے لیے تیار نہیںہے ۔ اس لیے جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم بات نہیں کریں گے تو یہ کوئی خبر نہیں تھی۔
مجھے اورآپ کو سب کو علم ہے کہ وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس میں خبر والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ البتہ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے بار بار یہ کہہ کر یہ ماحول ضرور بنایا ہوا تھا کہ ہم بات صرف فوج سے کریں گے۔لیکن دوسری طرف فوج کی صورتحال بالکل واضح تھی اور واضح ہے۔
یہ بات بھی کوئی نئی نہیں کہ پہلے عوام کے سامنے نو مئی کے حوالے سے غیر مشروط معافی مانگی جائے کہ پھر بات کرنے کے بارے میں سوچا جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی بھی پرانی ہے کہ پہلے نو مئی کی ذمے داری قبول کریں۔ تسلیم آپ نے یہ سب کیا ہے اور آپ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔ پھر معافی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ کسی صلح کے موڈ میں نہیں ہے۔ فوج کا موقف ہے کہ پہلے آپ نومئی کی ذمے داری قبول کریں قوم کے سامنے معافی مانگیں، بند کمرے میں معافی نہیں مانگنی۔ پھر آپ کو معاف کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ صلح کی کوئی صورتحال نہیں۔ معافی کی صورتحال ہے۔ معافی میں مذاکرات نہیں ہوتے۔ کوئی شرائط نہیں ہوتیں۔ صلح میں مذاکرات ہوتے ہیں،شرائط ہوتی ہیں۔ اس فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔ ایک سال سے یہی پالیسی چل رہی ہے۔ تحریک انصاف کو اس کا علم ہے۔
نو مئی پر جیوڈیشل کمیشن کے بارے میں فوج کا موقف بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ وہ اس کو پہلے بھی مسترد کر چکے ہیں‘ اب بھی وہی صورتحال ہے۔ اس لیے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ نو مئی فوج کا فالس فلیگ اپریشن تھا‘لہٰذا اس پر جیوڈیشل کمیشن بنائیں ۔ یہ سب تحریک انصاف کے سیاسی الزامات اور مطالبات رہے ہیں جب کہ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی ایسے کسی مطالبہ کی حمایت کی ہے۔
وہ تو پہلے دن سے نو مئی کے ملزمان کو سخت سزائیں دینے کی بات کر رہی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کی بات کر رہی ہے۔ فوج ان ملزمان کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی بات کر رہی ہے۔ اس لیے اس پریس کانفرنس میں پرانا موقف ہی دوبارہ دہرایا گیا ہے۔
آج عدلیہ اور فوج کے سامنے تناؤ کی جو صورتحال نظر آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نو مئی ہے۔ فوج کی رائے میں نو مئی کے ملزمان کے ساتھ عدلیہ کی جانب سے رعایت برتی گئی ہے۔ جب فوج کپیٹل ہل کے ملزمان کی سزاؤں کی مثال دیتی ہے۔ جب فوج لندن فسادات کے ملزمان کو سزاؤں کی مثال دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہاں کے نظام عدل اور فوجداری نظام انصاف نے کیسے دن رات کام کرکے ملزمان کو سخت سزائیں دیں تا کہ ان کے ممالک میں دوبارہ ایسے واقعات نہ ہو سکیں۔ تو فوج پاکستان کی عدلیہ کو کہہ رہی ہوتی ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ دنیا کے نظام عدل کا ایسے واقعات پر رویہ دیکھیں اور اپنا رویہ دیکھیں۔ آپ دنیا کے نظام عدل کے ایسے واقعات پر کام کی رفتار دیکھیں اور اپنی رفتار دیکھیں۔ دنیا کے نظام عدل کی اپنے اپنے ممالک میں ایسے واقعات پر سنجیدگی دیکھیں اور پاکستان کے نظام عدل کو دیکھیں۔
کیا نظام عدل سے گلہ جائز ہے؟ میں سمجھتا ہوں جائز ہے۔پاکستان بھر میں 9مئی کو تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کرائے‘ وہاں لوٹ مار کی‘ فوجی شہداء کی یاد گاروں کو توڑا‘ وردیاں پھاڑی اور لہرائی گئیں‘ لیکن پاکستان کے نظام انصاف کے ذمے داران نے اسے اتنا سنجیدہ نہیں لیا جتنا لیا جانا چاہیے تھا۔
نو مئی کے ملزمان سے عدالتوں میں ملزم کے بجائے ہیروز جیسا سلوک کیا گیا۔ ان کی گرفتاریوں پر ایسا رد عمل دیا گیا جیسے قومی ہیروز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شہر یار آفریدی کی گرفتاری اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ان کی نو مئی کے حوالے سے وڈیو موجود ہے کہ سب جی ایچ کیو چلیں۔ لیکن ان کو نہ صرف فوری رہا کیا گیا بلکہ ان کی دوبارہ گرفتاری پر ایک محاذ ہی بنا لیاگیا۔ جیسے کسی قومی ہیرو کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
آج کل ججز خود سوشل میڈیا پر اپنے خلاف پراپیگنڈہ پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان نے سوشل میڈیا پر اپنے خلاف مہم پر چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ لیکن کیا کسی کواس غلیظ اور توہین آمیز سوشل میڈیاکا احساس ہے جو تحریک انصاف نے مسلسل فوج کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔
[ad_2]
Source link