[ad_1]
عمر ِ رواں، یہ ایک عہد کی داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس میں دل ہے، خرد ہے، روح رواں ہے، شعور ہے۔ داستانِ حیات، آٹو بائیو گرافی، آپ بیتی، یہ ایسے مشہور شخصیات کی ہوتی ہیں۔جن سے ایک زمانہ وابستہ رہا ہو۔
ایسی ہی شخصیات میں سے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایک ہیں جنہوں نے ’’عمر رواں‘‘ کی صورت میں حالات و زندگی پر ایک خوبصورت کتاب تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک درویش منش اور سفید پوش انسان ہیں جنہوں نے ساری زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور فلاح انسانیت کو اپنی زندگی کا مشن سمجھا۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ،مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے صاحبزادے اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔ وہ طالب علمی میں اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے اور پھر تمام عمر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا سفرِ زندگی روشن ستارے کے مانند ،کامیابیوں کی راہوں میں ساری زندگی چراغ جلاتے منزلوں کو پانے کی جستجو میں مگن رہے۔ ان کی دلکش گفتگو، انتھک محنت، موثر دعوت و تبلیغی اسلوب اور اعلیٰ سیرت و کردار نے ان کی شخصیت کو اس قدر اعتبار بخشا کہ آج وہ عوام کے ہر دلعزیز رہنما سمجھے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ’’فرید احمد کو میں نے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی پایا مگر مائیک سامنے ہو تو گل افشانی گفتار بھی دیدنی اور شنیدنی ہوتی ہے۔ ان کی ایک قابلِ رشک صلاحیت ماضی کی یادوں اور مستقبل کے ارادوں سے کٹ کر لمحہ موجود کو ڈھنگ سے بسر کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ میدانِ عمل کے آدمی ہیں لیکن زندگی کی ریل پیل یا بسا اوقات جیل میں جہاں چند لمحوں کی فرصت میسر آئی وہ کمال ایکسوئی سے کتاب، قلم یا مُوقلم سے رشتہ جوڑ لینے میں کامیاب رہے۔‘‘
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی ہر صلاحیت ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ جس میں سے ’عمر رواں‘ بھی ان کی صلاحیت کا ایک بھرپور عکس ہے جس میں انہوں نے خود کو بڑی دیانتداری سے اپنے ناقدین کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب بہت جاندار اور اس کی جانداری میں ان کی پختہ نثر کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی زندگی میں جہاں کامیابیاں حصے آئی وہیں ناکامیاں بھی راہ کا پتھر بنیں۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ’’ان کی کتاب عمر رواں،نہایت عمدہ انداز و اسلوب اور خوبصورت گٹ اپ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے جس سے ہماری قومی و ملی تاریخ کے نہ صرف نمایاں بلکہ بعض خفیہ گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ تحریکی یادداشتوں کا یہ ایک دلکش اور عمدہ مجموعہ ہے جو اپنے قاری کو مطالعہ مکمل کیے بغیر کتاب رکھنے نہیں دیتا۔‘‘
اس کتاب میں بہت سی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی شخصیات کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ جن میں میراں شاہ، مولانا مودودی، کوثر نیازی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر خورشید رضوی ودیگر اہم چہروں کی کہکشاں موجود ہے۔ بعض کتابیں پڑھتے ہوئے قاری بور ہونے لگتا ہے اور وہ اس کتاب کو اکتا کر درمیان ہی میں چھوڑ دیتا اور اسے مزید پڑھنا پسند نہیں کرتا ہے۔
مگر ’’عمر رواں‘‘ انتہائی دلچسپ کتاب ہے جو اپنے قاری کو شروع سے لے کر آخر تک بور نہیں ہونے دیتی اور قاری کا دل چاہتا ہے کہ وہ اسے پڑھتا ہی چلا جائے۔یہ اپنے قاری کو شروع سے اخیر تک اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔ یہ ایک تاریخی معلوماتی کتاب ہے ، جوں جوں اسے پڑھتے چلے جائیں تاریخی واقعات کی ایک فہرست عیاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کن اہم واقعات نے ملکی سیاست میں کیا اثرات چھوڑے سب راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔
یہ نصف صدی کے حالات و واقعات پر محیط کتاب ہے جس میں خاندانی حالات، روحانی زندگی، سید مودودی سے پہلی ملاقات کا احوال، جمعیت سے کیا حاصل کیا، مطالعہ کی عادت کیسے پڑی، سیاسی جدوجہد میں پہلی گرفتاری، 1970ء کے عام انتخابات اور ان کے ملکی سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات، زمانہ طالب علمی میں ہاسٹل کی زندگی پس دیوار زنداں جیسے عنوانات سے مصنف نے اپنے مشاہدات احساسات اور جذبات کو خوبصورت پیرائے میں رقم کیا ہے۔مصنف کی دیگر کتابوں میں ’’ سفر شوق‘‘ اور ’’ میرے رہنما ،میرے ہم نوا‘‘ بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی باتیں اور یادیں محض قصے کہانیاں نہیں بلکہ دعوت فکر دینے والی اور سبق آموز باتیں ہیں۔ ان کی سوانح عمری سدا بہار موسم کی طرح ہے جو انسان کو مطالعہ کے دوران اوکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کی انفرادیت کے حوالے سے اپنے ابتدائیہ میں رقم طراز ہے کہ’’کتاب میں بعض واقعات کو اتنا ہی کھول کر بیان کیا ہے جتنی ضرورت اور اجازت تھی، واقعات میں تاریخی تسلسل پوری طرح مدنظر نہیں رکھا جا سکا۔‘‘
’’عمر رواں‘‘ یہ ایک خوددار اور با اصول انسان کی داستان ہے جس نے افلاس اور تنگدستی کا استقلال اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور محض ذاتی کوشش و جانفشانی سے کامیابی کی منزل تک پہنچا۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں۔جن میں الفاظ یادِ ماضی اورعصرِ حاضر کی جدت طرازی کے چٹکے ہوئے پھول بھی اپنی نکہتیں لٹاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
کیسے گزری زندگانی لکھ رہا ہوں
میں محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں
ایک دن تجھ کو بڑھاپا دیکھنا ہے
یہ جوانی آنی جانی لکھ رہا ہوں
اس کتاب کا انتساب انہوں نے سید مودودیؒ ، اپنے ابا جی گلزار احمد مظاہریؒ اور اپنی اماں جی مرحومہ ودیگر عزیزو اقارب، احباب و رفقا کے نام کیا ہے۔ 400 صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب ان کی 71 سال کے شب ور وز اور ان کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔اس سے قبل بھی ان کی ایک کتاب ’’میرے رہنما میرے ہم نوا‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ جبکہ ’’عمر رواں‘‘ دلکش نقوش اور دلی تاثرات پر مشتمل ہونے کے باعث ایک تاریخی داستان بن گئی ہے۔
اس کتاب کو لاہور کے معروف اشاعتی ادارے قلم فائونڈیشن نے شائع کیا ہے۔ جس کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم ہے جو خود بھی بہت خوبصورت لکھنے کے باوصف ایک کتاب دوست شخصیت کے مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بھی اپنے حرف آغاز میں انہیں ایک کرشماتی شخصیت کے لقب سے نوازا ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ :
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
[ad_2]
Source link