[ad_1]
عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں کا انتخاب مکمل ہوا۔ ولی خان کے پوتے ایمل ولی خان صدر اور ان کے والد اسفند یار ولی خان رہبر منتخب ہوگئے۔ خیبر پختون خوا کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان نے ایمل ولی کا صدر کے عہدے کے لیے نام تجویزکیا اور یوں وہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔ ان انتخابات میں ڈاکٹر محمد سلیم خان سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
سابق نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے انتخابات کی نگرانی کی۔ سینئر رہنما زاہد خان نے اس مرحلے پر عوامی نیشنل پارٹی سے فاصلے بڑھائے۔ سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی اور غلام بلور جیسے رہنما انتخابی عمل میں نظر نہ آئے۔ افراسیاب خٹک ، بشریٰ گوہر اور لطیف آفریدی (مرحوم ) وغیرہ پہلے ہی عوامی نیشنل پارٹی کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں، اگرچہ باقی صوبوں کے عہدیداروں کا انتخاب ہوا مگر کسی معروف رہنما کا نام عہدیداروں کی فہرست میں نظر نہیں آیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سیکڑوں کارکن اور رہنما طالبان دہشت گردوں کے جبر کا شکار ہوئے ہیں، مگر عوامی نیشنل پارٹی 2008کے انتخابات کے علاوہ باقی ہونے والے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے اور ہر انتخاب میں اس کے منتخب اراکین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایمل ولی خان نے باچہ خان سینٹر میں پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد اسفند یار ولی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوششوں سے آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی اور صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھا گیا۔
جب ولی خان حیدرآباد کیس سازش کے خاتمے کے بعد 1977میں حیدرآباد جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی، مگر جب 1986 میں کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو خیر باد کہہ کہ عوامی نیشنل پارٹی قائم کی تھی تو اس وقت مختلف صوبوں کے بائیں بازو کے اہم رہنما اس میں شامل ہوئے تھے۔
کمیونسٹ پارٹی کا ایک دھڑا بھی اس جماعت کا حصہ تھا مگر ولی خان کی پالیسیوں میں آنے والی تبدیلیوں سے عوامی نیشنل پارٹی صر ف خیبر پختون خوا کی جماعت بن گئی تھی البتہ ولی خان جب صدارت سے فارغ ہوئے تو اپنے خاندان کے کسی فرد کو صدارت کا عہدہ سونپنے کے بجائے اپنے پرانے ساتھی اجمل خٹک کو پارٹی کی صدارت کا موقع دیا تھا مگر پھر ولی خان کے صاحبزادے اسفندیار ولی، پارٹی صدر بنے۔
انھوں نے خرابی صحت کی بناء پر پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دیا تو پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے صاحبزادے ایمل ولی خان کو صدارت کے عہدے سے نوازا، یوں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اے این پی میں بھی وراثت قائم ہوئی اور صرف خیبر پختون خوا تک محدود ہوگئی۔
عوامی نیشنل پارٹی ملک کی پہلی سیکولر جماعت نیشنل عوامی پارٹی کا تسلسل ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی 1956 میں قائم ہوئی۔ اس وقت مشرقی بنگال کے کسان رہنما مولانا بھاشانی کو قیادت کا فریضہ سونپا گیا۔ نیشنل عوامی پارٹی میں کمیونسٹ پارٹی کے تمام گروپوں کے علاوہ پنجاب کے ترقی پسند رہنما میاں افتخار الدین، میاں محمود علی قصوری ، بلوچستان کے قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو، سردار خیر بخش مری، سردار عطاء اﷲ مینگل سندھ کے قوم پرست جی ایم سید شامل تھے جب کہ دیگر میں بائیں بازو کی مزدور ،طلبہ اور کسان تنظیمیں اور بائیں بازو کے دانشور وغیرہ نیپ کے ساتھ تھے۔
یوں پہلی دفعہ تمام جمہوریت نواز، قوم پرست اور ترقی پسند ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تھے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء دور میں نیپ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو برسوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ نیشنل عوامی پارٹی جنرل ایوب خان کے حزب اختلاف کے اس اتحاد میں شامل تھی جس نے جنرل ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنایا۔
