12

نوٹوں کا جعلی پن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

’’سر! یہ نوٹ تو جعلی ہے۔‘‘

میڈیکل اسٹور پر کھڑے کھڑے جیسے میرے قدموں تلے زمین نکل گئی ہو۔ سارا زمانہ مجھے حیرت، طنز اور تمسخر سے دیکھ رہا ہو۔ بمشکل میں نے بولنے کی جسارت کی۔

’’ یار! میں ابھی کل ہی تو بینک سے نکلوا کر لایا تھا، جعلی کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’ سر! آپ خود دیکھ لیں ناں اس کا نمبر، SG-9788341 ، یہ تو ہوتا ہی نہیں اس میں۔‘‘

اب وہ میڈیکل اسٹور والا مجھے اس نوٹ کے ساتھ گویا میری غلطیاں بھی گنوا رہا تھا۔ اتنے برسوں سے گلشن اقبال کے اس میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدتا رہا تھا لیکن آج پہلی بار اس طرح کے حالات کا سامنا میرے لیے سخت شرمندگی و خفت کا باعث تھا۔

اس شام کی بے عزتی کے بعد میں چھ مئی بروز پیرکو اسی بینک ( یہ بینک بھی کراچی کے ڈھیروں بینکوں کی مانند نجی ہی ہے اس کا نام بھی ہے اور کام تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں) گیا اور ان سے اس ہزار روپے کے جعلی نوٹ کی بابت دریافت کیا۔ بینک منیجر صاحب نے جیسے کہ میں توقع بھی کر رہا تھا صاف انکار کر دیا کہ یہ نوٹ ان کے بینک کا نہیں ہے، لہٰذا وہ اسے لینے کے پابند نہیں ہیں اور بالکل یہی کلمات بینک کیشیئر نے ادا کیے جس نے مجھے ہزار کے ڈھیروں نوٹوں کی گڈی میں یہ نوٹ بھی یعنی جعلی نوٹ تھمایا تھا، گویا اب وہ ہزار کا نوٹ جو میری حلال کی کمائی میں شامل میرے کسی کام کا نہیں تھا میرا منہ چڑا رہا تھا۔ایسے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں ،جعلی نوٹ دینے والا کوئی بھی بنک اہلکار اپنی غلطی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا اور سراسر نقصان صارف کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔اب صارف لاکھ شور مچائے اس کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور صارف ہی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ نوٹ لیتے وقت اسے چیک کرنا چاہیے تھا۔

یہ واقعہ ابھی چند دن ہی گزرے ہمارے ایک ساتھی جرنلسٹ کے ساتھ پیش آیا، واجد رضا اصفہانی مختلف نیوز چینلز کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کی اس لگائی پوسٹ نے ہمارے لیے بہت سے سوال پیدا کر دیے ہیں اسی زمرے میں ان کے اپنے ایک اور برے تجربے کو بھی بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ پانچ ہزار کے جعلی نوٹ کے بارے میں ہے۔

پانچ ہزار کی رقم کم نہیں ہوتی، ایک تنخواہ دار آدمی کے لئے یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے،اس کی تو گزر بسر ہی اسی لگی بندھی تنخواہ پر ہوتی ہے۔ یہ واقعہ چار سال قبل یعنی 2019 کا ہے اور اس وقت پانچ ہزار کی بھی خاصی اہمیت تھی اور آج کل آسمان کو چھوتی مہنگائی بھی نہ تھی ( گو اس وقت بھی پاکستان مسائل میں ہی گھرا تھا لیکن کووڈ کے بعد کی صورت حال خاصی دگرگوں ہے۔) اس نوٹ کو انھوں نے کراچی کے ایک نجی بینک کے اے ٹی ایم سے کیش کرایا تھا اس کے جعلی ہونے کے ثبوت کے بعد وہ اس مذکورہ بینک کی برانچ میں گئے تو اس وقت ان کے ساتھ اخبار کے ایک کامرس رپورٹر بھی تھے۔

بینک منیجر نے کچھ پس و پیش کے بعد نوٹ واپس لے لیا۔ واجد بھائی کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنی صحافیانہ ذمے داری کو ہزار روپے کا نوٹ بدلنے کے لیے بھی استعمال کرتے جو انھوں نے اس وقت نہیں کیا تھا، وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے گئے تھے اور اگر وہ نوٹ تبدیل بھی ہو جاتا تو کیا ایک عام شہری کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاتا، کیا ہمارے بینک اس قدر محتاط ہیں کہ نوٹوں کی گنتی کرتے، نوٹ وصول کرتے اور ادا کرتے اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کے غیر محتاط رویے سے شہریوں کو کس قدر اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوال ایک بار پھر اٹھتا ہے کہ کیا جعلی نوٹوں کی گردش میں ہمارے بینک اہم کردار ادا نہیں کر رہے۔ کیا ایک عام انسان بینکوں سے وصول کیے نوٹوں پر ان کے جعلی ہونے کا شک کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ بات بہت سے اعلیٰ ایوانوں تک جا سکتی ہے۔

’’ ابے! مجھے کسی نے پچاس کا جعلی نوٹ ٹکا دیا۔‘‘ چنگچی رکشہ والا اپنی رو میں مگن تھا۔

’’ پھر تُو نے کیا کیا؟‘‘ ساتھی نے پوچھا تو جواب ملا۔

’’ میں کیا کرتا، میں نے بھی اسے چلا دیا، پان والے سے دو پان اور ایک سپاری لے لی۔‘‘ کھی کھی کھی کی صدائیں بلند ہوئی تھیں تو گویا کیا پچاس کیا ہزار اور کیا پانچ ہزار۔

جو ہزارکا جعلی نوٹ نظر پر جم گیا وہ خاصا استعمال شدہ تھا، یعنی نجانے کتنے ہاتھوں سے ادائیگی، وصولی کرتا کہیں قسمت کے مارے کے ہاتھ ٹھہر گیا تھا، اب یہ دینے والے کا قصور تھا یا اس کو پرکھنے والے کا، ہزار بار جعلی نوٹوں کی کرنسی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ان کے نمبرز تک دکھائے جا چکے ہیں، یہ نمبرز یہ احتیاط کسی قابل اعتماد ادارے کی جانب سے نہ تھے بلکہ ان قسمت کے ماروں نے شیئر کیے تھے جو اس طرح کے حادثات سے دوچار ہوئے تھے۔

ابھی چند ہی روز پہلے نوٹوں کی ایک جانب سے سادا کاغذ اعلیٰ اداروں کے لیے سوال اٹھا رہا تھا جس کا خدا جانے کیا انجام ہوا ہوگا۔ بات پھر وہی ہے کہ آج کل مہنگائی کے اس ہوش ربا طوفان میں ایک اور تکلیف دہ نشتر عوام کے لیے کیوں تیار رکھا گیا ہے۔ اتنے اہم اور بااعتماد ادارے کی جانب سے بار بار ایسی کوتاہیاں کیوں کی جا رہی ہیں۔

کیا ہمیں بہادر شاہ ظفر کے آخری دورکی یاد دلائی جا رہی ہے۔ یقینا ہم میں سے کسی نے وہ دور نہیں دیکھا، پر شاید ایسا ہی ہوا ہوگا، جس کی لاٹھی بھینس اسی کی، گائے اسی کی اور ساری بکریاں بھی اسی کی۔ اور ہم عوام بکریاں ہی تو ہیں، جہاں دل چاہے ہنکا دو۔ پھر بھی اپنے وطن کے لیے دعا گو ہیں کہ یہ تو ہماری ماں ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں