[ad_1]
پاکستان میں علمی وفکری مجالس سے لے کر عام آدمی تک کی بحث میں سیاسی اور حکمرانی کے نظام سے متعلق کافی بے چینی ، مایوسی اور نا امیدی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔
لوگ سیاسی اور حکومتی نظام سے نالاں ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ موجودہ حکمرانی کا نظام ہماری سیاسی و معاشی ضرورت کو پورا نہیں کرتا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام میں خلیج بڑھ رہی ہے جو ایک مضبوط ریاست کے نظام کے برعکس ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیصلوں کی طاقت رکھنے والے افراد حکمرانی کے نظام کو عوامی توقعات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔
یہ جو طبقاتی بنیادوں پر حکمرانی کا نظام ہے کیا اس کو بدلنا ہماری ترجیحات کا کہیں حصہ نظر آتا ہے۔ اگر حکومتی ترجیحات میں کمزور افراد کے مقابلے میں طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کی اہمیت ہے تو پھر اس نظام سے عام آدمی کو کچھ نہیں مل سکے گا؟
عام آدمی کے حالات بدلنے کے لیے جو غیر معمولی اقدامات درکار ہیں اس پر کون فیصلہ کرے گا اور کون اس کو اپنی سیاسی ترجیحات میں بالادست کرے گا۔ موجودہ حکمرانی کا نظام فرسودہ خیالات پر مبنی ہے۔ اس میں جدید حکمرانی کے نظام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر حکمرانی کے نظام کو بدلنا ہی نہیں چاہتا۔ کیونکہ جب طاقت ور افراد عوام کے مقابلے میں اپنے مفادات کو بالادست کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ عوامی سطح پر محرومی کی سیاست کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ہمارے مجموعی سیاسی اور حکمرانی کے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ جنھیں دور کرنے کے لیے بڑے اصلاحاتی اور سخت گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ بڑے اسٹرکچرل ریفارمز کے بغیر ادارہ جاتی نظام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے ۔لیکن ہمارا حکمران طبقہ سخت گیر اصلاحات کے لیے تیار نہیں اور سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوجاتا ہے ۔
حکمرانی کے نظام میں عام یا کمزور آدمی کی حیثیت کو بدلنے کی بجائے ہم ان کو بھکاریوں یا ان کے لیے خیراتی قسم کے منصوبوں کا خاکہ رکھتے ہیں ۔ یعنی ہمارا نظام لوگوں کو اپنے پاؤں پر خود کھڑا کرنے کی بجائے اسے ریاستی نظام کا محتاج بناتا ہے اور اس کا نتیجہ لوگوں میں خیرات یا بھیک کی صورت میں آتا ہے ۔ بڑے بڑے طاقت ور حکمرانوں کی تصاویر کے ساتھ خیراتی منصوبوں نے ترقی کے ماڈل کو مسخ کیا ہے۔
ہمارا نظام چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے میں ناکام رہا ہے اور اسی بنیاد پر نئے روزگار پیدا کرنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے ۔نئی نسل جسے اپنے مستقبل کے لیے مضبوط بنیادوں پر معاشی خوشحالی اور معاشی سطح پر اسے روزگار درکار ہے اس میں اسے ناکامی کا سامنا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے پوری نئی نسل ملک چھوڑنا چاہتی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ اب معاشی حالات میں بہتری پیدا کرنے میں یہ نظام ہماری مدد نہیں کرسکے گا۔ نئی نسل میں یہ جو امید کا پہلو کمزور ہورہا ہے وہ خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے ۔
بنیادی مسئلہ سیاسی یا حکمران جماعتوں کی سطح پر روڈ میپ کا نہ ہونا ہے ۔ہمارے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں جو سب کو واضح طور پر نظر آئے کہ ہم حکمرانی کے نظام میں درست سمت میں جا رہے ہیں ۔ ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کا نظام جو عام آدمی کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے وہ بھی ہمیں حکومتوں کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتا۔
حالانکہ دنیا نے اچھی حکمرانی کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔مگر ہماری سیاسی قیادتیں اس کے لیے تیار نہیں اور جب وہ تیار نہیں تو پھر کیسے حکمرانی کا نظام شفافیت کو قائم کرسکے گا۔ایک بھاری بھرکم بیوروکریسی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی بنیاد پر قائم نظام میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے ۔
18ویں ترمیم کے بعد جس انداز سے صوبائی حکومتوں کو حکمرانی کے نظام کی شفافیت اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے چیلنج کو قبول کرنا چاہیے تھا اس کا فقدان غالب ہے۔ اب وفاقی حکومت کے مقابلے میں صوبائی حکومتیں عوام کے محاذ پر زیادہ جوابدہ ہیں لیکن ہماری صوبائی سطح پر موجود حکومتیں اپنی ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے اس کا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی میں بھی براہ راست صوبائی حکومتیں ذمے دار ہیں جو اختیارات کو ضلعی سطح پر لے کر جانے کی بجائے خود تک محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ ایک بات سمجھنی ہوگی جو بھی نظام عوامی شراکت اور عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر بنایا جائے گا وہ اپنی ساکھ کسی بھی سطح پر قائم نہیں کرسکے گا۔اس وقت عوام ایک طرف اور نظام دوسری طرف کھڑا ہے اور یہ سوچ دونوں فریقوں میں ٹکراؤ کی سیاست کو جنم دیتی ہے ۔
لوگوں کے بنیادی مسائل تعلیم اور صحت میں موجود سہولتیں ، بہتر روزگار کے مواقع، روزگار کا تحفظ، قانونی تحفظ، سیکیورٹی ، اداروں تک رسائی ، انصاف کی فراہمی ، سمیت کھانے پینے کی اشیا ، ادویات، پٹرول ڈیزل، بجلی ، گیس کی قیمتوں میں کمی کے ہیں ۔ ان مسائل کے حل کی ایک ہی صورت ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام انسانی ترقی کو بنیاد بنا کر زیادہ سے زیادہ وسائل کو انسانوں پر خرچ کرے ۔ انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلی کی اپنی اہمیت ہے مگر جب انسان کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی سہولتیں ہی نہیں ملیں گی تو انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلی کا عمل ان کا پیٹ نہیں بھر سکے گی۔عام آدمی کا مقدمہ پاکستان کے نظام میں مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے اور لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔
اس لیے ہمارے نظام میں بہت سی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ تبدیلیاں سیاسی حکومتوں نے لانی ہیں اور اس کے لیے ان کو خود بھی جوابدہ ہونا ہے اور دیگر فریقوں کو بھی جوابدہ بنانا ہے ۔لیکن یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوگا اس کے لیے جہاں ہمیں ایک مضبوط سیاسی اور جمہوری نظام درکار ہے وہیں ہماری ضرورت ایک مضبوط سول سوسائٹی اور میڈیا بھی ہے ۔کیونکہ حکمرانی کے نظام میں بہتری کا عمل ایک بڑے دباؤ کو قائم کیے بغیر یا کسی پریشر گروپس کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں ۔لیکن جہاں سیاسی نظام کمزور ہوا ہے وہیں ہم سول سوسائٹی اور میڈیا کے محاذ پر بھی بہت سے کمزوری کے پہلوؤں کو دیکھ رہے ہیں ۔ جو لوگ طاقت میں ہیں اور طاقت کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی آزاد سیاست ، جمہوریت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے حق میں نہیں ہوں گے۔
اس لیے یہ ایک سیاسی سطح پر بڑی لڑائی ہے اور اسے سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی لڑا جاسکتا ہے۔ہمیں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کو قائم کرنے کے لیے خود کوبھی منظم کرنا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی ہے کہ وہ اپنے اپنے کردار سے نظام کی بہتری میں حصہ ڈالیں ۔
ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ آج کل حکمرانی کا نظام عوامی سطح پر نمود نمائش یا سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام میں ایک نقطہ نظر حکمران طبقات کا ہے تو دوسرا نقطہ نظر عام آدمی کا ہے ۔ دونوں نقطہ نظر میں جو خلیج ہے وہ ہمیں بری حکمرانی کی طرف لے کر جارہی ہے ۔اس کا علاج تلاش کرنا ریاست سمیت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے اور اس سے انحراف عوامی مفادات کو نقصان پہنچانے سے جڑا ہوا ہے ۔
[ad_2]
Source link