ولی خان نے پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح سے تاریخی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی ہمشیرہ کی حمایت کی تھی مگر پارٹی کے صدر مولانا بھاشانی ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیشکش سے متاثر ہو کر فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہوئے۔
چین اور سوویت یونین کے درمیان اختلافات کی بناء پر نیشنل عوامی پارٹی میں تقسیم پیدا ہوئی ۔ اس تقسیم سے مجموعی طور پر جمہوری تحریکوں کو نقصان پہنچا۔ مولانا بھاشانی کے رویے سے مایوس ہو کر خیبر پختون خوا ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے قوم پرست اور ترقی پسند رہنماؤں نے ولی خان کو نیپ کا صدر منتخب کیا۔ یوں مولانا بھاشانی کا گروپ چین نواز اور ولی خان نیپ روس نواز کہلایا جانے لگا ۔
1965 کی جنگ میںنیپ (ولی خان گروپ) نے جنگ کی حمایت نہیں کی اور جب تاشقند معاہدہ ہوا تو ولی خان گروپ نے اس معاہدے کو خطے کے لیے بہترین قرار دیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں گروپوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف 1968میں شروع ہونے والی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جنرل ایوب خان اقتدار کے آخری دنوں میں مخالف رہنماؤں کے ساتھ گول میز کانفرنس کے لیے تیار ہوگئے۔
ولی خان سمیت تمام مخالف رہنما گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے مگر مولانا بھاشانی اور نئی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ حزب مخالف کے مطالبے پر عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت کو رہا کرنا پڑا مگر مغربی پاکستان کے رہنما صوبائی خود مختاری کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے۔ یہ کانفرنس ناکام ہوئی اور جنرل یحییٰ خان کو مارشل لاء لگانے اور اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا۔
1973کے عبور ی آئین کے تحت صدر بھٹو نے بلوچستان کا گورنر میر غوث بخش بزنجو کو مقررکیا اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ قومی اسمبلی میں آئین کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی جس میں قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کے نمایندے شامل تھے۔
میر غوث بخش بزنجو اس کمیٹی میں نیپ کے نمایندہ تھے۔ بزنجو اور بھٹو کے درمیان ایک سیکولر آئینی مسودہ پر اتفاقِ رائے ہونے کے امکانات روشن ہوئے مگر ولی خان نے اس مسودہ کو مسترد کردیا۔ صدر بھٹو کو آئین کی تیاری کے لیے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان سے مدد لینی پڑی، مگر وزیر اعظم بھٹو نے 9 ماہ بعد بلوچستان کی نیپ کی حکومت کو برطرف کیا۔ سرحد میں مفتی محمود کی قیادت میں مخلوط حکومت مستعفیٰ ہوئی۔ اسلام آباد میں عراق کے سفارت خانہ میں اسلحے کی برآمدگی اور پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد شیر پاؤ کے قتل کے بعد نیپ پر پابندی لگادی گئی۔
جب جنرل ضیاء الحق نے حیدرآباد سازش کیس ختم کیا اور نیپ کی قیادت رہا ہوئی تو نیپ تقسیم ہوچکی تھی۔ اس تقسیم نے ایک دفعہ پھر ترقی پسند تحریک کو نقصان پہنچایا۔
مظلوم طبقات کی حمایت کرنے والی جماعت اور اس کی ذیلی تنظیمیں اپنے اصل ہدف سے دور ہوگئیں۔ پھرکئی دفعہ نیپ کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ کوشش کامیاب نا ہوسکی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو مرحوم کی مرتے وقت خواہش تھی کہ نیپ جیسی جماعت بن جائے مگر ایسا نا ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند قوتیں کمزور ہوگئیں۔ مظلوم طبقات کی جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے آج بھی نیشنل عوامی پارٹی جیسی جماعت کی ضرورت ہے۔
[ad_2]
Source link