9

نائب اینڈ نائب لمیٹڈ کمپنی

[ad_1]

اچھا ہے، بہت اچھا ہے، یہ سلسلہ جو ’’نائب وزیراعظم‘‘ سے چل نکلا ہے یا نکلنے والا ہے۔کیونکہ ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ’’دسترخوان‘‘ پر کچھ لوگ تو شکم سیر ہوکر چر رہے ہیں لیکن کچھ بیچارے چل پھر کر یہاں سے وہاں سے ’’لقمے‘‘ توڑ توڑ کر گزارہ کر رہے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو شکم سیر ہوکر بھی اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں یعنی مستقل بیٹھے ہوئے ہیں۔

دسترخوان اور شکم سیری پر ایک’’حقیقہ‘‘دُم ہلانے لگا ہے۔کہتے ہیں ایک بزرگ کو دعوتیں اڑانے کا بہت شوق تھا،اکثر بڑے لوگ ان کو دعوت پر بلاتے بھی تھے۔لیکن اس بیچارے کے جسمانی سسٹم میں کوئی ایسا نقص تھا کہ ان کو پیٹ بھرجانے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ کچھ لوگ پیدائشی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی’’ٹنکی‘‘ بھی بڑی ہوتی ہے لیکن اس میں’’میٹر‘‘ بھی نہیں ہوتا۔خود ہمارے ایک دوست کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔

وہ کہا کرتا تھا کہ نہ تو کبھی مجھے بھوک لگی ہے اور نہ کبھی پیٹ بھرا ہے۔چنانچہ اس بزرگ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔اور اس کا متبادل اس نے یوں تلاش کیا کہ ایک شاگرد کو ہمراہ رکھتے تھے اور جب’’ہلا بول‘‘ یعنی جمعہ، جمعرات یا چہلم اور برسی کا موقع ہوتا تھا، اس شاگرد کی ڈیوٹی تھی کہ استاد کے نوالوں پر نظر رکھتا تھا اور ایک خاص وقت پر استاد کو فُل اسٹاپ کا اشارہ دے دیتا تھا۔لیکن ایک دن کسی امیر شخص کے ہاں دعوت میں انتظام یوں تھا کہ وی آئی پی قسم کے مہمانوں کے لیے الگ اور عام لوگوں کے لیے الگ انتظام تھا۔یوں وہ بزرگ خصوصی مہمانوں کے خانے میں فٹ ہوا جب کہ شاگرد عام مہمانوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔ شاگردجو استاد کا ’’میٹر‘‘ تھا، ان سے بچھڑ گیا۔دعوت خوب مرغن چرغن بھی تھی۔اور بقول استاد قمرجلالوی کہ اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے۔

اسے محفل بلکہ دسترخوان یا ’’پاکستان‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں خوب مالا مال تھا اور چونکا دینے والا بھی نہیں تھا، اس لیے استاد لگا رہا۔یہاں تک کہ جب سانس کے لیے بھی جگہ نہیں بچی،تو بیٹھے بیٹھے ہی ’’مڑ‘‘ہوگیا۔’’مڑ‘‘ کا لفظ پشتو میں’’مردے‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’’موڑ‘‘ شکم سیر کو کہتے ہیں۔ بعض اوقات سننے والوں کو مغالطہ ہوجاتا ہے کہ کوئی’’مڑ‘‘ ہوگیا ہے یا موڑ ہوگیا ،خاص طور پر پشاور شہر میں رہنے والے ہندکو بولنے والے اگر کہیں کہ مڑ ہوگیا۔تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کا پیٹ بھر گیا یا پیمانہ عمر یا لیڈر یعنی لوٹ لوٹ کر’’سیر‘‘ ہوگیا ہے۔کُل ملاکر بات یہ بنی کہ اس دسترخوان یا ’’خوان لغیما‘‘ سے کوئی اٹھتا تو ہے نہیں۔جب تک دنیا سے ’’اٹھ‘‘ نہیں جاتا، آوٹ نہیں ہوتا۔دوبارہ، سہ بارہ بلکہ ہل من مزید کا سلسلہ جاری ہے۔

گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

بلکہ اب تو امریکا میں اسی نوے سال تک یہ سلسلہ دراز ہوجائے گا۔جو ہمارے ہاں پہلے سے رائج ہے۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ایک صاحب یہ مثال قائم کرچکے ہیں کہ ’’مڑ‘‘ کا صحیح مطلب کیا ہوتا ہے؟ اب ایسی  حالت میں جب’’بیٹھے ہوئے‘‘ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ’’منتظرین‘‘ ادھر ادھر ٹہل کر انتظار کھینچیں گے اور حل یہی ہے کہ دسترخوان کو مزید وسیع کیا جائے لیکن پرابلم یہ ہے کہ پاکستان کا رقبہ تو بڑھایا نہیں جاسکتا ۔اس لیے یہی’’بوفے‘‘ کا طریقہ ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔ اس میں اچھی بات یہ ہے کہ’’نائبین‘‘ کی کوئی لمٹ نہیں ہے ، نائب کا نائب اورپھر اس کا نائب…

اس کے نائب نقش کو اپنے تصور پربھی کیا کیا ناز ہے

کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھینچا جائے ہے

آئین کی طرف سے کچھ تھوڑا سا خدشہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے عدالتیں اور بلیک اینڈ وائٹ ہیں ناں۔اب دیکھیے جب وزیر ناکافی ہوگئے تو مشیروں سے کام چلایا گیا، وہ بھی ناکافی ہونے لگے تو معاون خصوصی ایجاد کیے گئے، اس سے آگے سوائے نائب کے اور کوئی لفظ موجود نہیں اور نائب کے بعد ہندسوں سے کام چلایا جاسکتا۔

نائب صدر اول دوم سوم کا سلسلہ تو پہلے سے موجود ہے۔اب نائب چہارم پنجم ششم میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ اب ہمارے صوبے کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کو لے لیجیے۔ بیچارے کو جاپان کی طرح ہر محاذ پر بیانات کی توپیں چلانی پڑ رہی ہے۔وفاقی حکومت، ’’وزیراعظم‘‘ ،کشمیر، فلسطین، دہشت گردی،اپوزیشن اور بانی اور اس کی نائب بانی … ہم تو حیران ہیں کہ اتنے بیانات توکوئی کلاشن کوف بھی فائر نہیں کرسکی ہے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں