12

الفاظ کا سفر نامہ۔’’ اس‘‘ (پہلا حصہ)

[ad_1]

’’اس‘‘ گھوڑے کا اصلی اور خالص نام ہے فارسی میں اسپ، انگریزی میں ہارس، یونانی میں  ہیپ، عربی میں ’’اص‘‘ اور سنسکرت میں اشو۔اردو لفظ گھوڑا دراصل ایک بابلی لفظ ’’گوڈ‘‘ سے مشتق ہے جو ہر جانور کے لیے بولا جاتا تھا۔لفظ’’اس‘‘ کے معنی بلند،بالا اور طاقتور کے ہوتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ’’آس ماں‘‘ (اسمان) کا نام ہے۔

سورج کو اسوریہ کہتے ہیں ستاروں کو آسٹر اسٹار یا عشتر۔چونکہ گھوڑے کو قدیم زمانوں میں آسمان یا سورج کا بیٹا مانا جاتا تھا۔اور اقوام میں سورج کو سب سے بڑی قربانی اس یعنی گوھڑی کو دی جاتی تھی۔اشومیدیگیہ قدیم ہند کی بھی سب سے بڑی قربانی تھی۔یعنی آسمان کے سب سے بڑے طاقتور سورج کو امین کے سب سے زیادہ طاقتور کی قربانی۔ گھوڑے یا ’’اس‘‘ کو انسانی تاریخ میں بہت انقلابی حیثیت حاصل ہے، یہ گھوڑا ہی تھا جس کی دریافت یا پیدائش سے تاریخ میں ایک زبردست موڑ یا تبدیلی یا انقلاب یا ابتدا کہا جاسکتا ہے۔

اس سے پہلے زمین، ماں یا زراعت کا دور تھا جس میں بیل اور گائے کو بہت اونچا اور مقدس مقام حاصل تھا۔اور انسان ایک محدود دور میں تھا۔لیکن پھر لگ بھگ تین چار صدی قبل مسیح میں جب جانور پال لوگ پہاڑوں جنگلوں اور صحراؤں سے گھوڑے جیسے تیز رفتار جانور پر نکلے تو ساری دنیا پر چھاگئے۔کیونکہ گھوڑا یا اس، بیل جیسے مست رفتار اور خالص زرعی جانور کے مقابلے میں تیز رفتار اور خالص جنگی اور مواصلاتی تھا۔تاریخ میں ان گھوڑے والے خانہ بدوش اور جانور پال لوگوں کو’’اساک‘‘(گھوڑے والے) کا نام دیا گیا ہے۔

اساک سے پھر’’سک‘‘ سکتی سکیت کے مراحل سے ہوتا ہوا یہ لفظ سکتین اور یونانیوں کے ہاں’’سھیتین‘‘ ہوگیا۔یہیں سے انسانوں میں دو متوازی،متحارب یا متضاد گروہ ایک دوسرے کے مقابل ہوگئے۔اگرچہ انسانوں میں یہ دو گروہ قدیم زمانوں سے موجود تھے،گوشت خور اور سبزی خور۔پھر جانور پال اور زراعت کار، یا صحرائی اور مدنی۔ اور اس اختلاف،تضاد اور تقابل کی ایک صورت۔ آسمان، باپ اور زمین ماں کی بھی رہی۔اس سے پہلے ایک مضمون میں لفظ’’آریا‘‘ کا ذکر کرچکا ہوں جس کی بنیاد قدیم ترین زبان میں’’اڑ‘‘ تھی۔

’’اڑ‘‘ سے بتدریج زمین کے لیے بولا جانے والا یہ لفظ ار۔ارت ارد۔ارتھ اور ارض ہوگیا۔اور زراعت سے تعلق رکھنے والے آریہ کہلائے اور اب اس کے برعکس خانہ بدوش جانور پال’’اس‘‘ یعنی گھوڑے کی وجہ سے ’’اساک‘‘ کہلائے اور یوں’’ار‘‘ اور’’اس‘‘ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے، ار والے ’’آریا‘‘ اور’’اس‘‘ والے اساک۔یا سیتھین۔’’آریہ‘‘ کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا تاریخی غلط العام ہے۔ جو ہند میں برہمنوں کا پیدا کیا ہوا یا تخلیق کیا ہوا ہے ورنہ ہند میں جو خانہ بدوش جانور پال لوگ آئے تھے۔وہ’’آریا‘‘ تھے ہی نہیںبلکہ آریوں کے دشمن سیتھین یا ساک تھے۔

یہ بات بھی کہیں کرچکا ہوں کہ دنیا کی تاریخ میں جتنا بھی گند اغلاط العام اور مغالطے پائے جاتے ہیں سب کے سب ان برہمنوں کے پھیلائے ہوئے ہیں۔لفظ ’’برہمن‘‘ پر تفصیل کسی اور وقت پیش کروں گا یہاں صرف ایک حوالہ کافی ہے پروفیسر محمد مجیب نے اپنی کتاب تاریخ تمدن ہند میں لکھا ہے کہ ہند کے برہمن اصل میں ایران کے میگی اور مہر تھے۔ویسے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہجرت اور نقل مکانی زراعت کار اور مدنی لوگ نہیں کرتے یہاں وہاں خانہ بدوش لوگ کرتے کہ اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے انھیں یہاں وہاں پھرنا پڑتا ہے دوسری بات یہ کہ لکھت پڑھت کے لیے بھی کسی ایک جگہ مستقل ٹکنا ضروری ہوتا ہے چنانچہ زراعت کار مدنی لوگ ہی لکھت پڑھت سے آشنا ہوتے ہیں۔

چنانچہ ہند بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں میں جو لوگ در آئے تھے وہ آریا نہیں بلکہ خانہ بدوش اساک تھے کیونکہ گھوڑے کی قجہ سے اب وہ دور دور تک ترک تاز کرنے لگے تھے۔ہند بھی سرسبز ملک تھا اور یہاں کے بھومی لوگ نرم خُو اور لڑائی بھڑائی سے ناآشنا بھی تھے اس لیے جلد ہی یہ جنگ جوُ اساک ان پر چھاگئے۔اور ان اصلی زراعت کار آدم کے بیٹوں کو جواس دھرتی ماں کی اصل اولاد تھے اور صحیح معنی میں’’آریا‘‘ تھے۔ان کو’’قبل آریائی‘‘ کا نام دے کر’’نشدھ اور ’’شدھر‘‘ بنا دیا۔            (جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں