[ad_1]
’’ بہنو اور بھائیو! میں ہوں آپ کا دوست امین سایانی اور آپ سن رہے ہیں بنا کا گیت مالا۔‘‘ یہ وہ آواز تھی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی اور تاریخ کا حصہ بن گئی۔ بہت سے لوگوں نے ان کی آواز اور لہجے کی کاپی کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
یہ آواز تھی The One and Only امین سایانی جو اب ہم میں نہیں رہے ، انھوں نے 21 فروری 2024 کو اس دنیا کو اکیانوے سال کی عمر میں الوداع کہا۔ موسیقی کے متوالوں کو امین سایانی کا لب و لہجہ یاد ہوگا۔ ’’ بہنو اور بھائیو! آج پہلی پائیدان پر جوگیت ہے، اسے مجروح سلطان پوری نے لکھا اور محمد رفیع نے اسے اپنی آواز دی ہے۔ سنگیت کار ہیں اوپی نیر۔‘‘ بھلا کون یہ انداز بھول سکتا ہے۔
سنگیت کے پریمی کبھی امین سایانی کو نہیں بھول سکتے وہ ایک لیجنڈ تھے۔ ریڈیو سیلون سے ہر بدھ کو شام ساڑھے سات بجے بنا کا گیت مالا جس انداز سے امین سایانی پیش کرتے تھے وہ ایک الگ ہی انداز ہوتا تھا، امین سایانی کی آواز کا سحر سر چڑھ کر بولتا تھا، ان کا انداز گفتگو بالکل منفرد تھا۔ سننے والے ان کی آواز کو سننے کے لیے بے چین رہتے تھے۔
ان سنہرے دنوں کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ ہم سب گھر والوں کو بھی بدھ کا انتظار رہتا تھا اور بناکا گیت مالا کا پروگرام بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اور پہلی پائیدان پر آنے والے گیت کے متعلق پیش گوئیاں کرتے تھے۔ میرے بھائی مجھ سے بہت بڑے تھے، لیکن بہت چھوٹی ہونے کے باوجود میں بھی رائے ضرور دیتی تھی کہ موسیقی سے میرا لگاؤ فطری ہے، زیادہ تر صحیح رائے والد صاحب کی ہوتی تھی جو سول سرونٹ ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تھے۔
امین سایانی کا جنم 21 دسمبر 1932 میں بمبئی کے ایک مسلم گھرانے میں ہوا۔ ان کے والد کا نام جان محمد سایانی تھا جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ امین سایانی نے چار سال کی عمر میں والد اور بڑے بھائی حبیب سایانی کے ساتھ لندن کا سفر پانی کے جہاز پہ کیا۔
لندن میں ان کے ماموں رہتے تھے جو ڈاکٹر تھے، لیکن لندن کا موسم ان کے والد کو راس نہ آیا اور وہ جلد ہی واپس آ گئے۔ امین سایانی کے دادا کے بھائی رحیم اللہ سایانی ایک بیرسٹر تھے اور ان کی فرم کا نام Silbert & Sayani Barratte Law تھا اور ان کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا۔ مہاتما گاندھی جب لندن سے لوٹے تو اسی فرم سے منسلک ہوگئے۔ امین سایانی کے خاندان کی مہاتما گاندھی سے اچھی جان پہچان ہوگئی تھی۔ امین سایانی کی والدہ کلثوم بیگم کو گاندھی جی اپنی بیٹی مانتے تھے۔
آل انڈیا ریڈیو سے ایک پروگرام نئے گلوکاروں کے لیے ہوتا تھا جس کا نام تھا ’’پھلواری۔‘‘ امین سایانی بھی یہ پروگرام سننے جاتے تھے، اس پروگرام کو ایک Health Drink اسپانسرکیا کرتا تھا اور پروگرام کے بیچ میں ایک اناؤنسر Health Drink کی تعریف کرتا تھا۔ ایک دن وہ اناؤنسر نہیں آیا تو امین سایانی کو وہ لائنیں بولنے کے لیے دی گئیں، انھوں نے وہ لائنیں اس طرح بولیں کہ سب نے بہت تعریف کی، اور پھر امین سایانی ہی وہ لائنیں بولنے لگے، لیکن انھیں اس کا کوئی معاوضہ تو نہیں دیا گیا البتہ پروگرام کے اختتام پر اس Health Drinkکا پیکٹ ضرور مل جاتا تھا۔
امین سایانی جب نو سال کے تھے تو ان کے بڑے بھائی حمید سایانی انھیں اپنے ساتھ آل انڈیا ریڈیو بمبئی لے گئے جہاں انھوں نے ایک انگریزی پوئم اپنی آواز میں ریکارڈ کرائی اور جب انھوں نے اپنی آواز سنی تو انھیں وہ بالکل بھی اچھی نہ لگی۔ حمید سایانی اپنے زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے نامی براڈ کاسٹر تھے، انھی کی بدولت امین سایانی نے آواز کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر ایسے کامیاب ہوئے کہ ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، قدرت نے انھیں ایسی آواز دی تھی اور وہ لب و لہجہ دیا تھا جو قدرت کا انمول تحفہ تھا۔ انھوں نے اپنا سفر بمبئی سے شروع کیا، انھوں نے مختلف فلموں میں بھی کام کیا، جیسے بھوت بنگلہ، تین دیویاں اور قاتل۔ ان فلموں میں انھوں نے اناؤنسر کا رول نبھایا تھا۔ ابتدائی دس سال تک انھوں نے انگریزی میں بھی پروگرام کیے لیکن جو شہرت انھیں بناکا گیت مالا سے ملی اس کا جواب نہیں۔
امین سایانی نے اپنی والدہ کے ساتھ بھی کام کیا جو ایک پندرہ روزہ جرنل نکالتی تھیں جو لٹریری تھا اور انھوں نے پبلشنگ اور پرنٹنگ میں بھی ماں کی مدد کی۔ بناکا گیت مالا 1952 میں شروع ہوا تھا، 1986 میں اس کا نام بدل کر Civaka گیت مالا رکھ دیا گیا۔ بناکا گیت مالا لگا تار اڑتالیس سال تک چلتا رہا۔ بناکا ایک ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار تھا۔ اس پروگرام میں گیتوں کو نمبر دیے جاتے تھے۔
امین سایانی خود یہ کام کرتے تھے وہ گانوں کی مقبولیت اور فروخت کا ریکارڈ رکھتے تھے اور پھر ان کو نمبر دیتے تھے۔ جو ریکارڈ سب سے زیادہ بکتا تھا اور جو ریکارڈ فرمائشی پروگرام میں پہلے نمبر پر رہتا تھا وہی بناکا گیت مالا میں پہلی پائیدان پر ہوتا تھا۔ اس پروگرام کو امین سایانی ایک کلچرل پروگرام کے طور پر پیش کرتے تھے، ان کی دوستانہ آواز نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا، جو ایک دفعہ ان کا پروگرام سن لیتا وہ اس پروگرام کے سحر میں مبتلا ہو جاتا تھا۔
اپنے کیریئر کے دوران ایک دفعہ امین سایانی کشور کمار کا انٹرویو کرنا چاہتے تھے، لیکن ہر بار کشور کمار منع کر دیتے تھے، بار بار گزارش کرنے کے باوجود کشور کمار نے انھیں وقت نہ دیا تو انھوں نے خاموشی اختیار کر لی، پھر کچھ عرصہ بعد خود کشور کمار نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے اپنا انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کی اور امین سایانی کو کہا کہ وہ اپنا ٹیپ ریکارڈر لے کر فلاں اسٹوڈیو آ جائیں، امین سایانی وہاں پہنچے تو انھیں پتا چلا کہ کشور کمار وہاں نہیں ہیں، اسٹوڈیو کے عملے نے انھیں بتایا کہ کشور کمار نے فون کرکے کہا ہے کہ ’’ جب امین سایانی چلے جائیں تو بتا دینا، میں آ جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر انھیں بہت برا لگا اور انھوں نے پورے اٹھارہ سال تک کشور کمار سے بات نہیں کی۔
اپنے ابتدائی زمانے میں امیتابھ بچپن بھی براڈ کاسٹر بننا چاہتے تھے لہٰذا وہ امین سایانی سے ملنے آل انڈیا ریڈیو بمبئی گئے، لیکن ان کی ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ امیتابھ اپائنمنٹ لے کر نہیں گئے تھے اور امین سایانی چونکہ بہت زیادہ مصروف ہوتے تھے اس لیے تینوں مرتبہ انھوں نے امیتابھ کو کہلوایا کہ وہ اپائنمنٹ لے کر آئیں، چونکہ قدرت امیتابھ کو ہیرو بنانا چاہتی تھی اس لیے ایسا ہوا کہ امین سایانی کا ریڈیو کا سفر 1951 سے لے کر 1976 تک قائم رہا۔ انھوں نے 54000 ریڈیو پروگرام کیے، انیس ہزار Spot + Jingle کیے۔ یہ سب Limka Book of Record میں درج ہے۔
امین سایانی نے اپنے لواحقین میں ایک بیوہ اور بیٹے کو چھوڑا ہے۔ ریڈیو کی تاریخ بنا امین سایانی کے نامکمل ہے۔ بناکا گیت مالا کا پروگرام سننے کے لیے اکثر اکٹھے ہو کر یہ پروگرام سنا کرتے تھے۔ امین سایانی نے تھیٹر میں بھی کام کیا اور خوب نام کمایا۔ 1986 میں Binaca گیت مالا کا نام بدل کر Cibaca گیت مالا رکھ دیا گیا تھا، ریڈیو کا زمانہ موسیقی کے لحاظ سے بڑا بھرپور تھا، ہم نے استاد بڑے غلام علی خان، استاد برکت علی اور بہت سے دوسرے فنکاروں کو ریڈیو پر ہی سنا۔ ریڈیو ہی واحد تفریح تھا، 1940 سے لے کر 1980 تک ریڈیو کا سحر قائم رہا۔ محمد رفیع ، آشا، لتا، شمشاد بیگم، مہندرکپور اور بہت سے دوسرے گلوکاروں کی آواز کو ریڈیو ہی نے ہم تک پہنچایا، یہ انٹرنیٹ کا عذاب نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔
امین سایانی کی دلکش آواز اور بے مثال لب و لہجہ ریڈیو ہی کی بدولت لوگوں تک پہنچا۔ امین سایانی کو چاہے کسی نے دیکھا نہ ہو لیکن انھیں آواز سے پہچانا جاتا تھا، ان کی آواز ہی ان کا تعارف تھی۔ آواز کے جادوگر کو اس کے چاہنے والوں کا سلام! ان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور انھیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔
[ad_2]
Source link