[ad_1]
پاکستان میں مشکلات اور بحران شاید کبھی ختم نہیں ہوتا، بیرونی مسائل تو چلتے ہی رہتے ہیں لیکن داخلی مسائل بھی حل نہیں ہوتے، ایک شعبے میں استحکام آتا ہے، لیکن کسی دوسرے شعبے میں بحران سر اٹھ الیتا ہے، پاکستان کے معاشی، سیاسی اور آئینی وقانونی بحران اس کی مثال ہیں۔
پچھلے ایک برس سے معاشی بحران کی شدت بتدریج کم ہو رہی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔ اب خبر ہے کہ آئی ایم ایف مشن کے کچھ ممبران پاکستان پہنچ چکے ہیں جب کہ سربراہی مشن بھی جلد پاکستان پہنچ جائے گا۔
ایک خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے جمعے کو حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پرائمری بجٹ سرپلس کا حصول ممکن بنانے کے لیے اپنے اخراجات میں 163 ارب روپے سے 183 ارب روپے تک کمی لائے۔
خبر کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب آئی ایم ایف حکام کو بریفنگ کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام پر ٹیکس وصولیوں میں 163 سے 183 ارب روپے تک شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے تاہم آئی ایم ایف کو یقین دلا یا گیا کہ 20 سے 25 ارب روپے تک جمع کر لیے جائیں گے۔
ایف بی آر کے مطابق 215 ارب روپے عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، حکومت کے لیے یہ ایشو بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔ حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ عدالتیں ان کو اپریل سے مئی کے دوران کلیئر کردیں گی لیکن اب حکومت یہ یقین دلارہی ہے کہ جون تک فیصلہ ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ پیسے سپر ٹیکس کی مد میں پھنسے ہوئے ہیں، جو حکومت نے ریئل اسٹیٹ اور تجارتی بینکوں کی آمدنی پر عائد کیا تھا لیکن ان کی ادائیگی میں مقدمہ بازی حائل ہے۔ یہ تو معاملات کا ایک رخ ہے، معیشت کے حوالے سے ہی ایک پیش رفت یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے سے متعلق اپنی آخری اسٹاف لیول رپورٹ میں اہم اہداف کے حصول میں پاکستان کی بہتر کارکردگی کو سراہا، اسے ایک اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کی مدد اور تعاون کے بغیر بحران سے نہیں نکل سکتی۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان کی اکنامک ٹیم اچھی سمت میں کام کر رہی ہے جس سے آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل ہو رہا ہے تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے سیاسی غیریقینی کی صورتحال کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہ صورت حال معاشی اصلاحات کے نفاذ پر اثرانداز ہو سکتی ہے جب کہ پاکستان کے مالیاتی خطرات بہت زیادہ ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے کیونکہ نگران حکومت نے جو معاشی اصلاحات شروع کی تھیں، ان پر عمل درآمد میں تاخیر ہوئی ہے۔ یہ ایک طرح سے پاکستان کی مشکلات کو واضح کرتی ہیں۔ ان مشکلات کا تعلق باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے۔
پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کرنے والے طبقے کیا چاہتے ہیں اور وہ کیوں ملک کا استحکام داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے، یہ معاملات ملک چلانے والوں کو بخوبی معلوم ہیں۔ پاکستان کے وسائل ہڑپ کر کے امیر اور بااثر بننے والے طبقات اپنے اطوار ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی بحران یا عدم استحکام کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ آئینی وقانونی مقدمات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے نئے نظائر بھی ہیں۔
پاکستان کا سسٹم تین چار برس سے مسلسل ایسے آئینی مقدمات میں الجھا ہوا ہے، جو بظاہر آئینی تشریح کے لیے دائر کیے گئے لیکن ان کے اہداف اور مقاصد سو فیصد سیاسی ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کا قیمتی وقت ان مقدمات کی نذر ہوتا رہا ہے او ر اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے فیصلوں سے کئی پیچیدگیوں نے بھی جنم لیا ہے، یوں مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گئے ہیں۔ جیسے ابھی حال ہی میں اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی پی ٹی آئی کے بجائے دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا ایشو ہے۔
عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ دیا ہے، اس کے نتیجے میں یہ نشستیں تو معطل ہو گئی ہیں لیکن آگے کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لیکن پارلیمان اور قانون اس معاملے میں عضومعطل بن گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے گزشتہ روز اسپیکر پنجاب اسمبلی نے حکومتی اتحاد کے27اراکین اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ اراکین کے ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اب آگے کیا ہونا ہے، فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ادھر وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت تجارت کے شعبے کے حوالے سے جائزہ اجلاس اسلام آباد میں ہوا ہے۔ اخبارات میں جو خبر جاری ہوئی ہے اس کے مطابق اجلاس کے دوران وزیراعظم نے ملکی برآمدات کو مزید مسابقتی بنانے کے حوالے سے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
تجارت اور کاروبار میں آسانی ہونا اچھی بات ہے، نجی شعبے سے مشاورت کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا ہوتا ہے اور قوانین اور ضابطے کس قسم کے بنائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خود ہر ماہ کے دوران دو مرتبہ برآمدی شعبے کاجائزہ لیں گے۔ اب وہ کتنی بار جائزہ لیتے ہیں، اس کا پتہ بھی وقت آنے پر ہی چلے گا تاہم فی الحال تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’بہت اچھا ہے‘‘۔
ادھر حکومت نے ایف بی آر کو نان فائلرز کے خلاف پلان بی یعنی سمیں بلاک کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ نان فائلرز کے خلاف 15مئی کے بعد ایکشن کا آغاز ہو جائے گا۔ اب ایک اور خبر کچھ یوں ہے کہ گزشتہ روز چیئرمین نیب اور اسپیکر قومی اسمبلی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی نے چیئرمین نیب کو نئے ایس او پیز سے آگاہ کر دیا۔
میڈیا کے مطابق ان ایس او پیز کے مطابق کسی بھی رکن اسمبلی کے خلاف شکایت پر اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ کیا جائے گا، سینیٹر کی صورت میں چیئرمین سینیٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔
نیب افسر متعلقہ سیاسی اور منتخب رہنما کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد ہی بیان دے گا، احکامات کی خلاف ورزی پر متعلقہ افسر ایک ماہ سے ایک سال تک قید بھگتے گا اور اسے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ اب یہ ایس او پیز پاکستان کے عوام کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصولی طور پر تو کسی بھی پاکستانی شہری کو بلا ثبوت گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہر پاکستان کا یہ حق بھی ہے کہ محض ایک درخواست یا ایف آئی آر پر گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے پوری تفتیش ہو، پولیس کے تفتیشی افسر کے پاس ٹھوس شواہد ہوں اور مزید تفتیش کی ضرورت ہو تو وہ عدالت سے ریمانڈ لے سکتا ہے۔ اگر تفتیشی نامکمل اور ناقص معلومات پر مبنی چالان عدالت میں پیش کرے تو اس کے لیے قانون میں سزا مقرر ہونی چاہیے۔
اسی طرح لوئر اور ہائر کورٹس کے ججز کے فیصلوں کی جانچ پڑتال کے لیے الگ سے ایسا ڈیپارٹمنٹ ہونا چاہیے جو براہ راست نظام عدل کے تحت نہ ہو۔ وکلاء تنظیموں کو قانونی طور پر پابند بنایا جائے کہ وہ وکیلوں کی کیٹیگری کی فہرست وزارت قانون کو فراہم کرے، جس میں کیٹیگری کے حساب سے وکلاء کی فیسیں مقرر کی جائیں۔
وزارت قانون چھان بین کر کے اس فہرست کی باقاعدہ منظوری دے اور یہ فہرست وکلاء اپنے دفاتر میں آویزاں کریں، وزارت قانون یہ فہرستیں ججز صاحبان تک بھی پہنچا دیں، عدالت کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنانے کے لیے بھی باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس طریقے سے سائلین کے استحصال کا خاتمہ ہو گا، نظام عدل فعال ہو گا اور مقدموں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی۔
لاہورہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ تدارک کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو طلباء کو الیکٹرک بائیکس دینے سے روک دیا، عدالت نے الیکڑانک بائیکس کی قرعہ اندازی عدالتی حکم کے ساتھ مشروط کر تے ہوئے 13 مئی تک منصوبے کی تفصیلات بھی طلب کرلیں، عدالت نے وکیل پنجاب حکومت سے مکالمہ کیا کہ آپ بائیکس پر جو پیسہ لگا رہے ہیں، اسی پیسے سے کالجز کو الیکٹرانک بسیں لے کر دیں۔
اس حوالے سے معاملہ چونکہ تاحال عدالت میں ہے، اس پر کوئی رائے دینا مناسب نہیں ہے البتہ محترم جج صاحب نے الیکٹرانک بسوں کے حوالے سے جو ریمارکس دیے ہیں، ان کا دائرہ کار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تک بڑھایا جانا چاہیے۔ عوام کو سفر کی اچھی اور کم خرچ سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمے داری ہے۔ الیکٹرانک بسیں چلا کر عوام کو سستی اور اچھی سفری سہولتیں مہیا کی جا سکتی ہیں اور اس سے فضائی آلودگی میں بھی کمی آئے گی۔
[ad_2]
Source link