10

ناپاک جسارتوں پر خاموشی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

بارہ تیرہ روز قبل سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ 27اپریل 2024 کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے علاقے اسکارہولمین میں ایک بد بخت و ملعون خاتون نے پچاس سے زائد پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں قرآن پاک کو نذر آتش کیا اور اسلام کے خلاف نفرت و اشتعال انگیز جملے بولتی رہی۔ وہاں پولیس اہلکاروں کی موجودگی کا مقصد اس جنونی خاتون کو جسارت سے روکنا نہیں بلکہ اسے تحفظ دینا تھا کہ کہیں کوئی موقع پر ہی اس کا کام تمام نہ کردے۔

اِس ناپاک جسارت نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور دلوں کو شدید صدمہ پہنچایا ۔ مگر مسلم ممالک کی حکومتیں اپنی روایتی بے حسی کی پالیسی پر کار بند ہیں۔ ابھی تک کسی اسلامی ملک کی جانب سے اس واقعے پر احتجاجی بیان تک سامنے نہیں آیا۔

یہ حقیقت ہے کہ اِس وقت مغربی ممالک میں ایک انتہا پسند گروہ اسلام دشمنی کی آگ میں بری طرح جل رہا ہے، یہ دو چار برس کا قصہ نہیں، دہائیوں کی تاریخ پر مشتمل کھلی داستان ہے جس کا آغاز سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد ہوا۔ جب سوویت یونین ٹوٹا تو مغرب کے ایک نہام نہاد دانشور سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب ’’کلیش آف سویلائزیشن‘‘ میں اسلام کو مغربی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا۔ اُسی کی لگائی ہوئی یہ آگ نائن الیون کے بعد شدت پکڑ گئی۔

اسلاموفوبیا کا شکار مغرب نے دنیا کے سب سے پرامن مذہب کو دہشت گردی کا لبادہ اوڑھانے کے لیے پورا زور لگایا۔ داڑھی، پگڑی اورا سکارف کے خلاف نفرت آمیز رویوں سے شروع ہونے والی یہ تحریک رفتہ رفتہ توہین قرآن کی ناپاک جسارتوں تک پہنچ گئی اور یوں یورپی ممالک میں اسلامو فوبیا کی لہر نے مزید شدت اختیار کی جس کے اثرات یورپ تک محدود نہیں رہے بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔

سویڈن میں تو ایک تسلسل کے ساتھ اس طرح کی اشتعال انگیز جسارتیں ہورہی ہیں۔ لیکن سویڈن کی حکومت نے بجائے اس سلسلے کو روکنے کے گزشتہ سال جولائی میں سویڈن میں تورات اور انجیل کے نسخہ جات کو جلانے کا اجازت نامہ بھی جاری کردیا تھا جس کی پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی پرزور مذمت کی۔ اس وقت سویڈش پولیس نے بتایا تھا کہ انھوں نے ایک احتجاج کے لیے اجازت نامہ دے دیا جس میں اسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر مقدس کتابوں کو نذر آتش کیا جائے گا۔

یہ اجازت نامہ ایک گھناؤنی سازش معلوم ہوتی تھی۔ کیونکہ کوئی بھی اہل ایمان تورات اور انجیل جلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مسلمان تو سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ مسلمان پر اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان لانا لازم ہے ان پر ایمان لائے بغیر کوئی بندہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’رسول اس پر ایمان لایا جو اُس پر اس کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا، اور تمام مومن بھی ایمان لائے، سب کے سب اللہ تعالیٰ پر، اور اللہ کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہم اللہ تعالیٰ کے کسی بھی رسول کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔‘‘

ان کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کا بھی ذکر ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان کسی آسمانی کتاب کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ اہل مغرب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش معلوم ہوتی تھی تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا، احتجاج اور تورات و انجیل جلانے کی اجازت لینے والے احمد نامی شخص نے بعد ازاں بتایا کہ اس کا ہرگز مقصد تورات و انجیل جلانے کا نہیں تھا، یہ صرف اسلامو فوبیا کا شکار ان لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لیے محض ایک دھمکی تھی جو قرآن پاک جلا کر اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں۔

قرآن پاک نذر آتش کرنے کی ناپاک جسارت کے ردعمل میں تورات اور انجیل جلانے کی دھمکی کا کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ مغربی ممالک میں اسلام کے مقدسات کی بار بار توہین اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں آتی ہے بلکہ یہ صرف اور صرف اسلام دشمنی ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت پونے دو ارب مسلمان لاوارث ہیں،اسلامی ممالک ترقی یافتہ مغربی ممالک سے مرعوب ہیں‘ مسلم ممالک کے حکمران طبقات کے مفادات امریکا اور مغربی یورپ سے وابستہ ہیں‘ ان کی اولادیں مغربی ممالک میں رہتی ہیں‘ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور کاروبار بھی وہاں بیٹھ کر کرتے ہیں۔

اس لیے وہ خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں مسلم ممالک کے حکمران طبقات کے انھی مغربی ممالک میں جسارتوں کا سلسلہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اِسی لیے یورپ اور امریکا میں ایک مخصوص گروہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کھلی اسلام دشمنی پر اترے ہوئے ہیں الٹا پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ یہاں مذہبی عدم برداشت، تشدد اور امتیازی سلوک کا ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اِن الزام تراشیوں کا واحد مقصد پاکستان کو دباؤ میں لاکر توہین رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کو ختم کرنا ہے مگر امریکا اور یورپ جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ کبھی پورا نہیں ہوگا انشاء اللہ۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے مغرب میں تیزی سے پھیلنے والے اللہ رب العزت کے دین مبین اسلام اورامت مسلمہ سے خوفزدہ ہیں مگر سیموئیل ہنٹنگٹن نے نفرت کا جو بیج بو دیا ہے اب اِس کی فصل پک کر تیار ہوچکی ہے جو تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن رہی ہے۔ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی ایک بڑی وجہ وہاں کے لوگوں کا اظہار رائے کی آزادی بھی قرار دیا جانا ہے۔

ان کے ہاں اظہار رائے کی آزادی کا تصور غیر محدود ہے، یہ مغرب کا دہرا معیار ہے جس کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں امت مسلمہ کے محبوب پیغمبر، خاتم النبیین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی توہین کی جاتی ہے اوردوسری طرف ہولوکاسٹ پر لب کشائی کی اجازت نہیں ہے۔

اگر ہولوکاسٹ پر لب کشائی کی اجازت نہیں ہے تودوسرے مذاہب کے مقدسات کی توہین کیوں کی جاتی ہے؟ ہولوکاسٹ پر بات کرنے والے کو سزا ہوسکتی ہے تو پھر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں کو سزائیں کیوں نہیں مل سکتی؟ اظہار رائے کی آزادی کی کوئی حدود و قیود بھی ہیں، انسان کی آزادی اظہار رائے وہاں تک ہے جہاں کسی دوسرے کی دل آزاری نہ ہو۔

ایک طرف دنیا میں قیام امن کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اوردوسری طرف ایسی ناپاک جسارتیں کی جارہی ہیں جن کے باعث دنیا بھر میں بسنے والے اربوں انسانوں کے جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے، مغرب کے اس رویے سے دنیا آگ کا سمندر تو بن سکتی، امن کا گہوارہ نہیں۔ایسی گھناؤنی حرکتوں سے بین المذاہب مکالمے کے لیے کی جانی والی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اگر اہل مغرب کی جانب سے یہ سلسلہ نہ رکا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ دنیا سے امن اٹھ جائے گا اور تیسری عالمی جنگ کی بنیادی وجہ یہی ناپاک جسارتیں بنے گی۔ مسلمان حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنی بے حس خاموشی پر اللہ رب العزت سے معافی مانگنے کے ساتھ اپنا حق ادا کریں، ورنہ امت ان سے مایوس ہو چکی ہے کیونکہ یہ اسرائیلی درندوں کی بربریت پر آواز اٹھانے کی جرات کرسکے اور نہ ہی قرآن پاک اور رسول مقبولﷺ کی توہین پر کوئی احتجاج کر سکے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں