11

باچا جی۔ انقلاب کا بنجارہ

[ad_1]

خبر ایسی ہے کہ ذہن پریشان ہے کہ کیا لکھوں۔ بہرحال یہ چند الفاظ میرے استاد اور رہنما کی نذر کرتا ہوں۔

جمعرات 2مئی کو سوشل میڈیا سے معلوم کہ نیشنل پارٹی خیبر پختونخواہ کے سابق صدر ترقی پسند رہنماء سیّد مختار باچا انتقال کر گئے۔ ان کی جنازہ پشاور میں ادا کی گئی جب کہ تدفین بونیر(پیر بابا) میں آبائی قبرستان میں ہوئی‘ میرے لیے یہ خبر انتہائی دکھت تھی۔ وہ میرے استاد اور رہنما تھے ، چند الفاظ ان کی نذر کرتا ہوں۔

سید مختار باچا 25فروری 1944کو بونیر(پیربابا )کے ایک معززِ گھرانے میں پیدا ہوئے ‘کراچی اور پشاور یونیورسٹی سے باٹنی میں ماسٹر کیا‘ ان کی پوری زندگی انقلابی جدوجہد کی کہانی ہے ‘خیبر پختونخوا کے پشتو بولنے والے علاقوں میں سامراج دشمن شعور کی بنیاد باچا خان‘ کاکاجی ‘خوشحال خان اور مولانا عبدارحیم پوپلزئی نے رکھی تھی‘ محترم اجمل خٹک نے ترقی پسند کارکنوں کو منظم کرنے کے لیے بہت کام کیا‘ مختارباچا جی بھی ان کے شاگرد تھے‘ان کے توسط سے کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور آخر دم تک پارٹی کے سیکریٹری رہے۔

یہ خبر سن کر مجھے باچا جی کے زیر سایہ گزرے ہوئے 32 سال کا ایک سایہ میرے نظروں کے سامنے بجلی کی چمک کی طرح لپک گیا‘کیا دن تھے جب ہر طرف ایشیاء سرخ ہے کے نعرے گونجتے تھے ‘ موجود خیبرپختونخوا اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں مارکسی اسٹڈی سرکل ہو رہے تھے ‘ ایک اور کامریڈ اسد آفریدی ،خدا صحت دے ، وہ پارٹی کی صوبائی کمیٹی کے سیکریٹری تھے ، مختار باچا اور وہ ہر وقت مصروف رہتے تھے‘میرے ذمے بھی کافی کام تھا۔

جب باچا جی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے تو ان کا کام اور بھی بڑھ گیا‘ ہم چند ساتھی شام کو سرفراز محمود کے ڈیرے میں اکھٹے ہوتے اور دن بھر کی پراگرس شئیر کرتے۔سید مختار باچا کی موت سے ایسے لگا جیسا کہ میں ایک مہربان سایہ سے محروم ہوگیا ہوں۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کے لیے کامریڈ سجاد ظہیر نے بہت کام کیا تھا لیکن خیبر پختونخوا میں پختونوں کے رجعت پسند معاشرے میں ترقی پسند تحریک کو منظم کرنا یقیناً بڑا کارنامہ ہے۔

میں نے 1972میں وکالت کی ڈگری حاصل کی اور گائوں آکر وکالت کرنے لگا‘ یونیورسٹی میں پہلی ترقی پسند طلباء تنظیم ’’ پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے کارکن کی حیثیت سے بہت ایکٹیو کردار ادا کیا تھا‘ایک شام کو ساتھی نعیم خان آف زیدہ مرحوم میرے پاس آئے اور کہا کہ ایک مہمان آرہا ہے ‘آپ سے ملاقات کا خواہشمند ہے‘ آپ کل میرے پاس آجائیں‘میں اگلے دن ان کے ہاں پہنچ گیا ‘ یہ مختار باچا سے میری پہلی ملاقات تھی ‘اس ملاقات نے میری زندگی بدل دی ‘ مختا ر باچا نے بتایا کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی موجود ہے لیکن اس پر پابندی ہے، ہم انڈر گرائونڈ کام کر رہے ہیں‘ اورباہر نیشنل عوامی پارٹی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

انھوں نے مجھے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اور پشاور آنے کی‘ ہم تو ویسے ہی انقلابی تھے ‘اگلے دن پشاور گئے اور ایک پارک میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش سے ملاقات ہوئی ‘ انھوں نے مرتے دم تک پوری زندگی انڈر گراؤنڈ گزاری ‘یہ غالباً 1973کی جنوری کا کوئی دن تھا ۔ یوں میں اور کامریڈ نعیم خان دونوںکمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے ‘پھر پارٹی کے مختلف اداروں میں کام کیا اور آخر میں مرکزی کمیٹی کا ممبر بن گیا ۔

سید مختار انڈر گراؤنڈ رہے ‘ہم کئی بار اکٹھے گرفتا ر ہوئے ‘باچا جی خاموش خاموش پھرتے ‘جس سے ملاقات ہوتی ، اسے لازمی ایک کتاب دے کر پڑھنے کی تلقین کرتے۔ اس وقت کے صوبہ سرحد میں پارٹی کے زیر اثر ‘مزدوروں کی انتہائی منظم تحریک‘ متحدہ لیبر فیڈریشن‘‘ صدر گل رحمان‘ فقیر حسین اور علی اکبر چلا رہے تھے ‘ طلباء کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن “DSF”  کو امداد چانڈیو‘انور زیب‘ کفایت اور ذاکر سنبھالے ہوئے تھے‘ کسانوں کی تنظیم ’’کسان جرگہ‘‘ بھی شہنشاہ باچا کی زیر نگرانی پارٹی کے ونگ کے طور پر کام کر رہی تھیں‘ادبی محاذ پر رحمت شاہ ساحل اور دیگر دوست سرگرم تھے۔

پارٹی کا دفتر قصہ خوانی بازار پشاور تھا‘ انھی ایام میں افغانستان میں انقلاب بھی کامیاب ہو گیا تھا‘ترقی پسند تحریک پورے عروج پر تھی۔میں آج حساب لگاتا ہوں تو میں نے پارٹی ممبرشپ کے دوران آٹھ سال قید وبند اور پانچ سال مفروری کی زندگی گزاری ‘وکالت بیچ میں رہ گئی ‘اس انقلابی جدوجہد کے دور میں مختار باچا جی کی سرپرستی ہمیشہ شامل حال رہی۔ممبرشپ کی شرائط سخت تھیں لیکن پھر بھی ممبرز کی تعداد بڑھتی رہی ‘ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد ہم ساتھیوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی لیکن ہماری پارٹی کو الگ کردیا گیا۔

پھر ہم میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل پارٹی میںشامل ہوگئے ‘پھر عوامی نیشنل میں چلے گئے‘ہر جگہ ہماری سرگرمیاں مسئلہ بن جاتیں‘ آخر میں ہم نے پارٹی کو قانونی شکل دینے کے لیے اس کا نام تبدیل کرکے ’’ قومی انقلابی پارٹی‘‘ رکھ دیا۔ افغانستان میں کمیونسٹوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ہم محسوس کر رہے تھے کہ پاکستان میں بھی انقلاب نزدیک ہے‘پارٹی کے ہزاروں ممبر بن چکے تھے، گراس روٹ لیول تک تنظیمیں قائم ہورہی تھیں لیکن افغانستان کی رد انقلاب مذہبی اور سامراج دوست جماعتوں اور طبقات نے امریکا کی سرپرستی میں چھاپہ مار جنگ شروع کردی۔

ادھر گورباچوف کی پریسٹورائیکا اور گلاسنوسٹ پالیسوں نے سوویت یونین میں نظریاتی خلفشار پیدا کردی ، یوں افغانستان ، ایران اور پاکستان میں ترقی پسند مایوسی کا شکار ہونا شروع ہوگئے، بورس یلسن اور اس کے ٹولے نے سوویت یونین تحلیل کردیا، یوں ساری امیدیں اور جذبے ٹوٹ گئے‘پارٹی کو ایک سازش کے تحت قوم پرست پارٹی بناکر بعدمیں ختم کردیا گیا۔

مختار باچا جی بہت رنجیدہ ہوئے، انھوں نے پارٹی کا نوحہ بھی ’’بھکرے موتی‘‘ کے نام سے لکھا‘انھوں نے بطور سیکریٹری جنرل کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی ‘اپنی محنت کو ضایع ہوتے دیکھ کر وہ اور بھی رنجیدہ ہوجاتے۔ترقی پسند تحریک کے ساتھیوں نصیر خیام ‘ سرفراز محمود‘نعیم خان ‘فقیر حسین‘گل رحمان صدر صاحب‘ڈاکٹر خالق زیار‘جمیل ایڈوکیٹ دیر‘ کفایت ایڈوکیٹ ‘لطیف آفریدی ایڈوکیٹ‘سلیم راز‘ سیف الرحمان سلیم ‘شمس بونیری ‘ ‘بلوچستان کے ساتھی‘ میرا خان مندو خیل ‘امان بازئی ‘جلیل مردان زئی ‘اور بہت سے دوسرے مخلص کی موت اور ترقی پسند تحریک کے زوال نے باچا جی پر بہت اثرکیا ‘انھوں نے بلوچستان کی نیشنل پارٹی میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا کام جاری رکھا۔

مرتے دم تک کبھی امن کانفرنس کبھی اسٹڈی سرکل کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچاتے رہے ‘ہر ترقی پسند ساتھی پشاور آکر ان کو سلام ضرور کرتا۔سوشلسٹ کیمپ کے انہدام اور’’ تاریخ کا خاتمہ‘‘ جیسی کتابوں نے ترقی دانشوروںکو مایوس کردیا لیکن باچاجی ساتھیوں کو حوصلہ دیتے اور تبدیلی کی امید دلاتے۔ باچا جی نے دو تین بار ایک نئی پارٹی بنانے کے لیے اجلاس منعقد کیے لیکن کامیاب نہ ہوسکے‘ اس کی بڑی وجہ معروضی حالات تھے ۔ان کی صحت خراب ہوتی گئی اور آخر کار اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے‘ساتھی قیصر آخر تک ان کے ساتھ رہے۔ اب ہم ان کی مغرفت کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں۔ شاید کبھی انقلاب آجائے تو ان کی روح لازمی خوش ہوگی…



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں